آج انتیس نومبر ہے۔آج ہی کے دن پچھتر برس قبل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطین کو دو حصوں میں بانٹنے کی قرار داد منظور کی۔
یہودیوں کو تو اس قرار داد کے مطابق اسرائیل مل گیا مگر فلسطینیوں کو آزاد ملک تو کجا رہا سہا علاقہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور انھیں اقوامِ متحدہ نے عملاً تیس برس بعد انیس سو ستتر میں محض انتیس نومبر بطور یومِ یکجہتی تھما دیا۔
انیس سو ستتر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس نے بھاری اکثریت سے فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد و خودمختار وطن کی قرار داد منظور کی۔اس اجلاس سے تنظیم آزادی ِ فلسطین ( پی ایل او ) کے سربراہ یاسر عرفات نے بھی پہلی مرتبہ بطور مبصر خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا ’’ میرے دائیں ہاتھ میں بندوق اور بائیں ہاتھ میں شاخِ زیتون ہے۔میرے ہاتھ سے شاخِ زیتون مت گرنے دیجیے ۔‘‘
فلسطینیوں سے انیس سو سینتالیس اڑتالیس کے بعد دوسرا دھوکا انیس سو بانوے میں اوسلو امن سمجھوتے کے نام پر ہوا۔جب جون انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل نے غربِ اردن اورغزہ پر فوجی قبضہ کر کے وہاں مستقل فوجی قوانین نافذ کر دیے تو ان کی مسلسل مزاحمت (انتفادہ ) کے نتیجے میں یاسر عرفات کو وائٹ ہاؤس بلوا کر صدر بل کلنٹن نے اسرائیلی وزیرِ اعظم ایتزاک رابین کا ہاتھ تھام کر تین ہاتھوں کا اوپر نیچے ترکٹ سا بنایا اور عرفات کو یقین دلایا کہ آپ نے مسلح جدوجہد ترک کر کے اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر کے جو فراخ دلی دکھائی ہے وہ رائیگاں نہیں جائے گی اور اگلے چار برس میں ( انیس سو چھیانوے ) ایک آزاد و خودمختار فلسطینی مملکت وجود میں آ جائے گی۔
اس ڈیڈ لائن سے پہلے ہی چار نومبر انیس سو پچانوے کو ایک یہودی انتہاپسند کے ہاتھوں اسرائیلی وزیرِ اعظم ایتزاک رابین قتل ہو گئے۔بعد کی اسرائیلی حکومتوں نے آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے بجائے پی ایل او کو غزہ اور غربِ اردن پر مشتمل ایک کاٹا چھانٹا چھیدیلا ٹکڑا کسی بلدیہ کے برابر اختیارات دے کر کہا کہ یہ رہی آپ کی فلسطینی اتھارٹی عرف آزاد مملکت۔
ظاہر ہے فلسطینی دوبارہ بدک گئے اور سن دو ہزار سے دو ہزار پانچ تک دوسرا انتفادہ جاری رہا۔اس میں بھی حسبِ معمول سیکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی و بے گھر ہوئے۔سن دو ہزار چار میں یاسر عرفات کا بھی پراسرار حالات میں انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد خود فلسطینی دو حصوں میں بٹ گئے۔ غلاموں کا غصہ غلاموں پر نکلنے لگا۔
حماس نے مقبوضہ غزہ پر عمل داری قائم کر لی۔ اور پی ایل او کی حکمرانی غربِ اردن تک محدود رہ گئی۔حماس چونکہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی لہٰذا اس خود سری کی سزا دنیا کی سب سے بڑی کھلی اور گنجان جیل کہے جانے والے غزہ کے ایک ملین شہریوں کو اسرائیلی بمباری ، فوج کشی اور ناکہ بندی کی صورت میں سال میں کئی کئی بار ملتی ہے۔
جب کہ غربِ اردن میں اس عرصے کے دوران سات لاکھ یہودی آباد کاروں کو فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کر کے ان بیسیوں یہودی بستیوں کی شکل میں بسانے کا عمل برابر جاری ہے۔یہ بستیاں غربِ اردن کے چہرے پر چیچک کے داغوں کی طرح مسلسل پھیلتی ہی جا رہی ہیں۔
غزہ اگر مستقل ناکہ بندی اور غربت و بے چارگی کی انتہائی سطح پر ہے تو غربِ اردن پر اسرائیل کا گزشتہ پچپن برس سے مسلسل فوجی راج ہے۔ ہر فلسطینی زن و مرد و طفل کو نیم انسانی درجے پر جانی دشمن سمجھ کے اس کے مطابق سلوک اسرائیلی ڈی این اے میں شامل ہے۔
اگر اسرائیل کی بین الاقوامی جغرافیائی حدود میں رہنے والے بیس فیصد عرب اسرائیلی باشندے ہر اعتبار سے درجہ دوم کے شہری ہیں تو مقبوضہ غربِ اردن اور غزہ میں رہنے والے انھی کے بھائی بند درجہ چہارم کے انسان ہیں۔
