لیڈر ایسا ہوتا ہے

لیڈر کا انتخاب آپ کی ذھنی سطح کی خبر دیتا ہے۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ اور سیاست پر آپ کی کتنی نظر ہے۔

جب کوئی یہ کہتا ہے کہ نوازشریف صاحب قائد اعظم ثانی ہیں یا کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قائداعظم کے بعد عمران خاں صاحب سے بڑا لیڈر کوئی نہیں آیا تو وہ دراصل یہ بتاتا ہے کہ وہ قائداعظم اور تاریخ سے کتناواقف ہے۔قائداعظم کا ذکر مجبوری ہے ورنہ متکلم کہنا یہ چاہتا ہے کہ ا س کے محبوب سے بڑا لیڈر اس خطے نے پیدا نہیں کیا۔ ایک مذہبی دانش ور کاعمران خان صاحب کے بارے میں فرمان ہے:’”اس شخص کااس قدر منصوبہ بندی والے قاتلانہ حملے سے بچ نکلنا اللہ کی نشا نیوں میں سے ہے۔یقیناً اللہ تعالیٰ ان سے کوئی کام لینا چاہتا ہوگا۔ ایسا بلند حوصلہ شخص ہی (اللہ کا) انتخاب ہوتا ہے“۔یہ یقین کسی کشف سے ارزاں ہو سکتا ہے یا یا پھررجال الغیب کے ساتھ ربط سے۔

میں ختم ِ نبوت کا قائل ہوں،ختم ِ قیادت کا نہیں۔بڑے لیڈر آتے رہیں گے لیکن ان کی بڑائی کا فیصلہ کسی میرٹ پر ہو گا،دعوے یاکشف سے نہیں۔قائداعظم کواگر آج ہم بڑا لیڈر مانتے ہیں تواس کے پس منظر میں سوسالہ تاریخ کی گواہی ہے۔قائداعظم ہوں، ابوالکلام ہوں یا علامہ اقبال،انہیں کسی دعوے کی بنیاد پرنہیں،ان کے کام اور کردار کی بنا پر بڑا مانا گیا۔اس بڑائی کی شہادتیں،ان کی زندگی ہی میں لوگوں نے بچشمِ سر دیکھ لی تھیں۔

لیڈر کا انتخاب زمان و مکان کے تناظر ہی میں ہوتا ہے۔آپ جس عہد میں جیتے ہیں،اس میں جو لیڈر میسر ہوتے ہیں،آپ ان ہی میں سے کسی کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر ان کی عمومی سطح پست ہے تو یہ تاریخ کاجبر ہے۔

آپ کو بہر حال ان ہی میں سے کسی ایک کے پیچھے چلنا ہے۔اب اگر آپ کی نظر تاریخ و سیاست پر ہے اور آپ جانتے ہیں کہ لیڈر کون ہوتاہے اور تاریخ میں کیسے کیسے لوگ منصب ِقیادت پر فائز رہے ہیں توآپ اپنے عہد کے پسماندگی کا ماتم کرتے ہیں لیکن یہ نہیں کرتے کہ موجود لیڈروں میں سے کسی کو ماضی کے کسی بڑے راہنما کی مثال قرار دے دیں۔یااسے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی مان لیں۔

جب آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں توپھر تین ہی امکان ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ آپ تاریخ وسیاست سے باخبر ہیں اور جسے لیڈر مان رہے ہیں وہ فی الواقعہ بے مثل ہے۔یعنی ماضی میں اس جیسا کوئی نہیں آیا اور وہ آیت من آیات اللہ ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ آپ تاریخ سے واقف ہیں نہ سیاست سے۔آپ اپنی کوتاہ نگاہی یا کسی تعصب کی بنا پرایک پست قامت کو طویل القامت قرار دے رہے ہیں۔تیسری صورت یہ ہے کہ آپ جانتے بوجھتے ایک ایسی بات کہہ رہے جس کی گواہی آپ کا ذھن دیتا ہے نہ دل۔ آج کیاامکان ہے؟اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی تاریخ اور سیاست کے اپنے اپنے فہم کے مطابق دے گا اور اسی سے اس کے بارے میں ایک رائے قائم کی جا ئے گی۔

لیڈر کو پرکھنے کے کئی پیمانے ہیں۔ایک پیمانہ یہ ہے کہ ملک کسی بحران کا شکار ہوجائے تو اس کاطرزِ عمل کیا ہو تا ہے؟وہ شخصی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے قومی وجود کو خطرات سے دوچار کر دیتا ہے یامفادِ عامہ کے پیشِ نظر، اجتماع کو ذات پر ترجیح دیتا ہے؟جذبات کو مشتعل کرتا ہے یا ان میں ٹھیراؤ لاتا ہے؟دور بینی کا مظاہرہ کرتاہے یا پیش پا افتادہ مفاد کو ترجیح دیتا ہے؟

یہ 1963ء کا واقعہ ہے۔لاہور میں جماعت اسلامی کا اجتماع تھا۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ملک بھر سے آئے ہزاروں لوگوں سے اجتماع سے ہم کلام تھے۔اس دوران میں بلوائیوں کا ایک گروہ آیا اور اجتماع پر حملہ آور ہوا۔اس نے خیموں کو آگ لگا دی اوراجتماع پرگولیاں چلائیں۔مولاناسٹیج پر کھڑے رہے۔ان سے کہا گیا کہ آپ بیٹھ جائیں کہ کوئی گولی آپ کو نشانہ نہ بنائے۔اس موقع پر انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا:”میں بیٹھ گا تو کھڑا کون رہے گا؟“

فسادی اپنا کام کر کے رخصت ہوئے تو معلوم ہوا کہ جماعت کا ایک کارکن اللہ بخش کام آگیاہے۔مولانا نے کارکنوں کادلاسا دیا اور اپنی تقریر وہیں سے شروع کی جہاں سے چھوڑی تھی۔اس ہجوم کو مشتعل بھی کیاجا سکتا تھا۔شہر کو آگ بھی لگائی جا سکتی تھی مگر لاہور میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔اگلے دن جماعت کے کارکن، بنیادی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کے لیے میلوں لمبے محضر نامے پرعوام سے دستخط لے رہے تھے۔ایک لیڈر کی بصیرت اور صبر نے ملک و قوم کو ایک بڑے بحران سے بچا لیا۔

یہ جنرل ایوب خان کا عہدِ اقتدار تھا۔نواب آف کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔شورش کاشمیری جیسے نام ور اہلِ صحافت نے بتا دیا تھا کہ اس واقعے میں مرکزی حکومت اورگورنر کا کیا کردار تھا۔پولیس کے کون کون سے اہل کار ملوث تھے۔مولانامودودی نے مگر یہ کہا کہ میں نے اس واقعے کی ایف آئی آر خدا کی عدالت میں لکھوادی ہے جہاں صرف انصاف ہوتا ہے۔یہ انصاف برسرِ زمین کیسے ہوا،اس کے لیے پاکستان کی تاریخ کا یہ باب پڑھنا ضروری ہے۔

ایک اور واقعہ سنئیے۔ 1973 ء میں رالپنڈی کے لیاقت باغ میں اپوزیشن کے اجتماع پر گولیاں چلیں۔پشاور اور کے پی سے آئے ہوئے ہمارے پختون بھائی مارے گئے۔ولی خان جنہیں زندہ ساتھ لائے تھے،ان کی لاشیں یہاں سے اٹھا کر لے گئے۔وہ چاہتے تو فضا میں صوبائیت کا زہر گھول سکتے تھے۔مگر ان کی بصیرت اورصبر بروئے کار آئے۔ پاکستان ایک بڑے فساد سے محفوظ رہا۔آصف زرداری صاحب کا تذکرہ راہنماؤں کی اس فہرست میں شاید مناسب نہ ہو لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے الم ناک قتل پر ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر انہوں نے بھی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا۔

یہ واقعات بتاتے ہیں کہ قوم عدم استحکام کے بحران میں مبتلا ہو تولیڈرکیا کرتا ہے؟وہ جذبات کی آگ کوبھڑکاتانہیں،اس پر پانی ڈالتاہے۔قوم کو تقسیم نہیں کرتا،تقسیم کو روکتا ہے۔ذاتی اور گروہی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔پھر اس کے پیشِ نظر یہ سوال نہیں ہوتا کہ اقتدار کا سفر کیسے آسان ہوگا،وہ یہ سوچتا ہے کہ ملک بحران سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔

عالمی یامسلم تاریخ کو تو چھوڑیے،جس نے اس خطے کی تاریخ کوپڑھ اور سمجھ رکھاہے۔جس نے یہاں جنم لینے والے لیڈروں کی زندگی کا مطالعہ کیاہے،وہ جانتا ہے کہ لیڈر کیسے ہوتے ہیں؟قائد اعظم اور ابوالکلام کون تھے؟ سید مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان کی سیاست کیسی تھی؟وہ موجودہ حالات کو دیکھتا ہے تو قحط الرجال کا نوحہ لکھتا ہے۔پھر وہ سوال اٹھاتا ہے:’کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں‘؟وہ پھر موجودہ اہلِ سیاست میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے تو اس لیے کہ تاریخ کے جبرنے اس کے اس اختیار کو محدود کردیا ہے۔اس لیے نہیں کہ خدا کی کسی نشانی کا ظہور ہو گیاہے۔

بصورتِ دیگر آپ جس کو چاہیں قائداعظم ثانی کہہ لیں اور جسے چاہیں آیت من آیات اللہ مان لیں،آپ کے قلم اور زبان کون پکڑ سکتا ہے۔یہ رائے دیتے وقت مگر یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کا انتخاب اورخیالات دراصل،آپ کا تعارف بھی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے