پاکستان کا مفت سفیر

عرفان صدیقی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں‘ صحافت کا شوق تھا‘ اخبار میں کام کرتے ہوئے محسوس ہوا ساری زندگی کی مشقت کے بعد بھی خوش حال زندگی مشکل ہو گی‘ نوکری چھوڑی‘ کالج میں دوبارہ داخلہ لیا‘ کمپیوٹر پروگرامنگ کی تعلیم لی‘ جاپان کا ویزا حاصل کیا اور یہ جاپان آ گئے‘ شروع میں نوکریاں کیں‘ جاپانی خاتون سے شادی کی اور پھر اپنا کاروبار شروع کر دیا۔

یہ پاکستان سے سافٹ ویئرز تیار کرا کر جاپان میں فروخت کرتے تھے‘ سافٹ ویئرز بزنس سے تجارت میں آئے اور جاپانی گاڑیاں ایکسپورٹ کرنے لگے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا‘ یہ خوش حال ہو گئے‘ خوش حالی آ گئی مگر صحافت کا کیڑا نہ مر سکا چناں چہ یہ 2005 میں معروف اخبار سے وابستہ ہو گئے‘ یہ اب 18 سال سے جاپان سے رپورٹنگ بھی کر رہے ہیں اور کالم بھی لکھ رہے ہیں۔

میں ان کا مستقل قاری ہوں‘ ان کے کالم کی پہلی خصوصیت ’’ریڈیبلٹی‘‘ ہے اور ’’ریڈیبلٹی‘‘ تحریر کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے‘ انسان خواہ دنیا کی سب سے بڑی تخلیق متعارف کرا دے لیکن اگر وہ ریڈیبل نہیں ہو گی تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر کوئی لکھاری دنیا کی فضول ترین چیز بھی لکھ رہا ہو لیکن لوگ اگر اسے پڑھ رہے ہوں تو پھر وہ کام یاب بھی ہے اور بڑا لکھاری بھی‘ عرفان صدیقی کی تحریر کی پہلی خوبی اس کی ریڈیبلٹی ہے۔

آپ ان کا کالم مکمل کیے بغیر نہیں رہ سکتے‘ دوسرا یہ ’’سینس ایبل‘‘ لکھتے ہیں‘ ان کی تحریر میں صرف الفاظ نہیں ہوتے اس میں سینس‘ معلومات اور میسج بھی ہوتا ہے اور یہ دنیا میں اچھی تحریر کی دوسری بڑی خوبی ہوتی ہے اور عرفان صدیقی کی تحریر کی تیسری خوبی پاکستانیت ہے‘ یہ جاپان میں رہ کر بھی مکمل پاکستانی ہیں۔

یہ پاکستان کے لیے دھڑکتے بھی ہیں اور مچلتے بھی ہیں اور میں ان کی اس خوبی کو دوسری دونوں خوبیوں سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں‘ ہم پاکستانی اگر پاکستان میں پیدا ہونے کے بعد بھی پاکستانی نہیں ہیں تو پھر ہم بے وفا ہیں اور عرفان صدیقی اپنے ہر کالم میں پاکستان سے وفا کا پیغام دیتے ہیں۔

میں عرفان صدیقی کے کالموں کے ذریعے جاپان سے متعارف ہوا‘ یہ شخص جاپان میں پاکستان اور پاکستان میں جاپان کا مفت سفیر ہے‘ یہ ٹوکیو میں پاکستان کا مقدمہ لڑتا ہے اور پاکستان میں جاپانی کردار اور ثقافت متعارف کرا رہا ہے‘ جاپانی حکومت نے 2017 میں اسے ایوارڈ سے بھی نوازا اور یہ اس کی خدمات کا اعتراف تھا‘ مجھے چھ ماہ قبل عرفان صدیقی کا فون آیا اور یوں میرا ان کے ساتھ تعلق استوار ہو گیا۔

یہ پاکستان بھی تشریف لائے اور مجھے ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا‘ میں ان کی ترغیب پر جاپان آیا اور یہ پورے نو دن میری میزبانی کرتے رہے‘ یہ میرے ساتھ ہوٹل میں شفٹ ہو گئے‘ نو دن گھر نہیں گئے اور یوں ہم نے 80 فیصد جاپان ایکسپلور کر لیا‘ ہم نے ماوئنٹ فیوجی کی وادیاں بھی ایکسپلور کیں‘ وہاں میری ملاقات شیخ رشید فیم ملک نور اعوان سے ہوئی۔

ملک نور اعوان2017 میں قومی اسمبلی کے سامنے شیخ رشید سے ’’وصولی‘‘ کرتے ہوئے کیمروں میں آ گئے تھے اور یہ اس کے بعد پورے ملک میں مشہور ہو گئے تھے‘ یہ جولائی 2018میں میاں نواز شریف کے ساتھ لندن سے پاکستان بھی آئے‘ لاہور ائیرپورٹ پر ان کی جنرل فیض حمید کی اسٹیبلشمنٹ سے منہ ماری ہو گئی اور انھیں ائیرپورٹ ہی سے غائب کر دیا گیا‘انھیں انتہائی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ان کے کاغذات اور موبائل ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور یہ جب آخری ہچکیاں لینے لگے تو انھیں لہو لہان حالت میں قصور کے قریب پھینک دیا گیا‘ اللہ تعالیٰ کو ان کی زندگی عزیز تھی چناں چہ انھیں ہوش آ گیا اور یہ گرتے پڑتے سڑک پر آ گئے‘یہ الف ننگے تھے۔

خدا ترس لوگوں نے انھیں چادر دے دی اور یہ ٹرک پر لفٹ لے کر لاہور پہنچے مگر کوئی ڈاکٹر اور کوئی اسپتال ان کے علاج کے لیے راضی نہیں تھا‘ یہ بعدازاں پاکستان سے باہر کیسے نکلے؟ یہ بھی ایک طویل داستان ہے۔

بہرحال یہ جاپان واپس آئے اور آج تک علاج کرا رہے ہیں‘ تشدد کی وجہ سے ان کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہو گیا ہے اور انھیں چلنے پھرنے میں دقت ہوتی ہے‘ آپ یہاں سیاست کی سنگ دلی بھی ملاحظہ کیجیے‘ ملک نور اعوان نے جس پارٹی کے لیے یہ سب کچھ برداشت کیا۔

اس نے آج تک مڑ کر ان کی طرف نہیں دیکھا‘ جاپان میں لوگ آج بھی انھیں بے وقوفی کا طعنہ دیتے ہیں مگر یہ ہنس کر ٹال جاتے ہیں‘ یہ حقیقتاً سیاسی وفاداری کی ناقابل تردید مثال ہیں‘ سرتا پا بے لوث ہیں اور اس اخلاص میں تن‘ من اور دھن تینوں قربان کر چکے ہیں۔

میں عرفان صدیقی کے ساتھ ٹویوٹا اور برتن بنانے والی دنیاکی مشہور کمپنی ’’نوری ٹاکی‘‘ کے شہر ناگویا (Nagoya) بھی گیا‘ وہاں رانا عابد نام کے ایک رنگین پاکستانی رہتے ہیں‘ یہ اپنے مہنگے رنگ برنگے کپڑوں‘ جوتوں‘ گھڑیوں اور گاڑیوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔

فیصل آبادی ہیں‘ آٹھ جماعتیں پاس ہیں لیکن جاپان آ کر بہت ترقی کی اور اپنی پارٹیوں اور فراخ دلی کی وجہ سے پورے جاپان میں مشہور ہیں‘ ہم ہیروشیما بھی گئے‘ ہم نے وہاں دنیا کے پہلے ایٹم بم کی تباہی دیکھی اور عبرت پکڑی اورہم فوکوشیما کے شہر ایواکی (Iwaki) بھی گئے‘ فوکوشیما 2011میں سونامی سے بری طرح متاثر ہوا تھا‘ سونامی میں ساڑھے 19ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور شہر کے شہر سمندر برد ہو گئے۔

ایواکی بھی بری طرح تباہ ہو گیا تھا‘ ہم تباہی اور اس کے بعد جاپان کی قوت بحالی دیکھنے فوکو شیما گئے تھے‘ وہاں ہماری ملاقات وزیرآباد کے ایک پاکستانی تاجر اور صنعت کار ملک سلیم سے ہوئی‘ یہ بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح جاپان آئے۔

نوکری کی اور پھر گاڑیوں کا کاروبار شروع کر دیا‘ یہ سمجھ دار انسان ہیں چناں چہ یہ صرف گاڑیوں کی ٹریڈ تک محدود نہ رہے بلکہ انھوں نے چین سے اپنی گاڑیاں مینوفیکچر کرانا شروع کر دیں اور یہ اب ہر سال بیس ہزار گاڑیاں تیار کرا کر جنوبی امریکا اور افریقہ بھجواتے ہیں۔

ان کا برینڈ دس ملکوں میں پاپولر ہے‘ میری ان سے ملاقات ہوئی اور میں ان کی بزنس اپروچ‘ عاجزی‘ سادگی اور ایکسپوژر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ میں نے ان کے ساتھ چلی اور یوروگوئے کے سفر کا پلان بھی بنا لیا‘ ملک سلیم بہرحال ایسے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے‘ ہم نے آخری دو دن ٹوکیو میں گزارے اور دنیا کے مہنگے ترین اور مصروف ترین شہر کی افراتفری اور بھاگ دوڑ کو انجوائے کیا اور اس سارے ایڈونچر میں عرفان صدیقی میرے ساتھ تھے۔

جاپان میں پاکستانیوں میں چار خصوصیات ہیں‘ پہلی خصوصیت ننانوے فیصد پاکستانی استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارت سے وابستہ ہیں‘ آپ گلی یا سڑک پر چلتے کسی بھی پاکستانی سے کام کے بارے میں پوچھ لیںوہ آپ کو گاڑیوں کا بزنس کرتا ملے گا‘ پاکستانی اس بزنس میں کیوں ہیں؟ اس کی تین وجوہات ہیں‘ جاپان میں لوگ گاڑیاں خریدتے ہیں لیکن سفر یہ ٹرینوں میں کرتے ہیں۔

چناں چہ ان کی گاڑیاں غیر استعمال شدہ رہ جاتی ہیں‘ یہ لوگ چار سال بعد گاڑی تبدیل بھی کر لیتے ہیں لہٰذاان کی گاڑیاں کاغذوں میں چار سال پرانی ہوتی ہیں لیکن یہ بمشکل دس ہزار کلو میٹر چلی ہوتی ہیں اور پوری دنیا میں ان کی مانگ ہوتی ہے۔

دوسری وجہ‘ یہ آسان کام ہے اور ہم من حیث القوم مشکل کام پسند نہیں کرتے اور تیسری وجہ اس میں بے تحاشا بچت ہے‘ آپ آکشن میں گاڑی خریدیں‘ کھڑے کھڑے پاکستان‘ یو اے ای‘ افریقہ اور جنوبی امریکا ایکسپورٹ کریں اور مہینے میں تیس چالیس ہزار ڈالر کما لیں‘ کسی دوسرے بزنس میں اتنا مارجن نہیں لہٰذا ننانوے فیصد پاکستانی اس بزنس سے وابستہ ہیں‘ پاکستانیوں کی دوسری خصوصیت شادی ہے‘ ننانوے فیصد پاکستانیوں نے جاپان میں شادی کی۔

شاید جاپانی عورتیں پاکستانی مردوں کو بھی پسند کرتی ہیں اور یہ دوسرے کلچر سے متعارف بھی ہونا چاہتی ہیں اور پاکستانی اس معاملے میں تیار رہتے ہیں‘ تیسری خصوصیت پاکستانی مردوں کی جاپانی خواتین سے اولادیں بھی ہیں اور ان بچوں کو اردو بھی آتی ہے اور آخری خصوصیت 80 فیصد پاکستانیوں کی طلاقیں ہو چکی ہیں یا پھر یہ اس عمل سے گزر رہے ہیں۔

اس کی وجہ شاید ہماری حرکتیں ہیں‘ جاپانی قوم انتہائی صفائی پسند‘ ڈسپلنڈ‘ ٹائم کی پابند‘ سچی‘ نرم خو‘ نرم مزاج اور کم گو ہے جب کہ ہمارے اندر ان میں سے کوئی بھی خوبی موجود نہیں لہٰذا دس بارہ برسوں میں جاپانی خواتین کو ہماری سمجھ آ جاتی ہے اور یوں طلاق کا عمل شروع ہو جاتا ہے‘ پاکستانی بھی اتنا عرصہ سچ بول بول کر تھک چکے ہوتے ہیں لہٰذا یہ بھی شکر ادا کرتے ہیں‘ طلاق لیتے ہیں اور پاکستان سے نئی بیوی امپورٹ کر لیتے ہیں اور پھر جی بھر کر گند مچاتے ہیں اور ایک دوسرے کو پھینٹا لگاتے ہیں۔

عرفان صدیقی ہر لحاظ سے کمال انسان ہیں‘ یہ شادی شدہ ہیں‘ ان کی بیگم بینک میں سینئر پریذیڈنٹ ہیں اور یہ ان کے ساتھ خوش ہیں چناں چہ طلاق کا کوئی امکان نہیں‘ یہ پاکستان کے سابق سفیر اور موجودہ فارن سیکریٹری اسد مجید کے بہت فین ہیں‘ ان کا کہنا ہے اسد مجید نے اپنے دور میں جتنا کام کیا اتنا کام باقی تمام سفیر مل کر بھی نہیں کر سکے۔

تاہم ان کا خیال ہے جاپان کو 65 لاکھ نئے لوگوں کی ضرورت ہے‘ اسد مجید کی کوششوں سے پاکستان ان 8ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جس کے شہریوں کو جاپان میں امیگریشن کی سہولت حاصل ہے مگر پاکستانی آ نہیں رہے۔

عرفان صدیقی چاہتے ہیں پاکستانی جلد سے جلد اس سہولت کا فائدہ اٹھائیں‘ بلاول بھٹو اور اسد مجید جاپان آئیں اور پاکستان اور جاپان کے درمیان بند دروازے کھول دیں‘اس سے ہر سال پاکستان کو دس بارہ بلین ڈالر کا فائدہ ہو گا۔

میں حیران ہوں پاکستان عرفان صدیقی جیسے مفت سفیر سے فائدہ کیوں نہیں اٹھارہا‘ یہ اسے پاکستان اور جاپان کے درمیان معاشی پل کیوں نہیں بناتا؟میرا یہ سوال وزیراعظم سے بھی ہے اور وزیرخارجہ سے بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے