ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ ایوا گارڈنر 50 کی دہائی میں فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی شوٹنگ کے لیے لاہور آئی تھی ، ایک کلب میں اس نے فضل محمود کو دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئی اور پھر خواہش ظاہر کی کہ فضل اس کے ساتھ رقص کرے۔
1954ء کے دورۂ انگلینڈ میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے ملکہ برطانیہ سے بھی ملاقات کی تھی۔ ملکہ الزبتھ نے فضل محمود کو دیکھ کر فوراً کہا کہ آپ پاکستانی نہیں لگتے، آپ کی آنکھیں نیلی کیوں ہیں؟
پاکستان نے فضل محمود کی 12 وکٹوں کی بدولت اوول ٹیسٹ جیتا تو اگلے دن برطانوی اخبار نے سرخی لگائی ENGLAND FAZZALED OUT اس کے بعد فضل محمود ’’ اوول کے ہیرو‘‘ کہلاتے رہے۔
1955میں وزڈن نے انہیں سال کے 5 بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا ۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی تھے۔ان دنوں صرف فلمی اداکارائیں اشتہارات میں اپنے حسن کا راز بتایا کرتی تھیں۔پھر جب اس نوجوان کرکٹر کی شہرت کے ساتھ اس کے حسن وجمال کا چرچا شروع ہوا۔ گورا چٹا نیلی آنکھوں والا فضل محمود لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ تواشتہاری کمپنیوں نے بھی فضل محمود کی شہرت سے فائدہ اٹھانا چاہا اور یوں فضل محمود برل کریم کے اشتہار میں آکر پاکستان کے پہلے کھلاڑی ماڈل بن گئے۔
فضل محمود 18 فروری 1927 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج سے گریجویشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ انہوں نے1943 سے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ دس ٹیسٹوں میں کپتانی بھی کی.
پاکستان کو 1952ء میں ٹیسٹ کھیلنے کا درجہ ملا اور پاکستان نے پہلا مقابلہ ہندوستان کے خلاف دہلی میں کھیلا جہاں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیم کے کھلاڑی بوجھل دل کے ساتھ میدان سے لوٹ رہے تھے کہ باؤنڈری لائن پر کھڑی ایک لڑکی نے کہا "اچھا کھیلے، لیکن ہندوستان سے جیت نہیں سکتے!”۔
یہ لڑکی تھی اس وقت کے وزیراعظم ہندوستان جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی ، جو بعد میں خود بھی وزیراعظم بنیں اور اس جملے کے مخاطب تھے پاکستان کے نائب کپتان فضل محمود ، جنہوں نے اپنی آپ بیتی”From Dusk to Dawn” میں اس کا ذکر کیا ہے۔
فضل نے اس طعنے کا جواب لکھنؤ میں کھیلے گئے اگلے ٹیسٹ میں دیا، پہلی اننگز میں 5 اور دوسری اننگزمیں 7 یعنی کل 12 وکٹیں لے کر، جس کی بدولت پاکستان نے ایک اننگز اور 43 رنز کے بڑے مارجن سے مقابلہ جیت لیا ۔
پھر فروری 1959 میں کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میں گیری سوبرز کو آؤٹ کرکے فضل محمود ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی بن گئے۔
شاعر تک فضل محمود کی شہرت اور مقبولیت سے متاثر ہوئے۔ مجید امجد کی 1955 کی نظم ’’ آٹو گراف ‘‘ کی یہ سطریں فضل محمود کے بارے میں ہی ہیں۔۔۔
وہ باؤلر ایک ، مہ وشوں کے جمگٹھوں میں گھر گیا
وہ صفحۂ بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہریں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
فضل محمود نے کیرئر میں 34 ٹیسٹ کھیلے اور 139 وکٹیں حاصل کیں ۔فضل محمود پولیس میں ملازم ہوئے اور ڈی آئی جی کے عہدے تک پہنچے۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک منہاج القران میں شامل ہوگئے۔ اس کے سیاسی بازو پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے الیکشن بھی لڑا۔
آخری عمر میں جانے کیا جی میں آئی کہ بیوی کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد عشأ سے فجر تک کا وقت داتا دربار پر گزارتے رہے۔ اپنے محلے کی مسجد میں اذان بھی دیتے تھے۔فضل محمود کا 30 مئی 2005 کو لاہور میں انتقال ہوا، اور قبرستان مسافر خانہ، گڑھی شاہو میں سپردخاک ہوئے۔