فلسطینیوں کو صرف یہی ابتلا درپیش نہیں کہ ان کی آبائی زمینوں اور قبرستانوں کو بتدریج چھین کر دنیا بھر سے آنے والے یہودی آبادکاروں کو بسایا جا رہا ہے بلکہ ہیبرون ( الخلیل ) اور یروشلم ( بیت المقدس) کے قدیم محلوں میں صدیوں سے آباد کسی بھی فلسطینی خاندان کو دن یا رات کے کسی بھی پہر فوج کے پہرے میں آنے والا کوئی بھی اجنبی یہودی کسی بھی اسرائیلی عدالت کا حکم نامہ دکھا کر گھر سے نکال کر ’’ قانوناً ‘‘ ناجائز قبضہ کر سکتا ہے۔
اس وقت مشرقی یروشلم میں فلسطینی باشندوں کی اکثریت ہے جب کہ مغربی یروشلم میں یہودی آبادی کو گزشتہ پچپن برس کے دوران اکثریت میں بدل دیا گیا ہے۔اسرائیل اوسلو سمجھوتے کے تحت پابند ہے کہ یروشلم کو نئی آزاد فلسطینی مملکت کا مشترکہ دارالحکومت تسلیم کرے۔ اب اوسلو سمجھوتہ ہی نیم مردہ ہو گیا تو کون سا وعدہ کس کا وعدہ۔
اب تو سیدھا سیدھا حساب ہے کہ یہودی ریاست کھلم کھلا یروشلم کو ایک ناقابلِ تقسیم اسرائیلی دارالحکومت مانتی ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ اگلے بیس برس میں مشرقی یروشلم کی فلسطینی آبادی کی زندگی کو اتنا اجیرن کر دیا جائے کہ تنگ آ کر خود ہی گھر چھوڑ کے بیرونِ ملک چلے جائیں اور تب انھیں غیر ملکی قرار دے کر گھر واپسی کے حق کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ضبط کر لیا جائے اور پھر پورے یروشلم کو ایک یہودی اکثریتی شہر قرار دے کر فلسطینیوں سے امید کا آخری قومی و مذہبی سمبل بھی اڑس لیا جائے۔
اس منصوبے کو امریکا سمیت ان تمام ممالک کی تائید حاصل ہے جو گزشتہ چوتھائی صدی سے اپنے سفارتی و انتظامی دفاتر دھیرے دھیرے تل ابیب سے مغربی یروشلم منتقل کر رہے ہیں۔ان ممالک کی تعداد اب ستر سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ سب کے سب اقوامِ متحدہ کے رکن بھی ہیں جو ان سب حرکتوں کو متعدد بار غاصبانہ قبضہ قرار دے چکا ہے۔
فلسطینی کاز کو ایک بڑا دھچکا ان عرب ریاستوں کی جانب سے لگا ہے جو دھڑا دھڑ اسرائیل کو غیر مشروط انداز میں تسلیم کرتی جا رہی ہیں۔ جب انیس سو ستتر میں مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل کا دورہ کیا تو مصر کو سیاسی و سفارتی اچھوت قرار دے کر اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عرب لیگ سمیت ہر قابلِ ذکر ادارے سے نکال دیا گیا۔حالانکہ اس سے قبل ترکی ( انیس سو انچاس) اور شاہی ایران ( انیس سو پچاس ) اسرائیل سے سفارتی ہاتھ ملانے والے اولین مسلم ممالک تھے۔
آج ترکی و مصر کے علاوہ اردن ، مراکش ، متحدہ عرب امارات، بحرین اور اومان کے اسرائیل سے براہِ راست سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں۔جن عرب ریاستوں کے تعلقات براہ راست نہیں وہ خصوصی دفاتر کے روپ میں کاروبار کر رہے ہیں۔ سعودی عرب سمیت فی الحال جو یہ بھی نہیں کر پا رہے انھوں نے اسرائیلی فضائی کمپنیوں کو اپنا آسمان استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
کویت اور قطر آخری خلیجی ریاستیں ہیں جنھوں نے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا۔البتہ قطر نے ورلڈ فٹ بال فیفا کپ کی خوشی میں اسرائیلی شہریوں کو براہ راست پروازوں سے دوہا میں اترنے کی اجازت دے دی ہے۔
پے در پے دھچکوں کے سبب فلسطینیوں کی آزاد و خود مختار ریاست کا خواب رفتہ رفتہ دبیز دھندلکوں میں کھو رہا ہے۔فلسطین پہلے سے بڑھ کے تنہا ہے۔ لے دے کے عالمی برادری کے پاس یومِ یکجہتی فلسطین جیسے آئٹمز ہی دلجوئی کی خاطر بچے رہ گئے ہیں،یا بہت ہی مجبوری ہو تو مختلف عرب دارالحکومتوں سے کبھی کبھار ایک سائیکلوا سٹائیل حمایتی یا مذمتی بیان جاری ہو جاتا ہے۔
یورپی و عرب ممالک سمیت دنیا کا عمومی رویہ اب فلسطینوں کے ساتھ یہی ہے کہ ’’ ہمارے بھروسے مت رہو ، پرجہاں رہیو خوش رہیو۔‘‘ایک واحد خوش آیند امید کوئی ہے تو بس یہ کہ پانچ چھ برس کے فلسطینی بچے نے آج بھی ہاتھ میں پتھر اٹھا رکھا ہے۔
ان پابہ زنجیر مزاحمتیوں کو ایک اور یومِ فلسطین مبارک۔