گذرے بدھ وار مقبوضہ جموں و کشمیر کے الیکشن کمشنر ہردیش کمار نے ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص مرحلہ وار مٹانے کے تین برس سے جاری ہندوتوائی منصوبے کے تھیلے سے ایک اور بلی یہ کہہ کے چھوڑ دی کہ اگلے برس کے آغاز میں ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں وہ تمام ہندوستانی بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں جو عارضی طور پر ریاست جموں و کشمیر میں مقیم ہیں۔
ان میں بھارتی فوجی و نیم فوجی ، سرکاری و نجی ملازم ، طلبا اور باہر سے کام کی تلاش میں آنے والے مزدور ، کاروباری اور ہنر مندوں سمیت سب ہی شامل ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی جھٹکے میں ریاستی انتخابی فہرستوں میں کم ازکم پچیس لاکھ ووٹروں کا اضافہ ہو جائے گا۔جو چھہتر لاکھ موجودہ کشمیری ووٹروں کا لگ بھگ تیس فیصد ہیں۔
پانچ اگست دو ہزار انیس کو جموں و کشمیر کے خصوصی آئینی تشخص کے دستوری ضامن آرٹیکل تین سو ستر کو غیر موثر کرنے کے یک طرفہ فیصلے کے بعد سب سے پہلے ریاست کو دو انتظامی حصوں ( لداخ اور جموں و کشمیر ) میں بانٹا گیا اور پھر یہاں وہی الیکشن ایکٹ لاگو ہو گیا جو دیگر بھارتی ریاستوں پر لاگو ہے۔
اب کوئی بھی غیر کشمیری جو ریاست میں پندرہ برس سے قیام پذیر ہو مقامی ڈومیسائل بنوا سکتا ہے ، املاک کی خرید و فروخت کر سکتا ہے ، نوکری حاصل کر سکتا ہے اور ووٹ بھگتا سکتا ہے۔ بلکہ ووٹر بننے کے لیے ڈومیسائل اور مستقل رہائش کی شرط بھی اڑا دی گئی ہے۔
آخری مردم شماری ( دو ہزار گیارہ ) کے مطابق لداخ سمیت مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی کل آبادی سوا کروڑ ہے۔اس میں مسلمانوں کا تناسب اڑسٹھ اعشاریہ اکتیس فیصد اور غیر مسلموں کا تناسب اٹھائیس اعشاریہ اڑتالیس فیصد ہے۔سوا کروڑ میں سے ستر لاکھ نفوس وادی میں رہتے ہیں اور ان میں بھی ستانوے فیصد مسلمان ہیں۔
مسلمان اکثریت کی سیاسی طاقت کترنے کے لیے نئی انتخابی حلقہ بندی پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے۔اس کے مطابق تراسی رکنی پرانی کشمیر اسمبلی میں سات نئی نشستوں کا اضافہ کیا گیا۔ان میں سے چھ نشستیں جموں کے ہندو اکثریتی علاقے کو اور ایک نئی نشست مسلم اکثریتی علاقے کے حصے میں آئی۔یوں نئی اسمبلی میں جموں کی نشستیں سینتیس سے بڑھ کے تینتالیس ہو جائیں گی اور وادی کی نشستیں چھیالیس سے بڑھ کے سینتالیس۔اس حلقہ بند کاٹ چھانٹ اور پچیس لاکھ غیر ریاستی ووٹروں کے یکلخت اضافے کا حتمی ہدف ریاست کی تاریخ میں پہلی بار مقامی سیاسی جماعتوں کے بجائے غیر کشمیری جماعت بی جے پی کے پہلے غیر مسلم وزیرِ اعلیٰ کو کرسی پر بٹھانے کا خواب سچا کرنا ہے۔
بی جے پی وادی میں کبھی بھی کوئی نشست نہ جیت پائی۔البتہ دو ہزار چودہ کے ریاستی انتخابات میں جموں کی سینتیس میں سے پچیس نشستیں ضرور جیتیں اور محبوبہ مفتی کے ساتھ مخلوط حکومت میں ساجھے داری حاصل کر لی۔اور پھر بی جے پی نے جس خیمے میں گردن ڈالی دو ہزار انیس میں وہ خیمہ ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
بی جے پی کو قوی امید ہے کہ نئے غیر کشمیری ووٹروں کے اضافے سے وہ اگلے ریاستی انتخابات میں پہلی بار وادی کے مسلم اکثریتی علاقے سے بھی اکادکا نشستیں پکڑنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
کچھ کشمیری تجزیہ کار ان پے درپے اقدامات کا حتمی مقصد یہ قرار دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو رفتہ رفتہ انھی کی واحد اکثریتی ریاست میں سیاسی اقلیت میں بدلنے کے اگلے مرحلے میں املاک ہتھیانے ، خریدنے یا طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے کھدیڑنے کے اسرائیلی ماڈل کو عملی جامہ پہنا کے کشمیری مسلمانوں کو بے وطن فلسطینیوں میں بدلنے کی ایک بھرپور کوشش ہے۔
کیا المناک کامیڈی ہے کہ بی جے پی کی نظریاتی والدہ آر ایس ایس کی نظریاتی بنیاد جرمن نازیت ہے اور بی جے پی کشمیر میں اسرائیل ماڈل پر عمل پیرا ہے۔
اچھے وقتوں میں دہلی سے درآمد دوررس انتظامی و سیاسی فیصلے یا پالیسیاں نافذ کرنے سے پہلے لیپا پوتی کی خاطر کشمیر کی بھارت نواز حکومتوں سے رسمی مشورہ کرنے کی روایت تھی۔ البتہ گزشتہ تین برس میں کشمیریوں کے مستقبل کی شکل بگاڑنے کے لیے تمام دوررس فیصلے براہ راست دلی سے ریاست پر بذریعہ گورنر تھوپ دیے گئے۔
اب جو بھی نئی ریاستی اسمبلی تشکیل پائے گی اس کا پہلا کام یہ ہوگا کہ پانچ اگست دو ہزار انیس کو آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے کے بعد سے کیے گئے اب تک کے تمام ناجائز فیصلوں کی قانونی توثیق کرے۔
آزادی پسند گروہ تو خیر اس پورے ڈرامے کو بھارتی آئین سمیت یکسر مسترد کرتے آئے ہیں۔البتہ ہند نواز کشمیری جماعتیں ہر ایسے مرکزی اقدام کے بعد تھوڑا بہت پھڑپھڑاتی ہیں اور پھر اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے کی خاطر ان قبضہ گیر سامراجی پالیسیوں کی اپنے معنی خیز سکوت سے توثیق بھی کر دیتی ہیں۔
مثلاً انتخابی فہرستوں میں یک دم پچیس لاکھ غیر کشمیری ووٹروں کے اضافے کی مذمت کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس اعلان کو انتخابی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ہٹلر تمام تر ہلاکت خیز کوششوں کے باوجود یہودیوں کا وجود ختم نہیں کر پایا۔بعینہ اسرائیل بے پناہ مظالم توڑنے کے باوجود فلسطینی تشخص آج تک نہیں مٹا سکا۔بی جے پی کا شیطانی منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہو پائے گا۔
ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر فاروق عبداللہ نے محبوبہ مفتی کے مقابلے میں نسبتاً ہلکا ہاتھ رکھتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا بی جے پی کشمیر میں اپنے سیاسی وجود کے بارے میں اس قدر بے یقین ہے کہ اسے مدد کو عارضی ووٹر بلانے پڑ گئے۔پر کچھ بھی کر لیں جب اصلی ووٹر باہر نکلے گا تو دہلی حکومت کی تمام امیدیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
آئی ایس پی آر اور اسلام آباد میں پاکستانی دفترِ خارجہ نے کشمیر کے ’’ آخری حل ‘‘ کے بھارتی منصوبے کی تازہ کڑی کی کڑی مذمت کر کے اپنا روایتی حق ادا کر دیا۔قوی امید ہے کہ جب شہباز شریف ، عمران خان ، بلاول اور فضل الرحمان کو سیاسی چھیچھا لیدر سے قدرے فرصت نصیب ہو گی تو وہ بھی کشمیری مسلمانوں کو دن دھاڑے اقلیت میں بدلنے کے تازہ ہتھکنڈے کی ضرور شدید مذمت کر کے پھر آپسی گالم گفتار میں لگ جائیں گے۔
ہماری کنواں نما دنیا تو ایسی ہی چھوٹی چھوٹی امیدوں پر قائم ہے۔