داعش کا علاج ایسے کیا جائے

کچھ عرصہ سے مغربی مفکرین اس فکر میں ہیں کہ داعش سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے اس کے لیے انہوں نے عراق کی تقسیم کا سکہ اچھالا ہے۔ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ پاکستان میں بھی مغرب زدہ مفکرین نے اس خیال کو یوں اپنایا ہے جیسے بھلے وقتوں میں والدین کی ہر بات کو بلا چوں چراں تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ ان کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کو توڑوبنگلہ دیش، سندھو دیش، بلوچستان، پنجاب اور پختونستان بنا، ارے سندھ میں مہاجردیس بناؤ، اچھا اچھا اب کیا کیا جائے؟ سندھ میں ریاست خیر پور میرس کو سندھ سے آزادی چاہیے، اچھا پنجاب اتنا بڑا کیوں ہے اسے وسطی پوٹھوہاری اور سرائیکی حصوں میں بانٹ دو، اوہ سرائیکیوں میں ملتانی اور ریاستی الگ الگ کرو، بلوچستان کو مکران، قلات اور کوئٹہ جیسے حصوں میں تقسیم کر دو۔

پیارے پاکستانیو۔۔۔! کیا یہ ہونا چاہیے؟ یقیناًنہیں
تو پھر مغرب کی بکواس کہ عراق ٹوٹنا چاہیے اور تین ریاستیں شیعہ، سنی اور کرد قومیت پہ مبنی سامنے آئیں کو ہم کیوں قبول کریں؟

جتنی تقسیم ہو گی اتنی ہی جنگیں ہوں گی۔عراق کی تقسیم ایک نیا مسئلہ شروع کر دے گی اس کے نتیجے میں مشرق وسطی کے اندر اسلحے اور قوت کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔

سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں میں کمی کر کے جہاں امریکی شیل آئل کو نکلنے سے روکا ہے وہاں اس نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی معیشتوں پہ کاری ضرب لگائی ہے۔ اب ایک نئی ریاست کا قیام عمل میں لانے کے مقاصد سستے تیل کا حصول، ہتھیاروں کی فروخت اور دنیا میں اپنا تسلط قائم رکھنا ہے۔جب تک مقامی لوگ آپس میں لڑتے رہیں گے تب تک انہیں اسلحے کی ضرورت رہے گی، اس کے لیے جو پیسہ درکار ہو گا وہ تیل بیچ کر ہی آئے گا۔ لہذا اسلحہ فروش ممالک کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے گا۔

عراق میں داعش اور شام کے درآمد شدہ باغی گروہوں کے معاملے پر مغرب کی دوہری پالیسی یہ عیاں کرتی ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ آزاد ذرائع اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ داعش اور ان نام نہاد باغی گروہوں کے نظریات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ شام کی حکومت ان لوگوں کے حوالے کرنا اس صورتحال سے بھی بدتر ہو گی جو افغانستان میں طالبان کو لا کر کی گئی تھی۔ جس طرح پاکستان کے معاملات کا حل یہ ہے کہ اچھے طالبان اور برے طالبان کی تمیز ختم کر کے ان کے خلاف سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی محازوں پہ لڑنے کی ضرورت ہے اسی طرح وسطی ایشیا میں بھی اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد کی تمیز ختم کرتے ہوئے تمام محازوں پہ بیک وقت جنگ ضرور ی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نہایت اہم ہے بات کہ سعودی عرب کو چاہیے کہ یہ شیل آئل سے مقابلے کا ڈرامہ بند کر کے باقی ممالک کی معیشت کو ان بحرانات سے نکلنے میں مدد دے۔

داعش کو ختم کرنا ہے تو اس سوچ کو ختم کرنا ہو گا جو اس کی بنیاد ہے اور اس ان عوامل کو ٹھیک کرنا ہو گا جو اس چنگاری کو ہوا دے رہے ہیں۔ ورنہ داعش تو القاعدہ کی طرح شاید ختم ہو جائے مگر ایک نئی داعش یا القاعدہ جنم لے لے گی جو ان سے بھی سفاک ہو گی۔ [pullquote]بشار الاسد کی حکومت ہٹانے کا مطلب یہی ہو گا کہ وہاں پر ایک نئی القاعدہ کی بنیاد رکھی جائے اور عراق کی تقسیم کے ذریعے ان کو ایک قانونی حکومت کا جواز فراہم کر دیا جائے[/pullquote]۔ ہم سب کو یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ایسا ہونے کی صورت میں جنگ کا میدان مشرق وسطی سے وسیع ہو کر یورپ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا تک پھیل جائے گا۔ اس سب کے نتیجے میں فائدہ اسلحہ بیچنے والوں اور تیل خریدنے والوں کو ہی ہو گا۔ پاکستانی حلقوں میں تقسیم اور عراق کے اس نقطہ نظر کی حمایت کرنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے