عون چوہدری 2010سے 2018 تک سائے کی طرح عمران خان کے ساتھ رہے‘ یہ رات کے وقت انھیں ملنے والے آخری اور صبح ملاقات کے لیے آنے والے پہلے شخص ہوتے تھے۔
چناں چہ یہ عمران خان کی زندگی کے اہم ترین دور کے اہم ترین شاہد ہیں‘ مجھے چند دن قبل عون چوہدری نے اپنے گھر پر ناشتے کی دعوت دی‘ میں دو گھنٹے ان کے ساتھ بیٹھا رہا اور میں نے ان سے جو پوچھا انھوں نے مجھے وہ بلا جھجک بتا دیا۔
میں نے سب سے پہلے ان سے ریحام خان کے بارے میں پوچھا ’’ ان کا کہنا تھا ’’ریحام خان سے عمران خان کا رابطہ دھرنے کے دوران ہوا تھا‘ یہ انٹرویوز کے لیے کنٹینر پر آتی تھی اور یہ رابطہ آہستہ آہستہ اس تعلق میں تبدیل ہو گیا جس کا اختتام شادی کی شکل میں ہوا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ نکاح 10 محرم کو ہوا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ خبر غلط ہے۔
ریحام سے عمران خان کا نکاح 5 محرم کو ہوا تھا اور ہم نے یہ خفیہ رکھا تھا‘ریحام خان نے نکاح پر کسی قسم کی کوئی شرط نہیں رکھی تھی‘ حق مہر بھی شرعی تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’نکاح کے بعد کیا ہوا؟‘‘ یہ بولے ’’ 16دسمبر2014کو اے پی ایس پشاور کا واقعہ پیش آیا‘ ہمارا دھرنا ختم ہو گیا اور 8جنوری 2015 کو ہم نے ریحام خان سے شادی ڈکلیئر کر دی۔
میڈیا نے اے پی ایس کے واقعے اور خان کی شادی کو ایک ساتھ چلا کر ہماری مت مار دی لیکن خان صاحب ان باتوں سے نہیں گھبراتے‘ ریحام خان بنی گالا آ گئی اور اس نے گھر سنبھال لیا لیکن پھر دونوں کے درمیان جھگڑے شروع ہو گئے۔
عمران خان آزاد انسان ہیں‘ یہ پابندیاں برداشت نہیں کرتے جب کہ ریحام خان انھیں کنٹرول کرنا چاہتی تھی چناں چہ ٹکراؤ شروع ہو گیا‘ہم اکتوبر 2015 میں گھوٹکی میں نادر لغاری کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے‘ عمران خان نے وہ رات لان میں ٹہلتے ہوئے گزاری‘ میرا خیال ہے اس رات انھوں نے طلاق کا فیصلہ کر لیا تھا۔
یہ اگلے دن اسلام آباد چلے گئے اور میں بلدیاتی الیکشنز کے سلسلے میں لاہور آگیا‘ مجھے عمران خان کا فون آیا ریحام لندن کب جا رہی ہے؟ ٹکٹس کا بندوبست میری ذمے داری ہوتی تھی‘ میں نے خان کے ساتھ ٹکٹ شیئر کر دیا‘ ریحام خان نے جوں ہی27 اکتوبر کو ٹیک آف کیا‘ خان صاحب نے اسے طلاق ای میل کر دی اور لندن میں لینڈ ہوتے ہی اسے طلاق مل گئی‘ یہ خبر پھیل گئی تو ہم 31 اکتوبرکے بلدیاتی الیکشنز میں بری طرح ہار گئے۔
پنجاب کی خواتین نے ہمیں ووٹ ہی نہیں دیے‘ میں بہرحال یکم نومبر کو بنی گالا پہنچ گیا‘ عمران خان طلاق پر بہت زیادہ ڈسٹرب تھے‘ میں نے زندگی میں انھیں اس سے زیادہ کبھی پریشان نہیں دیکھا‘ ان کے بال بکھرے ہوئے تھے‘ شیو بڑھی ہوئی تھی اور یہ اپنے فیصلے پر پچھتا رہے تھے‘ یہ بار بار کہتے تھے یہ میں نے کیا کیا؟ اس کے تین بچے ہیں‘ اب ان کا کیا بنے گا؟ میں نے برا کیااور ہم انھیں تسلی دیتے رہے لیکن ان کی پریشانی بڑھتی چلی گئی۔
میں ڈر گیا اور زیادہ تر ان کے ساتھ رہنے لگا‘ میں نے گھر کے نوکروں سے تفتیش کی تو پتا چلا‘ خان صاحب نے طلاق سے پہلے فون پر کسی خاتون سے بات کی تھی اور یہ طلاق ان سے مشورے کے بعد ہوئی ‘ میں نے مزید تفتیش کی تو پتا چلا‘ خاتون کا نام بشریٰ بی بی ہے‘ یہ ہماری سوشل میڈیا ورکر مریم وٹو کی بہن ہیں اور ایک روحانی شخصیت ہیں۔
مریم وٹو دبئی میں رہتی تھی اور یہ اکثر خان صاحب کو فون کرتی رہتی تھی‘ اس نے خان صاحب کو بتایا میری بہن اﷲ کے بہت قریب ہے اوراس کا کہنا ہے آپ پر جادو ہے‘ آپ فوری طور پر اس کا توڑ کریں‘ عمران خان نے اس سے بہن کا نمبر لیا اور یوں ان کا بشریٰ بی بی سے رابطہ ہو گیا اور اس کے بعد یہ طلاق ہو گئی‘‘۔
میں نے پوچھا‘ آپ لوگوں کی بشریٰ بی بی سے کب ملاقات ہوئی؟‘‘ یہ بولے ’’نومبر 2015 میں ریحام خان کی طلاق کے بعد میں اور خان صاحب لاہور گلبرگ میں کلمہ چوک کے قریب خاور مانیکا کے گھر بشریٰ بی بی سے ملاقات کے لیے گئے۔
بی بی نے ہمیں دیکھتے ہی اعلان کر دیا تم دونوں پر جادو ہے‘ بی بی نے بعدازاں خان صاحب کے سر اور چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرے اور پھونک ماری‘ خان صاحب طلاق کی وجہ سے ڈپریشن میں تھے‘ ان کو بہت ریلیف ملا‘ بی بی کا کہنا تھا ہمیں دم کرانے کے لیے مزید دو مرتبہ آنا پڑے گا‘ ہم مزید دو مرتبہ لاہور گئے اور اس کے بعد مرشد خود بنی گالا شفٹ ہو گئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ یہ بولے ’’چند دن بعد بنی گالا کی اسٹریٹ نمبر دو میں بشریٰ بی بی نے تین کنال کا گھر کرائے پر لے لیا اور اس میں ایک مرسڈیز گاڑی بھی کھڑی ہو گئی۔
یہ تمام بندوبست احسن جمیل گجر نے کیا تھا‘ ہم اب روزانہ بشریٰ بی بی کے پاس جانے لگے‘ عمران خان کی ہر شام مرشد کے آستانے پر گزرتی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا بشریٰ بی بی نے نواز شریف کے زوال کی پیش گوئی کی تھی؟‘‘ یہ بولے ’’جی ہاں‘ بی بی نے یہ دعویٰ کیا تھا نواز شریف اقتدار سے بھی فارغ ہو ںگے اور جیل بھی جائیں گے۔
اپریل 2016میں واقعی پاناما کیس آ گیا‘ شریف فیملی پھنس گئی اور عمران خان کا بشریٰ بی بی پرانحصار مزید بڑھ گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’بات پھر شادی تک کیسے پہنچی؟‘‘ یہ بولے ’’ہم سب عمران خان کی شادی کرانا چاہتے تھے‘ تین چار بہت اچھے رشتے موجود تھے‘ان میں ہما بھی تھی‘ یہ خان صاحب کے لیے بہت مناسب تھی۔
میں نے خان صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں مانے‘ ہم اگلے دن بشریٰ بی بی کے پاس گئے تو خان نے ان سے کہا‘ عون میری شادی کرانا چاہتا ہے‘ بی بی نے ہنس کر کہا‘ آپ ان کی فکر نہ کریں‘ ان کی شادی میں خود کراؤں گی‘ میں خاموش ہو گیا‘ بشریٰ بی بی نے چند دن بعد عمران خان کومشورہ دیا‘ آپ میری چھوٹی بیٹی سے شادی کر لیں۔
بشریٰ بی بی کی بیٹی کو طلاق ہو چکی تھی لیکن خان نہیں مانا‘ ان کا کہنا تھا اس کی عمر صرف 25 سال ہے‘ یہ بہت چھوٹی ہے‘ یہ معاملہ یوں ختم ہوگیا لیکن پھر اچانک 31 دسمبر 2016کو خان نے مجھ سے کہا‘ میں بشریٰ بی بی سے نکاح کر رہا ہوں‘ تم نکاح کا بندوبست کر دو‘ ہم کل لاہور جا رہے ہیں‘ میں پریشان ہو گیا۔
