لکٹن اسٹائن (Liechtenstein) سوئٹزر لینڈ کے اندر ایک چھوٹا سا آزاد ملک ہے‘ آبادی 38 ہزار ہے‘ رقبہ اسلام آباد سے بھی کم ہے اور اس کے دارالحکومت ودوز (Vaduz) میں صرف ساڑھے پانچ ہزار لوگ رہتے ہیں۔
یہ دنیا کا چھٹا مختصر ترین اور امیرترین ملک ہے‘ ایک سرحد سوئٹزر لینڈ‘ دوسری جرمنی اور تیسری آسٹریا سے ٹچ کرتی ہے‘ ملک میں فوج‘ نیوی اور ائیرفورس نہیں‘ پولیس نہ ہونے کے برابر ہے‘ جیل بھی نہیں ہے‘ اگر جرم ہو جائے تو وکیل‘ جج اور عدالت کا بندوبست دوسرے ملکوں سے کیا جاتا ہے‘ مجرم کو جیل کے لیے بھی سوئٹزرلینڈ یا آسٹریا بھجوانا پڑتا ہے۔
پولیس فورس بھی آسٹریا سے ادھار لی جاتی ہے اور حکومت باقاعدہ اس کے سروس چارجز ادا کرتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ مختصر سا ملک بھی ٹھیک ٹھاک امیر ہے‘ فی کس آمدنی ایک لاکھ 80ہزار ڈالرہے اور لوگ انتہائی مطمئن اور خوش ہیں۔
یہ لوگ مصنوعی دانتوں ‘ڈرل مشینوں اور کرسٹل کے زیورات میں پوری دنیا کو لیڈ کرتے ہیں‘ لکٹن اسٹائن پوری دنیا کو مصنوعی دانت اور دانتوں کی ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے چناں چہ آپ دنیا کے کسی بھی ملک سے مہنگے مصنوعی دانت لگوا لیں ان کے پیکٹ پر میڈ اِن لکٹن اسٹائن لکھا ہو گا‘ دنیا کے 20 فیصد مصنوعی دانت اس چھوٹے سے ملک میں بنتے ہیں۔
میں تین دن کے لیے سوئٹزر لینڈ پہنچا‘ ہمارا گروپ اس وقت سوئٹزرلینڈ میں تھا‘ میں نے زیورچ میں گروپ جوائن کیا اور انھیں لے کر ’’لکٹن اسٹائن‘‘ چلا گیا‘ یہ زیورچ سے سوا گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ ہم سہ پہر کے وقت ودوز پہنچے‘ ٹاؤن میں ہوکا عالم تھا‘ گلیاں خالی‘ ٹیرس ویران اور چائے خانے اور کافی ہاؤسز کلوز تھے۔
معلوم ہوا لوگ یہاں گلیوں میں پھرنا اور شور شرابا پسند نہیں کرتے‘ لنچ کے وقت اور ڈنر کے ٹائم ٹریفک بھی بند ہو جاتی ہے‘ کھانے کے وقت کسی کو ڈسٹرب کرنا گناہ سمجھتے ہیں چناں چہ لنچ اور ڈنر کے وقت مکمل خاموشی ہوتی ہے‘ صبح وقت پر دفتر جاتے ہیں اور چھٹی کے وقت گھر آ کر آرام کرتے ہیں یا پھر کتابیں پڑھتے ہیں۔
ہمسایوں سے گپ شپ بھی معیوب سمجھی جاتی ہے‘ ہم اس شہر نما ملک میں چار گھنٹے پھرتے رہے لیکن ہمیں وہاں تین گھوڑوں کے سوا کوئی شخص دکھائی نہیں دیا‘ جاگنگ یا واکنگ ٹریکس پر کچھ لوگ کتوں کے ساتھ ٹہل رہے تھے ورنہ یوں محسوس ہوتا تھا شہر کے تمام لوگ کسی آفت کی وجہ سے نقل مکانی کر گئے ہیں‘ملک میں بادشاہت ہے۔
بادشاہ ’’دی پرنس‘‘ کہلاتا ہے‘ شہر کا قلعہ بڑا‘ خوب صورت اور مرکزی بلڈنگ ہے‘ شاہی خاندان آج بھی اسی قلعے میں رہتا ہے چناں چہ قلعے کے اندر جانا منع ہے لیکن قلعے کے سامنے تصاویر بنائی جا سکتی ہیں‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جسے آپ کرائے پر بھی لے سکتے ہیں‘ آپ 70 ہزار یورو ادا کر کے ایک دن کے لیے اس ملک کے صدر بھی بن سکتے ہیں۔
ساری سڑکیں اور گلیاں اپنے نام کر سکتے ہیں اور اپنا کرنسی نوٹ بھی جاری کر سکتے ہیں‘ آپ 70 ہزار یوروز ادا کر کے ملک کرائے پر بھی لے سکتے ہیں اور اس کے بعد جو چاہیں کریں لیکن آپ کی وجہ سے عام لوگ ڈسٹرب نہیں ہونے چاہییں‘ افرادی قوت کی بہت کمی ہے‘ ملک میں 32 ہزار ملازمتیں ہیں‘ کام کے لوگ 16 ہزار ہیں لہٰذا باقی 16 ہزار آسٹرین اور سوئس ہیں‘ صبح آتے ہیں اور شام کو واپس چلے جاتے ہیں‘ لوگ دھیمے اور فرینڈلی ہیں۔
آپ انھیں دیکھ کر مسکرائیں یہ دل کھول کر مسکرائیں گے لیکن گپ شپ نہیں کریں گے‘ سمائل پاس کر کے آگے بڑھ جائیں گے‘ مکان سادے لیکن آرام دہ اور خوب صورت ہیں‘ انگور کے فارم زیادہ ہیں اور پوری دنیا میں مشہور ہیں‘ اپنی ضرورت کی شراب خود بناتے ہیں‘ زبان بھی جرمنی سے تھوڑی سی مختلف ہے‘ جھنڈا اور ترانہ بھی الگ ہے۔
آسٹریا اور سوئس کے زیراثر ہیں لیکن اپنی پالیسیاں خود بناتے ہیں‘ دوسرے ملکوں کی ڈائریکشن نہیں لیتے‘ دانتوں کے کلینکس اور نقلی دانتوں کی دکانیں زیادہ ہیں‘ آپ اپنی پسند کے دانت یہاں سے خرید سکتے ہیں‘ دانت آرڈر پر بھی تیار ہوتے ہیں‘ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں اپنے لیے دانت یہاں سے پسند کرتے ہیں۔
مصنوعی دانتوں کا انٹرنیشنل برینڈآئیووکلارویویڈنٹ (Ivoclar Vivadent) یہاں ہے‘ فیکٹری میں ساڑھے تین ہزار لوگ کام کرتے ہیں اور یہ 130 ملکوں کو دانت سپلائی کرتا ہے‘ ٹیکس فری ملک ہے لہٰذا بینک تگڑے ہیں‘ فارنر پراپرٹی نہیں خرید سکتا‘ کام کرنے والے فارنر بھی ملک میں رات نہیں گزار سکتے‘ یہ صبح آتے ہیں اور شام کے بعد سرحد پار کر جاتے ہیں۔
پورے ملک میں صرف ایک پاکستانی ہے‘ ان کا نام ارشد ہے‘ بھمبر سے تعلق رکھتے ہیں اور 30 سال قبل یہاں آباد ہوئے تھے مگر بدقسمتی سے میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی‘ ملک میں تین بڑی کمپنیاں ہیں اور تینوں انٹرنیشنل ہیں‘ سب سے بڑی کمپنی سوراسکی (Swarovski) ہے‘ یہ کمپنی 1900میں ڈینیل سوراسکی نے بنائی تھی‘ یہ کرسٹل کو ہیرے میں بدل دیتی ہے‘ اس کے 120 ملکوں میں آؤٹ لیٹس ہیں اور سالانہ 3 بلین ڈالر کماتی ہے۔
دوسری بڑی کمپنی کا نام ہلٹی (Hilti) ہے‘ یہ ڈرلنگ ٹول بناتی ہے‘ ڈرل مشین اور پیچ کس سے لے کر زمین میں میلوں لمبے سوراخ کی ٹیکنالوجی یہ کمپنی دیتی ہے‘ٹولز میں دنیا میں نمبر ون ہے‘ مختلف قسم کے 24 ہزار آلات بناتی ہے اور تیسری کمپنی آئیووکلارویویڈنٹ (Ivoclar Vivadent) ہے‘ یہ ہر سال لاکھوں لوگوں کو مصنوعی دانت لگا کر ان کی مسکراہٹ واپس کرتی ہے‘ دندان سازی کے آلات بھی بناتے ہیںاور ٹیکنالوجی بھی۔
میں بے شمار مرتبہ سوئٹزر لینڈ آیا‘ میں نے یہ ملک ٹرینوں پر بھی گھوما ہوا ہے اور پیدل بھی‘ پہاڑوں کے درمیان واکنگ ٹریکس ہیں‘ یہ اندر ہی اندر پورے ملک سے جڑے ہوئے ہیں‘ آپ ایک بار ان پر چلنا شروع کر دیں یہ آپ کو پورا ملک گھما دیں گے۔
دس پندرہ بیس کلومیٹر کے بعد کوئی نہ کوئی گاؤں آ جائے گا اور اس گاؤں میں دنیا کی ہر سہولت موجود ہوگی‘ آپ کو وہاں ہوٹل بھی مل جائیں گے‘ ریستوران بھی‘ کافی شاپ بھی اور ٹرین اور بس بھی اور چھوٹا سا شاپنگ سینٹر بھی‘ میں نے ان ٹریکس کے ذریعے بھی یہ ملک دیکھا ہوا ہے‘ سوئس لوگ بھی کمال ہیں۔
یہ ماحولیات اور صفائی کو مکمل ایمان سمجھتے ہیں‘ گاؤں‘ قصبے اور شہر ہمارے بھی ہیں لیکن سوئس دیہات پر پوری دنیا کے دیہات قربان ہو جاتے ہیں‘ آپ کسی طرف نکل جائیں آپ کی جھیل‘ دریا اور گائے سے ملاقات ہو جائے گی اور تینوں صاف ستھرے ہوں گے‘ سوئس لوگ گھر دور دور بناتے ہیں لیکن ان میں دنیا جہان کی سہولتیں ہوتی ہیں۔
ہمارے گروپ میں مانسہرہ سے قاضی منیر الٰہی بھی شامل تھے‘ یہ ہمارے ساتھ مصر بھی جا چکے ہیں‘ دل چسپ انسان ہیں‘ واک کے شوقین ہیں‘ نوجوانوں کی طرح دو تین سو سیڑھیاں پھلانگ پھلانگ کر چڑھ جاتے تھے‘ سارا گروپ لفٹ تلاش کرتا رہ جاتا تھا لیکن قاضی صاحب سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگا دیتے تھے اور سب سے پہلے پہنچ جاتے تھے۔
سوئٹزرلینڈ کے بارے میں ان کی پہلی رائے تھی ’’یہ ہمارے مانسہرہ یا ایبٹ آباد سے مختلف نہیں ہے‘‘ لیکن دوسرے دن ان کی رائے مکمل تبدیل ہو چکی تھی‘ ہم جب ان سے پوچھتے تھے ’’کیوں جی قاضی صاحب کیا یہ بھی ایبٹ آباد جیسا ہے؟‘‘ اور قاضی صاحب ہوا میں ہاتھ لہرا کر جواب دیتے تھے ’’او چھڈو جی ایبٹ آباد نوں‘‘۔
قاضی صاحب کی بات غلط نہیں تھی‘ پہاڑ‘ دریا‘ جنگل اور گائے ہمارے ملک میں بھی بے تحاشا ہیں‘ آپ اسلام آباد سے شمال کی طرف نکل جائیں آپ کو وہاں انچ انچ پر سوئٹزر لینڈ دکھائی دے گا لیکن ہماری جگہوں اور سوئس جگہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
سوئٹزر لینڈ دراصل ملک کا نام نہیں ہے‘ یہ انفرااسٹرکچر اور لیونگ کا نام ہے اور ہماری اور سوئس لیونگ اور انفرااسٹرکچر میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ ہم جب 1857 میں جنگ آزادی لڑ رہے تھے اور ہمارے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ہاتھی پر چڑھنے اور تلوار اٹھانے کی تگ ودو میں مصروف تھے عین اس وقت سوئس انجینئر پہاڑ کاٹ کر ان کے اندر ٹنل بنا رہے تھے اور ان ٹنلز میں ٹرینیں چلا رہے تھے۔
آپ سوئٹزرلینڈ میں کہیں چلے جائیں آپ کو وہاں سڑک بھی ملے گی اور ٹرینیں بھی جب کہ ہمارے ملک میں بڑے شہر بھی ان سہولتوں سے محروم ہیں‘ دوسرا سوئٹزرلینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے تمام لوگ ایٹمی جنگ کی صورت میں موت سے بچ جائیں گے‘ سوئس گورنمنٹ نے ملک کے مختلف حصوں میں سیکڑوں ایٹمی بنکر بنا رکھے ہیں۔
ایٹمی جنگ کی صورت میں ملک بھر میں سائرن بجائے جائیں گے اور ساری آبادی بم پھٹنے سے قبل زمین میں غائب ہو جائے گی اور وہاں ان کی ضرورت کے مطابق خوراک اور پانی بھی موجود ہو گا‘ تیسرا یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اپنی تمام سرحدوں پر مائنز اور بم لگا رکھے ہیں۔
حکومت ایک بٹن دبا کر چند لمحوں میں دوسرے ملکوں سے تمام زمینی رابطے ختم کر سکتی ہے‘ ملک میں دھماکے ہوں گے اور تمام سرحدی پل‘ سڑکیں اور رابطے مٹی بن کر ہوا میں اڑ جائیں گے اور اس کے بعد کوئی شخص سوئٹزر لینڈ میں داخل ہو سکے گا اور نہ نکل سکے گا‘ ملک چند لمحوں میں جزیرہ بن جائے گا۔
سوئس لوگ بہت پرسکون اور مطمئن لوگ ہیں‘ آپ کو ان کے چہروں پر بے سکونی‘ بے آرامی یا ٹینشن نظر نہیں آتی‘ آپ کسی کاؤنٹر پر چلے جائیں آپ جب تک سوال پوچھتے رہیں گے آپ کو جواب ملتے رہیں گے اور سامنے کھڑے شخص کے چہرے پر ایک منٹ کے لیے بھی بے زاری نہیں آئے گی۔
آپ خود شکریہ ادا کر کے پیچھے ہٹیں گے لیکن کاؤنٹر مین آپ کو جلدی کرنے کا نہیں کہے گا‘ آپ نے اکثر سوئٹزرلینڈ کے ساتھ سی ایچ (CH) کا لفظ دیکھا ہو گا‘یہ سی ایچ چوہدری نہیں ہے‘ اس کا مطلب کنفیڈریشن آف ہتائی ہے۔
سوئس لوگوں نے 18ویں صدی میں ہتائی کے نام سے ملک بنایا تھا‘ یہ ملک بعدازاں سوئٹزرلینڈ بن گیا لیکن یہ اب بھی اپنے نام کے ساتھ سی ایچ لکھتے ہیں اور یہ ان کے کردار کی پختگی اور تسلسل کو ظاہر کرتی ہے‘ یہ لوگ اگر کوئی چیز شروع کر دیتے ہیں تو پھر یہ اسے چھوڑتے نہیں ہیں‘ سلسلہ جاری رہتا ہے۔