’خطرے ناک‘ عمران خان اور رانا ثناءاللہ کے ’انکشافات‘

عمران حکومت کو محلاتی سازشوں کے ذریعے ہٹاکر برسراقتدار آنے والوں کی اکثریت ’کائیاں اور تجربہ کار‘ سیاست دان ہونے کی شہرت رکھتی ہے۔ 2018ءمیں اقتدار گنوانے اور اپریل 2022ءمیں اس کے دوبارہ حصول کے باوجود یہ ’نابغے‘ ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کرپائے کہ عمران خان کی اصل قوت ان کی ’مہارت بیانیہ‘ ہے۔ روایتی میڈیا کو تیزی سے پچھاڑتے سوشل میڈیا کی اہمیت کو انھوں نے ہمارے تمام سیاست دانوں سے بہت پہلے سمجھ لیا تھا۔ اس کے علاوہ عوام کو اپنی حمایت میں ’متحرک‘رکھنے کا ہنر انھوں نے ’نفسیاتی جنگ‘ کے ماہر کھلاڑی میجر جنرل مجیب الرحمن کی بھرپور معاونت سے اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال کے قیام کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم کے دوران 1990ءکی دہائی کا آغاز ہوتے ہی سیکھ لیا تھا۔

مذکورہ بالا مہارت کو وہ اپریل 2022ءمیں اقتدار گنوادینے کے بعد مزید لگن اور توانائی سے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے دعویٰ کے مطابق ’خطرے ناک‘ ہوگئے۔ گلیوں کی زبان استعمال کروں تو اپنے مخالفین کو تن تنہا ’وختے‘ میں ڈالے رکھا۔ان ’قوتوں‘ سے بھی پنجہ آزمائی کی جرا¿ت دکھاتے نظر آئے جن کی سرسری اور بسااوقات واجب تنقید سے بھی ہم نسلوں سے گھبراتے رہے ہیں۔ہر عروج کو مگر ایک دن زوال سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں یہ محسوس کرنے کو مجبور ہوں کہ 9 مئی 2023ءکے روز ہوئے واقعات ان کے دور ِزوال کا آغاز ثابت ہوسکتے ہیں۔

سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ ممکنہ زوال کا فائدہ کون اٹھاسکتا ہے۔ بلھے شاہ کے بقول ’منہ آئی بات‘ کہنے کی اجازت دیں تو بھان متی کا کنبہ دکھتی موجودہ حکومت کے ’تجربہ کار اور کائیاں‘ تصور ہوتے افراد مذکورہ زوال کا فائدہ اٹھانے کے قابل نظر نہیں آرہے۔ کرکٹ کی اصطلاح استعمال کروں تو اکثر ’لوزبال‘ پر چھکا توکجا چوکا بھی نہیں لگاپاتے۔ اس کے علاوہ آسان ترین کیچ بھی ان کے ہاتھوں سے پھسلتا رہتا ہے۔

’بیانیہ سازی‘ کے ہنر سے موجودہ حکومت کی کامل محرومی کا ہر حوالے سے ’نصابی‘ شمار ہوتا’ثبوت‘ ہفتے کی رات دیکھنے کو ملا۔ رات کے کھانے کے بعد تقریباً ساڑھے گیارہ بجے میں اپنے بستر میں گھس گیا تھا۔ دروازے کھڑکیاں بند کرلینے کے بعد اضافی بتیاں بھی بجھادیں۔ فقط ٹیبل لیمپ جل رہا تھا اور بستر پر دراز ہوتے ہی میں نے حسب عادت اپنا فون سائلنٹ موڈ پر رکھنے کے بعد سوشل میڈیا پر آخری نگاہ ڈالنا شروع کردی۔

سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں کے پھیرے لگانے کے بعد بالآخر ٹویٹر اکاﺅنٹ کھولا تو وہاں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب صاحبہ کی ایک ٹویٹ دیکھنے کو ملی۔ اس کے ذریعے علم ہوا کہ رات ’بارہ بج کر دس منٹ‘ پر وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ قوم کے روبرو ’اہم‘ انکشافات رکھیں گے۔ یہ ٹویٹ دیکھنے کے بعد خود کو ’ذات کا رپورٹر‘ پکارنے والے اس بدنصیب کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ ٹیلی فون سرہانے کے نیچے رکھ کر ٹیبل لیمپ کی بتی بجھاکر سوجاتا۔ بستر سے باہر آکر بلکہ کمرے کو دوبارہ روشن کرنا پڑا۔ٹی وی دیکھنے کی مجھے عادت نہیں۔اس کے باوجود اسے بھی آن کردیا۔بستر چھوڑ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور بے تابی سے ’بارہ بج کر دس منٹ‘ کا انتظار کرنا شروع ہوگیا۔ رانا صاحب 12 بج کر 26 منٹ تک مگر سکرین پر نظر ہی نہ آئے۔بالآخر نمودار ہوئے تو ان کا چہرہ تھکا ہوا تھا۔ ان کی آنکھوں میں رعب دکھاتی ’چمک‘ موجود نہیں تھی۔ لہجہ بھی نیند کا متلاشی سنائی دیا۔