میں نے ان سے کہا لیکن یہ تو شادی شدہ ہیں‘ خان بولا‘ نہیں ان کی طلاق ہو چکی ہے‘ بہرحال قصہ مختصر یکم جنوری 2017 کو ہم نے رات ریستوران میں ڈنر کیا‘ میں نے ذلفی بخاری کو بلایا‘ اپنا آفیشل فون احتیاطاً اسلام آباد میں چھوڑا تاکہ ہماری لوکیشن ٹریس نہ ہو سکے اور ہم موٹروے کے ذریعے لاہور روانہ ہو گئے۔
میں گاڑی چلا رہا تھا‘ خان ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا اور ذلفی بخاری پیچھے بیٹھا تھا‘ ہم نے معاملے کو خفیہ رکھنے کے لیے جہانگیر ترین کا جہاز تک استعمال نہیں کیا تھا‘ میں نے مفتی سعید (نکاح خوان) کو بھی الگ گاڑی میں بھجوایا تھا‘ یہ ہمیں لاہور میں ملے تھے‘ گارڈز کی گاڑی بھی ہم سے پانچ کلومیٹر پیچھے تھی اور اس میں بھی صرف دو لوگ تھے‘ ہم یوں ڈی ایچ اے لاہور کے جی بلاک کے چار نمبر گھر پہنچ گئے۔
یہ فرح گوگی اور احسن جمیل گجر کا گھر تھا‘ نکاح کی کارروائی شروع ہوئی تو بی بی نے حق مہر میں بنی گالا کا گھر مانگ لیا‘ عمران خان راضی ہو گیا لیکن میں ڈٹ گیا‘ فرح گوگی ہمارا پیغام بی بی اور ان کا ہمارے پاس لے کر آتی تھی لیکن میں نہیں مانا‘ خان صاحب بار بار کہہ رہے تھے یار لکھوا دو‘ کیا فرق پڑتا ہے لیکن میں نہیں مانا‘ بنی گالا میں گھر کے علاوہ عمران خان کا 7 کنال کا ایک پلاٹ بھی ہے۔
آخر میں فیصلہ ہوا عمران خان وہ پلاٹ اور زمان پارک کا گھر حق مہر میں لکھوا دیں اور ہم نے یہ لکھوا دیا یوں نکاح ہو گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’بی بی کی طلاق کب ہوئی تھی؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’14 نومبر 2016 کو‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ نکاح عدت میں ہوا؟‘‘ یہ فوراً بولے ’’جی ہاں‘ ہم نے اسی لیے یہ نکاح شروع میں خفیہ رکھا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا مفتی سعید نے طلاق کے کاغذات کی تصدیق کرائی تھی؟‘‘ یہ بولے ’’نہیں‘ ہمیں طلاق کے ڈاکومنٹس کبھی نہیں ملے۔
بی بی کا کہنا تھا مجھے شرعی طلاق ہوئی تھی چناں چہ ہمارے پاس طلاق کی کوئی دستاویز نہیں تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’اور اس کے بعد؟‘‘ یہ بولے ’’خان صاحب وہ رات نئی بیگم کے پاس رہے‘ اگلی صبح میں نے ترین صاحب کا جہاز منگوایا‘ ہم اسلام آباد آ گئے‘ اس دن انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہماری پیشی تھی‘ ہم سیدھے عدالت پہنچ گئے‘‘ میں نے پوچھا ’’نکاح کی خبر عمر چیمہ (ملک کے مشہور صحافی اور رپورٹر) کو کس نے دی تھی؟‘‘ یہ بولے ’’یہ خبر ہمارے لیے بھی حیران کن تھی‘ میرا خیال ہے یہ خبر احسن جمیل گجر نے لیک کی تھی۔
یہ لوگ چاہتے تھے عمران خان کا مائینڈ بدلنے سے پہلے یہ خبر عام ہو جائے تاکہ کام پکا ہو جائے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ لوگوں نے خبر نکلنے کے بعد نکاح سے انکار کیوں کیا تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’بی بی اس وقت عدت میں تھی‘ ہم اگر مان لیتے توفتوؤں کا شکار ہو جاتے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو پھر نکاح کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ عدت پوری ہو لینے دیتے‘‘ یہ شرمندہ ہو کر بولے ’’بی بی کا کہنا تھا یہ حکم اوپر سے آیا ہے اور ہم اوپر والے کا حکم کیسے ٹال سکتے تھے؟‘‘
(جاری ہے)