کل میری لیبر کے دو کارکن موٹر سائیکل حادثہ میں شدید زخمی ہو گئے ۔ سپر وائزر کے اطلاع دینے پر موقع پر پہنچے اور ایک شدید زخمی کارکن جس کے سر پر چوٹیں آئی تھیں کی حالت دیکھ کر انہیں اسلام آباد کے سب سے بڑے پمز ہسپتال لے گئے ۔ سی ٹی سکین کے مطابق کارکن کے دماغ کی رگ میں خون جم گیا تھا جس کا علاج فوری آپریشن تھا ورنہ یقینی موت تھی ۔پمز سرکاری ہسپتال ہے اور یہاں ہر شعبہ میں ان گننت سفید کوٹ پہنے درندے ادھر ادھر پھرتے نظر آتے ہیں۔یہ لوگ کسی اعلی عہدیدار کے سامنے زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور کسی غریب آدمی کو حقارت سے خود سے دور کرتے ہیں ۔ہم آنکھوں دیکھا حال بتا رہے ہیں جس میں خدا گواہ ہے ہر لفظ سچ ہے ۔زخمی کارکن کو ہم خود اسٹریچر پر کھینچ کر ایمرجنسی کے منی آپریشن تھیٹر میں لے کر گئے وہاں سات ڈاکٹر موجود تھے کوئی بھی دیکھنے کو تیار نہیں تھا ۔ایک ڈاکٹر کو غصے میں کہا کہ تم لوگ انسان ہو یا کیا ہو اسے دیکھتے کیوں نہیں ۔احسان کر کے آیا اور بولا پرچی کہاں ہے بتایا پرچی بن رہی ہے دوسرا اعتراض کیا پہلے روم نمبر تھری میں لے کر جاؤ وہ ریفر کریں گے تو دیکھیں گے۔
کارکن کے سر اور دیگر زخموں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا لیکن یہ ظالم ڈاکٹر ابتدائی مرہم پٹی کی بجائے روم نمبر تھری بھیج رہا تھا ۔ہمارے ساتھ آئے تین دوسرے کارکن پرچی بنوانے گئے تھے خود ہی اسے روم نمبر تھری لے کر گئے ۔وہاں بھی اسی نسل کا ایک درندہ اور ایک درندی بیٹھے تھے ۔یہ سن کر سر سے خون بہہ رہا ہے مریض کو دیکھے بغیر بولے مریض کو دوسری منزل پر نیورولوجی وارڈ میں لے جائیں ۔
پمز میں درندوں کے ساتھ کچھ انسان بھی ہیں ۔ہماری ڈاکٹروں کے ساتھ تلخ اور بلند آہنگ گفتگو کے دوران ایک لیڈی ڈاکٹر سامنے والے کمرے سے اٹھ کر آئی ۔کچھ بولے بغیر مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہا اور زخمی کارکن کو ایمرجنسی کے ایک دوسرے کمرے میں لے گئی ۔اس ڈاکٹر نے فوری طور پر دو نرسوں کو بلا کر ایک کو مرہم پٹی کا کہا ،دوسرے کو مخصوص درکار انجکشن لگانے کی ہدایات دیں اور اپنی نگرانی میں انجکیشن لگوا کر اپنی نگرانی میں ہی درکار ٹیسٹ کروائے اور پھر نیورولوجی کے دو ڈاکٹروں کو بلا لیا۔
اسی وقت فیصلہ کیا گیا کہ چند گھنٹے میں آپریشن کیا جائے گا ورنہ مریض مر جائے گا ۔ہم خاتون ڈاکٹر کا شکریہ ادا کر کے اور باقی دو کارکنوں کو وہاں چھوڑ کر واپس دفتر آگئے ۔چار گھنٹے بعد ہمیں ہمارے پینٹر نے فون کر کے بتایا کہ پمز کے ڈاکٹروں نے آپریشن کی بجائے ڈسچارچ کر دیا ہے کہ مریض ٹھیک ہے جبکہ زخمی کارکن ہوش میں نہیں ہے ۔ہم نے کارکنوں کو کہا رپورٹوں سمیت مریض کو ہولی فیملی ہسپتال لے جاؤ شائد وہاں درندوں کی بجائے سفید کوٹ پہنے انسان ہوں ۔ ہولی فیملی کی ایمرجنسی میں انسان تھے انہوں نے رپورٹس دیکھیں اور دو گھنٹے میں مریض کے سر کا آپریشن کر کے ایک رگ میں موجود خون کا لوتھڑا بھی نکال دیا اور اور ایک رگ جو لیک تھی اسکی مرمت بھی کر دی ۔آپریشن کامیاب ہو گیا ۔پمز کے درندوں نے زخمی کو مرنے کیلئے ڈسچارچ کر دیا تھا لیکن ہولی فیملی کے ڈاکٹروں نے اسے بچا لیا ۔جب یہ درندے طب کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اس وقت شائد انہیں انسانی زندگی کے متعلق بتایا نہیں جاتا یا شائد یہ لسانی تعصب کا شکار ہوتے ہیں کہ جن ڈاکٹروں سے ہمارا پمز میں واسطہ پڑا سب پختون تھے ۔منی آپریشن تھیٹر ،روم نمبر تھری اور نیورولوجی کے کال پر بلائے ڈاکٹر سب پٹھان تھے ۔جس لیڈی ڈاکٹر نے مریض کو سچ مچ کے ڈاکٹر کی طرح ڈیل کیا وہ پنجابی تھی ۔
ہم پاکستانی ہیں ۔ہم نے کبھی تعصب نہیں کیا ۔بلوچ ،پختون اور ہر پاکستانی کو ہم نے صرف پاکستانی سمجھا اس کے حق کیلئے آواز اٹھائی ۔ہمیں جو تلخ تجربہ ہوا ہے ہم بہت افسردہ ہیں ۔ہمارے کارکن کا آپریشن نہ ہوتا وہ مر جاتا ۔جو آپریشن پمز کے ڈاکٹروں نے کرنا تھا چند گھنٹے بعد وہی آپریشن ہولی فیملی کے ڈاکٹروں نے کیا۔
ڈاکٹروں کو صرف ڈاکٹر ہونا چاہئے اور ہر تعصب سے پاک ہونا چاہئے ۔اگر کہیں خدا موجود ہے تو جن ڈاکٹروں نے ایک مریض کو ڈسچارچ کر دیا جیسے فوری آپریشن کی ضرورت تھی ان سے ضرور انکی بددیانتی کے متعلق پوچھا جائے گا ۔