بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کو بلوچستان کا لکھئنو کہا جاتا ہے، یہ ادیبوں اور فن کاروں کا شہر ہے اور اس سرزمین کی مٹی کافی زرخیز ہے۔ اس زرخیز سرزمین میں تعلیم دوست اور تعلیم کے فروغ کے لئے کام کرنے والوں لوگ بھی موجود ہیں۔
دنیا میں جب کورونا ، نامی عالمی وبا پھیلا ہوا تھا تو ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کے لوگ پہلی بار آن لائن کلاسز سے آشنا ہوئے اور کورونا کے دور میں دنیا میں تعلیمی ادارے آن لائن تعلیم دیتے رہے ، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں دفاتر میں بھی آن لائن کام جاری رہا۔
بلوچستان کے ساحلی شہر پَسِّنی میں آن لائن کلاسز کے آغاز کی وجہ کورونا وبا نہیں بلکہ پَسِّنی کے ایک طالبہ جماعتی بلوچ کی تعلیم دوستی تھی،جماعتی خود پَسِّنی کے سرکاری ڈگری کالج میں ایسوسی ایٹ ڈگری کے طالبہ ہیں اور رات کے اوقات ایک وٹس ایپ گروپ میں سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے آگہی فراہم کررہی ہے۔
گورنمنٹ ڈگری کالج پسنی میں ایسوسی ایٹ ڈگری کے طالبہ جماعتی بلوچ نے گذشتہ سال آن لائن کلاسز کے ذریعے علاقے کے بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دینا شروع کیا اور جماعتی بلوچ نے ایک طالبہ ہوتے ہوئے ایک نئے جذبہ اور اپنی مدد آپ کے تحت آن لائن کلاسز کا اجرا کرکے علاقے میں ایک نئی امید قائم کرلی۔ جماعتی بلوچ کے مطابق اب ہمارے آن لائن کلاسز میں طلبا و طالبات کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس کو منیج کرنے کے لئے اب ہم پہلے رجسٹریشن کرتے ہیں تاکہ ان طلبا و طالبات کو جگہ مل سکے جو غربت کی وجہ سے کوچنگ یا پرائیوٹ ٹیوشن نہیں لےسکتے ہیں۔ جماعتی بلوچ پرعزم ہے کہ وہ دن ضرور آئے گی جب ہمیں اپنی محنت کا صلہ ملے گی۔
حال ہی میں جماعتی بلوچ نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر غریب اور ضرورت مَنْد طلبا و طالبات کو کتاب، کاپیاں اور یونیفارم دینے کا ایک نئی جہد کا آغاز کیا اور جماعتی بلوچ کے مطابق اس حوالے سے ہم مخیر حضرات سے چندہ اکھٹا کرکے ضرورت مَنْد طلبا و طالبات کو کتاب، کاپیاں اور یونیفارم سیمت دیگر بنیادی لوازمات فراہم کرچکے ہیں اور اس کام کو مذید آگے جاری رکھیں گے۔
جماعتی بلوچ نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جب ہم نے محسوس کیا کہ بہت سے بچے اور بچیاں تعلیم کی شوق رکھتے ہیں مگر انکی مالی حالت کمزور ہے اس لئے ہم نے بلوچ اسٹوڈنس ہیلپر کمیونٹی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ان طلبا اور طالبات کی مدد کرنا ہے جو مالی طور پر غیر مستحکم ہیں اور اس سلسلے میں ہم نے کچھ طلبا و طالبات کی مدد کی ہے اور مخیر حضرات کے تعاون سے اس سلسلے کو ہم تحصیل پَسِّنی کے دور دراز گاؤں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہمارا ایک ہی وژن ہے کہ پڑھا لکھا پَسِّنی۔
جماعتی بلوچ کے مطابق علاقے کے لوگوں کو فری میں ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہم غریب اور مستحق طلبا و طالبات کی تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے بھی کام کررہے ہیں۔ قندیل آن لائن پلیٹ فارم سے بلوچ اسٹوڈنس ہیلپر کمیونٹی کے سفر ہمارا ایک ایسا خواب ہے کہ ہر بچے کو تعلیم کی بنیادی ضروریات مل سکیں۔
بلوچستان کے ساحلی ضلع گْوادر ویسے بھی دیگر علاقوں کے حوالے سے تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے، جہاں درجنوں پرائمری سکول استاد نہ ہونےکی وجہ سے بند پڑے ہوئے ہیں اور شرح خواندگی بھی ملک کے دیگر علاقوں سے کم ہے، گْوادر کے دور دراز گاؤں میں اکثر سکول یا تو بند ہیں یا تعلیم کے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اسی وجہ سے علاقے بھر میں جماعتی بلوچ کے اس مثبت تعلیم دوست اقدام کو خوب سراہا جارہا ہے جبکہ سوشل میڈیا میں اس کام کو خوب پذیرائی بھی مل رہی ہے ، جس کی وجہ سے اس گروپ سے منسلک لوگوں کا مذید جذبہ ابھر رہا ہے۔