ایسی حالت میں بھی اگر وہ کوئی سنسنی خیز ’انکشاف‘فرمادیتے تو اس کی ’حرارت‘ دوآتشہ ہوجاتی۔ان کا خطاب مگر میڈیا کے اس طالب علم کے لیے ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘ ثابت ہوا۔ جو ’انکشافات‘ انھوںنے فرمائے ان کا ذکر مسلم لیگ (ن) کے نہایت قریب تصور ہوتے کئی ’صحافی‘ اور سوشل میڈیا پر متحرک ’مجاہدین‘ ہفتے کی سہ پہر سے اپنے لگائے پیغامات کے ذریعے مسلسل دہراچکے تھے۔جی ہاں وہ ’گھناﺅنی سازش‘ جس کے ذریعے تحریک انصاف مبینہ طورپر 9 مئی کے واقعات کی بدولت اپنی ’ساکھ‘ لٹوانے کے بعد موجودہ حکومت اور اس کے ’سرپرستوں‘ کو ایک بار پھر دیوار سے لگانا چاہ رہی ہے۔الزام ہے کہ تحریک انصاف کے کسی اہم رکن کے گھر ’پولیس چھاپہ‘ دکھتی ’واردات‘ کے ذریعے ہدف بنائے شخص کو قتل یا شدید زخمی کردیا جائے گا۔ مذکورہ منصوبے پر عمل نہ ہوپایا تو پولیس کی حراست سے ’رہائی‘ کے بعد کوئی خاتون رکن تحریک انصاف خود پر ’جنسی تشدد‘ کے ’ثبوت منظر عام‘ پر لاسکتی ہے۔

سچی بات ہے کہ مذکورہ الزامات کو میں نے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ تحریک انصاف کی سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود میں یہ تصور کرنے سے قطعاً قاصر ہوں کہ اس کی کوئی متحرک اور دیرینہ کارکن اپنے ساتھ ہوئی ’زیادتی‘ کی ’فرضی کہانی‘ گھڑنے کو آمادہ ہوگی۔ دوبیٹیوں کا باپ ہوتے ہوئے مجھے یہ دعویٰ ہضم کرنا ناممکن محسوس ہورہا ہے۔

بہرحال رانا ثناءاللہ نے قوم کو آدھی رات جگاکر مذکورہ الزامات ہی دہرائے۔ انھیں دہراتے ہوئے مصر رہے کہ ان الزامات کی بنیاد تحریک انصا ف کے چند سرکردہ رہ نماﺅں کے مابین ہوئی گفتگو ہے۔ فرض کرلیتے ہیں کہ تحریک انصاف کے چند پتھر دل افراد کے مابین ایسی گفتگو یقینا ہوئی ہے۔آڈیو لیکس کا نہ تھمنے والا سلسلہ یہ حقیقت بھی عیاں کرتا ہے کہ ہماری ریاست کے پاس ہر موبائل فون پر ہوئی گفتگو کو ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود ہے۔

مذکورہ سہولت کی دستیابی اگرچہ میری دانست میں اسے ’جائز‘ نہیں بناتی۔ اس کے باوجود مصر ہوں کہ اگر وزیر داخلہ کے پاس ’گھناﺅنی سازش‘ تیار کرتی گفتگو کی ریکارڈنگ موجود تھی تو وہ اسے اپنی تقریر کے دوران قوم کے روبرو رکھتے۔ اسے تیار کرنے والوں کے نام لیتے اور ہمیںاطلاع دیتے کہ ’سازش مجرمانہ‘ کے مرتکب ہوئے افراد حکومت کی گرفت میں آچکے ہیں یا نہیں۔

’ٹھوس شہادتوں‘کے بغیر ہوا رانا صاحب کا خطاب ہر حوالے سے وقت کا بچگانہ زیاں تھا۔ اس نے حکومت کے رعب ودبدبے اور ’ساکھ‘ ہی کو نقصان پہنچایا ہے۔ پہاڑ کھودنے کے بعد ’چوہا‘ نکالنے والی یہ تقریر آنے والے دنوں میں موجودہ حکومت کے لیے ’الٹی چال‘ کی طرح ’بدشگونی‘ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے