پاکستان اس وقت خوف ناک سیاسی‘سماجی اور معاشی تنازعوں کا شکار ہے‘ ہم اگر ان تنازعوں سے نکلنا چاہتے ہیں‘ یا پاکستان کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں حقائق جاننا ہوں گے اور ان حقائق کو سامنے رکھ کر ملک کی سمت درست کرنا ہوگی۔
میں دل سے سمجھتا ہوں ہم اگر آج اپنی غلطیاں نہیں مانتے اور ملک کو دوبارہ ٹریک پر نہیں لاتے تو پھر دنیا کی یہ پہلی اسلامی جمہوری ریاست ختم ہو جائے گی اور ہم سب‘ جی ہاں ہم سب باقی زندگی مہاجر کیمپوں میں گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ میں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ملکی تاریخ کے تازہ سیاسی واقعات آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
میں نے یہ تمام واقعات ملک کے اہم ترین کرداروں سے حاصل کیے اور ان کی باقاعدہ تصدیق بھی کی لیکن اس کے باوجود اگر کوئی کردار کسی واقعے کی مزید وضاحت یا توثیق کرنا چاہے تو میں حاضر ہوں‘ میری آخر میں درخواست ہو گی ملک کے تمام اہم کردار تاریخ کو دیکھیں‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ملک کو چلانے اور بچانے کے لیے اکٹھے بیٹھ کر چند بڑے اور بنیادی فیصلے کر لیں‘ یہ ملک بچ بھی جائے گا اور چلنا بھی شروع کردے گا ورنہ ہم دوسری صورت میں تاریخ کے قبرستان سے زیادہ دور نہیں ہیں۔
یہ کہانی 2006 سے شروع ہوتی ہے‘ جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بھی تھے اور 58ٹو بی کے ساتھ صدر بھی‘یہ کسی بھی وقت کسی بھی حکومت کو فارغ کر سکتے تھے‘ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے امریکا ان کا سب سے بڑا سیاسی اور عسکری دفاع تھا‘ ملکی تاریخ میں مجموعی طور پر اتنے سربراہان مملکت پاکستان نہیں آئے جتنے جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسلام آباد آئے لیکن 2006 کے آخر تک امریکا کو جنرل مشرف کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
اسے اب اپنی پالیسیوں کے لیے ایک جمہوری چہرہ چاہیے تھا اور اس وقت وہ چہرہ صرف اور صرف بے نظیر بھٹو تھیں چناں چہ امریکی سفارت کاروں نے دبئی میں بے نظیر بھٹو سے ملاقاتیں شروع کر دیں‘ بے نظیر کے ساتھ ان ملاقاتوں میں صرف واجد شمس الحسن ہوتے تھے‘ امریکی زعماء کو ای میلز اور فون بھی صرف یہی کرتے تھے۔
پارٹی کے باقی تمام لوگ اس دائرے سے باہر تھے‘ یہ ملاقاتیں میچور ہوئیں اور امریکا نے 27 جولائی 2007 کو ابوظہبی میں بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کو ایک دوسرے کے سامنے بٹھا دیا‘ اس ملاقات سے این آر او نکلا‘ نیب نے بھٹو فیملی کے کرپشن کے تمام مقدمے واپس لے لیے اور یوں محترمہ کی واپسی کا اعلان ہو گیا‘ میاں نواز شریف اس وقت سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کے حفاظتی مہمان تھے۔
میاں نوازشریف نے اپنے بڑے صاحب زادے حسین نواز کے ساتھ شاہ عبداللہ سے ملاقات کی‘ ان سے اپنی واپسی کی درخواست کی‘ شاہ عبداللہ نے صدر جنرل مشرف کو ریاض بلایا اور ان سے صاف الفاظ میں کہا ’’اگر بے نظیر بھٹو پاکستان جائیں گی تو ہمارا دوست بھی جائے گا‘‘ اس وقت جنرل مشرف کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی‘ کیوں؟ کیوں کہ جنرل پرویز مشرف کو فارغ کرنے کے لیے لال مسجد کا آپریشن بھی ہو چکا تھا اور ملک بھر میں جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک بھی جاری تھی اور یہ دونوں واقعات جنرل پرویز مشرف کو فارغ کرنے کے لیے اسٹیج کیے گئے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے 2010 میں دبئی میں میرے سامنے یہ اعتراف کیا تھا‘ وکلاء تحریک اور لال مسجد دونوں آپریشن مجھے فارغ کرنے کے لیے لانچ کیے گئے تھے‘ میرے پاس ان کے بعد یونیفارم اتارنے‘ فوج کی کمانڈ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کرنے اور بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو واپسی کا راستہ دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔
بہرحال قصہ مختصر بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 اور نواز شریف 25 نومبر 2007 کو ملک میں واپس آ گئے اور ملک میں سیاسی افراتفری کا خوف ناک دور شروع ہو گیا‘ لال مسجد کے بطن سے تحریک طالبان پاکستان نے جنم لے لیا تھا اور اس نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانا شروع کر دی‘ پاکستان میں روزانہ خودکش حملہ ہوتا تھا اور اس میں دس بیس لوگ شہید ہو جاتے تھے۔
وکلاء سڑکوں پر تھے اور عوام بھی جمہوریت کا پرچم اٹھا کرپھر رہے تھے‘ اس فضا میں27 دسمبر2007 کو بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں اور سیاسی افراتفری مزید بڑھ گئی‘آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور فوج نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ فوج صرف اور صرف الیکشن کرانا چاہتی تھی اور اقتدار نئے منتخب نمایندوں کے حوالے کر کے اپنا پورا فوکس دہشت گردی کے خلاف جنگ پر رکھنا چاہتی تھی۔
بے نظیر کی شہادت کے بعد آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا‘ فوج درمیان میں آئی اور اس نے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو 2008 کے الیکشنز کے لیے راضی کر لیا‘ عمران خان کو بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ الیکشن کا بائیکاٹ کر گئے۔
فروری2008 میں الیکشن ہوئے‘ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مل کر حکومت بنائی مگر یہ حکومت ڈیڑھ ماہ بھی نہ چل سکی‘ نظام خطرے کا شکار ہو گیا لیکن جنرل کیانی ہر صورت حکومت چلانا چاہتے تھے‘ فوج نے فیصلہ کیا تھا اسمبلیوں کے پانچ سال ہر صورت پورے ہونے چاہییں اور فوج پچھلے 15 برسوں سے اس فیصلے پر قائم ہے۔
یہ لوگ اپنے اسی فیصلے کی وجہ سے آج بھی اس اسمبلی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ ملک اور جمہوریت دونوں کے لیے ایک اچھا فیصلہ ہے۔
بہرحال فوج کو ایک بار پھر سیاسی مداخلت کرنا پڑی‘ چوہدری صاحبان کو راضی کیا اور ق لیگ کو پیپلز پارٹی کا اتحادی بنا کر حکومت کی گاڑی کو دھکا دینا شروع کر دیا‘ یوسف رضا گیلانی کی حکومت اتحادی تھی‘ الطاف حسین ایک تقریر کرتے تھے اور ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہو جاتی تھی‘ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی بن چکے تھے۔
حکومت بچانا اور چلانا ان کی ذمے داری تھی چناں چہ یہ ایم کیو ایم کو دوسرے دن حکومت میں واپس لے آتے تھے‘ میں نے ان سے طریقہ پوچھا تو پاشا صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’بس میں الطاف بھائی کو فون کرتا تھا اور وہ مان جاتے تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا وہ آپ سے کوئی مطالبہ بھی کرتے تھے‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ہاں‘ ان کا بس ایک ہی مطالبہ ہوتا تھا جنرل صاحب آپ ہماری پرانی فائلیں پھاڑ دیں اور میں جواب دیتا تھا آپ فکر نہ کریں بس حکومت میں واپس آ جائیں اور وہ آ جاتے تھے‘‘ پیپلز پارٹی کے دور میں چار بڑے واقعات ہوئے اور فوج ان کی وجہ سے شدید پریشان ہوئی۔
پہلا واقعہ 18 ویں ترمیم تھی‘ فوج کا خیال تھا اس ترمیم نے وفاق کو تقریباً ختم کر دیا ہے‘ ملک چلانا اب آسان نہیں رہے گا اور یہ ترمیم کبھی نہ کبھی ملک کو چار حصوں میں تقسیم کردے گی‘ دوسرا واقعہ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں دونوجوانوںکی ہلاکت تھا‘ تیسرا واقعہ ایبٹ آباد میں امریکا کا اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن تھا‘ اس نے فوج سمیت ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور چوتھا سلالہ چیک پوسٹ پرنیٹو فورسز کی فائرنگ سے26پاکستانی فوجیوں کی شہادت تھی۔
ان واقعات نے ریاست کی بنیادیں تک کھود دیں اور ان کے ساتھ ساتھ دہشت گردی بھی انتہا پر تھی‘ فاٹا، سوات اور شمالی وزیرستان میں طالبان کی حکومتیں بن چکی تھیں اور ریاست وہاں سے پسپائی اختیار کر چکی تھی‘ ملکی معیشت نیچے سے نیچے گرتی چلی جا رہی تھی‘ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے جان چھڑا لی تھی لیکن ملک ایک بار پھر آئی ایم ایف کے گڑھے میں گر چکا تھا‘ چھ ہزار ارب روپے کا قرضہ بڑھ کر 16 ہزارارب روپے ہو چکا تھا اور اس میں بہتری کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ اس صورت حال سے پریشان تھی‘ اس دوران جنرل کیانی اور آصف علی زرداری کے درمیان لڑائی بھی ہو گئی اور آصف علی زرداری ایئر ایمبولینس میں لیٹ کر دبئی چلے گئے اور ملک صدر کے بغیر چلنے لگا‘ ملک ریاض صدر زرداری اور جنرل کیانی کے درمیان رابطہ تھے‘ پنجاب میں میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے‘ یہ بہت اچھا پرفارم کر رہے تھے۔
فوج ان سے بہت خوش تھی تاہم یہ میاں نواز شریف سے خائف تھی اور اس کی کوشش تھی میاں نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی کو اپنا جان نشین بنا کر سیاست سے ریٹائرہو جائیں‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے دومرتبہ میاں شہباز شریف کو بلا کراپنی خواہش کا اظہار کیا مگر یہ اپنے بڑے بھائی کو چھوڑنے کے لیے راضی نہیں ہوئے یوں صاف نظر آنے لگا میاں نواز شریف اگلے وزیراعظم ہوں گے اور یہ اس بار بھی فوج کے ساتھ لڑائی شروع کر دیں گے۔
جنرل پاشا میاں نواز شریف کو پسند نہیں کرتے تھے‘ میرے سامنے انھوں نے تسلیم کیا ’’میں کبھی نواز شریف سے نہیں ملا‘ مجھے ان کے خیالات اور طرز سیاست سے اختلاف تھا‘‘ تاہم جنرل کیانی اس معاملے میں نیوٹرل تھے‘ یہ چاہتے تھے 2013کے الیکشن ہوں اور زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی حکومت بنا لے‘ اس فضا میں ایک دن جنرل پاشا نے جنرل کیانی سے کہا ’’ہمیں عمران خان سے بھی ملنا چاہیے‘ اس میں بہت پوٹینشل ہے اسے ایک موقع ضرور ملنا چاہیے‘‘
جنرل کیانی کی اجازت سے جنرل پاشا نے 2011 میں پہلی مرتبہ عمران خان سے ملاقات کی‘ یہ ملاقات زمان پارک لاہور میں عمران خان کے گھر ہوئی تھی‘ جنرل پاشا یونیفارم میں تھے، عمران خان نے ان سے چائے کافی کا پوچھا‘ جنرل صاحب نے چائے منگوا لی اور عمران خان نے اپنے لیے اسٹرابری کا جوس آرڈر کر دیا۔
جنرل پاشا نے اس میٹنگ میں عمران خان کو پیش کش کی‘ آپ اپنی سیاسی ایکٹوٹیز بڑھائیں‘ ہم آپ کی مدد کریں گے‘ جنرل پاشا نے انھیں مالی مدد کی آفر بھی کی لیکن عمران خان کے جواب نے جنرل پاشا کو حیران کر دیا۔
(جاری ہے)