ماضی میں کیسے کیسے عظیم اساتذہ گزرے ہیں جن کے ہونہار شاگردوں نے ان پر کتابیں لکھیں مگر کچھ بدنصیب اساتذہ ایسے بھی ہیں جن کے ناخلف شاگردوں نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ ان نظر انداز کئے گئے عظیم اساتذہ میں سے ایک میں بھی ہوں، مجال ہے کسی شاگرد کو توفیق ہوئی ہو کہ وہ چار توصیفی لفظ ہی میرے بارے میں بھی لکھ دیتا۔بس کبھی سرِراہ ملاقات ہو جاتی ہے تو میری خدمات کا اعتراف کرتے ہیں بہت عزت دیتے ہیں، ایک بار دو ڈاکوئوں نے رات کے اندھیرے میں مجھ پر پستول تان کر کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ہمارے سپرد کر دو، اتنے میں سامنے سے ایک کار کی لائٹ پڑی تو ان دونوں نے پستول جیب میں ڈال لی اور ’’سوری سر‘‘ کہہ کر وہاں سے چلے گئے۔ یہ دیکھ کر خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی شاگردانِ عزیز میں بھی اپنے عظیم اساتذہ کا احترام باقی ہے۔
ایک بار لڈو پیٹھیاں والے کھانے کے لئے ریڑھی سے میں نے ایک پلیٹ بنوائی جب میں پیسے ادا کرنے لگا تو اس نے کہا سر کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ میں آپ کا شاگرد رہا ہوں اور اس مقام تک آپ کی دعائوں اور تربیت کے طفیل ہی پہنچا ہوں۔ یہ سن کر احساسِ تشکر سے میری آنکھیں ایک بار پھر پرنم ہوگئیں۔ میری زندگی میں ایسے ایک دو نہیں بیسیوں واقعات ایسے گزرے ہیں جن سے دل کو اطمینان حاصل ہواہے کہ میرے ایسے ہونہار شاگرد نے میرے بارے میں کوئی کتاب نہیں لکھی۔ ایک بار میرا سکوٹر خراب ہوگیا، یہ کوئی پچاس سال پہلے کی بات ہے، میں میکلوڈ روڈ کی ایک دکان پر گیا تو مجھے دیکھ کر موٹر سائیکل کے پرزوں کی اس دکان کے مالک کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، وہ میرا شاگرد رہ چکا تھا مجھے دیکھ کر ایک پنجابی محاورے کا استعمال کرتے ہوئے بولا، ’’کٹری دے گھر نرائن‘‘ آگئی اور پھر اس نے مجھ سے بھرپور معانقہ کیا، اس کی دکان میں صرف ایک کرسی تھی جو اس کے اپنے لئے تھی اس نے مجھے کرسی پر بٹھایا اور میرے سامنے کھڑا مسلسل محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھتا رہا، میں نے جن پرزوں کی ضرورت تھی، فہرست اس کے ہاتھ میں تھمائی جو اس نے فوراً اپنے ملازم کے سپرد کی، کچھ دیر بعد ملازم نے وہ سارے پرزے اور ایک بل میرے سامنے رکھ دیا، میرے ہونہار شاگرد کی نظر اس بل پر پڑی تو غصے سے تلملاتے ہوئے اسے کہا ’’یہ بل انہیں کیوں دیا یہ مجھے دو۔‘‘ اس کے بعد اس نے بل پر نظر ڈالی اور بیچارے ملازم کی ایسی کی تیسی کردی، ’’تم جانتے نہیں یہ کوئی معمولی شخصیت نہیں، میرے محترم استاد ہیں، تمہیں شرم نہیں آئی تین سو دس روپے کا بل انہیں تھماتے ہوئے، اس بل میں سے دس روپے نفی کرکے نیا بل بنا کر لائو۔‘‘
میں بطور استاد اپنے شاگردوں کو صرف نصابی کتابیں پڑھایا کرتا تھا ، میںچوں کہ نیا نیا لیکچرر بنا تھا اور یوں انہی کی طرح جوان تھا اور جانتا تھا کہ اس عمر میں نوجوان شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور ان میںسے کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جو وہ کسی کے سامنے بیان نہیں کرپاتے۔ چنانچہ میں نے کلاس میں اعلان کردیا کہ میں جانتا ہوں آپ کے ذہن میں ایسے سوالات آتے ہوں گے جو آپ کسی دوسرے کے سامنے کرتے ہوئےشرماتے ہیں میں آپ کا استاد بھی ہوں اور آپ کا قابلِ اعتماد دوست بھی، چنانچہ فارغ پیریڈ میں آپ میرے کمرے میں آ کر اپنے مسائل مجھ سے ڈسکس کر سکتے ہیں اور یقین کریں یہ سب معاملات صرف میرے اور آپ کے درمیان ہی رہیں گے۔ سو ایک دن ایک شاگرد میرے کمرے میں آیا، کافی دیر تک سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا بالآخر میں نے اسے کہا برخوردار شرمائو نہیں کھل کر بیان کرو۔ یہ سن کر اس نے سر اوپر اٹھایا اور دھیمی آواز میں بولا، ’’سر، مجھے رات کو گندے گندے خواب آتے ہیں۔‘‘ میں نے اس کی پریشانی دور کرنے کے نقطۂ نظر سے کہا برخوردار یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں، گندے گندے خواب تو خود مجھے بھی آتے ہیں۔ میری یہ بات سن کر وہ اٹھ کر چلا گیا اور مطمئن ہوگیا ۔
میں اگلے روز اپنے کلاس روس میں داخل ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے دیکھتے ہی لڑکوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیںاور کھی کھی کرکے ہنس رہے ہیں، مجھے پہلے تو سمجھ نہ آئی جب سمجھ آئی تو میں نے اس لڑکے کو جو مجھ سے اپنی پریشانی بیان کرنے آیا تھا، پیریڈ ختم ہونے پر اپنے کمرے میں بلایا، وہ چلا آیا اور صرف ’’لخ دی لعنت‘‘ کہہ کر اسے واپس بھیج دیا۔ اس دن کے بعد سے میں نے اپنے نفسیاتی مشوروں کا سلسلہ بھی بند کردیاہے۔