آئین کی بالادستی کا”واہمہ”۔

زندگی کی حقیقتیں ہماری ذاتی خواہشات سے بے نیاز ہوتی ہیں۔سیاست سے جڑے حقائق بھی ایسی ہی بے اعتنائی برتتے ہیں۔ اپریل 2022ء سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر ابھرے حقائق کا بغور جائزہ لیتے ہوئے لہٰذا میں یہ لکھنے کو مجبور ہوا کہ سابقہ حکومت کی برطرفی کے بعد تحریک انصاف کے بانی نے جس انداز میں اپنی فراغت کو ’’امریکی سازش‘‘ پکارتے ہوئے ’’حقیقی آزادی‘‘ کا نعرہ بلند کیا ہے اس کی شدت بروقت انتخاب کو ناممکن نہ سہی مشکل ضرور بناسکتی ہے۔اس تناظر میں چند کائیاں سیاستدانوں سے گفتگو کے بعد اس خدشے کا اظہا ر بھی کیا تھا کہ ہمارے ہاں عام انتخابات شاید 2025ء سے پہلے نہیں ہوپائیں گے۔

حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کے بعد جو نتائج اخذ کئے تھے انہیں اس کالم میں بیان کردیا تو کئی برسوں سے مجھے ’’بکا? اور بدکار‘‘ صحافیوں میں شمار کرتے سپاہ ٹرول نے میرے خدشات کو موجودہ حکومت کی مدت بڑھانے کی ’’خواہش‘‘ بناکر ان کی مذمت شروع کردی۔یہ الزام بھی لگا کہ میں ’’آئین کے تقاضوں‘‘ کے برعکس ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنے کی راہ بنارہا ہوں۔ اندھی نفرت میں مبتلا افراد کا علاج حکیم لقمان کے لئے بھی ممکن نہیں تھا۔ میرے باقاعدہ قاری مجھ سے ایک لمحے کو بھی ملے بغیر جبلی طورپر مگر یہ طے کرسکتے ہیں کہ ذاتی طورپر میں کامل جمہوریت کا پرستار ہوں۔ آئین کی ہر شق پر ہر صورت عملدرآمد ہوتا دیکھنا چاہتا ہوں۔

میری خواہش معروضی حالات کو مگر بدل نہیں سکتیں۔ 1950ء کی دہائی سے پاکستان میں بتدریج ’’جمہوریت‘‘ کی ایسی قسم مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے جو ریاست کے طاقت ور اداروں سے رہ نمائی کی طلب گار رہتی ہے۔عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی ہماری ریاست کا کمزور ترین ستون ہے۔ اس کا ایک ’’قائد ایوان‘‘ یعنی ذوالفقار علی بھٹو 1979ء میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ رواں صدی کی پہلی دہائی میں یوسف رضا گیلانی ایک بیرونی ملک کو اپنے ہی صدر کی ’’ناجائز دولت‘‘ کا سراغ لگانے کے لئے چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں توہین عدالت کے مرتکب ٹھہراکر گھر بھیج دئے گئے۔ ان کے بعد پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو کئی مہینوں تک سپریم کورٹ اور بعدازاں اس کی قائم کردہ تفتیشی ٹیم کے روبرو ذلت آمیز انداز میں پیش ہونا پڑا۔ نام نہاد پانامہ دستاویزات کارآمد ثابت نہ ہوئیں تو ’’اقامہ‘‘ کی بنیاد پر موصوف ’’خائن‘‘ ٹھہرا کر تاحیات سیاسی عمل میں حصہ لینے کے نااہل قرار پائے۔

مذکورہ بالا تناظر میں اپریل 2022ء میں فارغ ہوئے وزیر اعظم خوش نصیب تھے۔ انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لئے پارلیمان میں بیٹھے ان کے سیاسی مخالفین ہی یکجا ہوکر متحرک ہوگئے تھے۔آئین کی شقوں کے عین مطابق ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔مذکورہ تحریک کو ’’بیرونی سازش‘‘ ٹھہراکر قومی اسمبلی کے ان دنوں کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے ہاتھوں رد کروادیا گیا۔تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے بچگانہ فرار نے سپریم کورٹ کو مداخلت کو مجبور کیا۔گنتی کروانا ہی پڑی اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔

وہ تحریک کامیاب ہوگئی۔شہباز شریف نئی حکومت کے قائد منتخب ہوگئے تو میں دہائی مچانا شروع ہوگیا کہ روس اور یوکرین کے مابین برپا جنگ کی وجہ سے پاکستان کے پہلے سے موجود اقتصادی مسائل سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے جائیں گے۔ان مسائل کے حل کے لئے کڑوی گولی جیسی اصلاحات متعارف کروانا پڑیں گی۔ عوام کو حالات کی سنگینی سے غافل رکھنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ عام انتخابات کا فی الفور اعلان کردیا جائے۔ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتیں نہایت دیانتداری سے عوام کو حالات کی سنگینی کا احساس دلائیں اور ان سے نبردآزما ہونے کی حکمت عملی بیان کریں۔عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کونسی جماعت یا سیاسی رہ نما کی اپنائی حکمت عملی پر اعتبار کرتے ہیں۔

نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے کئی سرکردہ رہ نما نجی ملاقاتوں میں میری رائے سے اتفاق کرتے رہے۔بالآخر یہ محسوس ہوا کہ اقتصادی مسائل کے انبوہ سے گھبرا کر شہباز حکومت بھی 2022ء کی 25مئی کو قومی اسمبلی کی تحلیل کا ارادہ باندھ رہی ہے۔ قمر جاوید باجوہ نے مگر انہیں پنجابی محاورے والی ’’پْٹھی (یعنی اْلٹی) راہ‘‘ پر لگادیا۔ ’’قومی سلامتی‘‘ کے نام پر آئی ایم ایف سے معاملات بہتر کرنے پر اصرار کیا۔شہباز حکومت موصوف کے جھانسے میں آگئی۔ آئی ایم ایف کو رام کرنے کیلئے اقتدار سے چپکے رہنے کا فیصلہ کرلیا اور ایسے اقدامات لینے کو مجبور ہوئی جنہوں نے عوام کو مہنگائی کے ناقابل برداشت عذاب کا شکار بنادیا۔ناقابل برداشت مہنگائی کی لہر نے ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے خلاف نفرت کو مسلسل بھڑکایا ہے۔اس نفرت کو مزید ہوا دینے کے لئے تحریک انصاف کے قائد بھرپور توانائی کے ساتھ عمل پیرا رہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کو بھی اپنا بیانیہ فروغ دینے کے لئے بھرپور مہارت سے استعمال کیا۔ ان کی کاوشوں نے تبصرہ نگاروں کی اکثریت کو یہ سوچنے کو مجبور کردیا کہ اگر بروقت انتخاب ہوگئے تو کرکٹ سے سیاست میں آئے کرشمہ ساز کی جماعت دو تہائی اکثریت سے پارلیمان میں واپس لوٹ سکتی ہے۔

ہم جیسے ملکوں میں ’’آئین کی بالادستی‘‘ کے واہمہ پر ضرورت سے زیادہ اعتبار کرتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں۔ اس تحلیل کے بعد مگر ’’نوے دنوں کے اندر‘‘ ان اسمبلیوں کیلئے انتخاب ہو نہیں پائے۔سپریم کورٹ بھی اس تناظر میں بالآخر بے بس ولاچار ثابت ہوئی۔ ذاتی طورپر میں مصررہا کہ مذکورہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ’’نوے دنوں کے اندر‘‘ انتخا ب ہونا لازمی ہیں۔ ذاتی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بھی ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد شعیب بن عزیز کا ’’شب گزرتی دکھائی دیتی ہے-دن نکلتا نظر نہیں آتا‘‘ والا شعر اس کالم اور مختلف ٹی وی چینلوں پر دہراتا رہا۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کے انتخاب جس انداز میں ٹال دئے گئے ہیں وہ مجھے یہ سوچنے کو مجبور کرنا شروع ہوگئے کہ عام انتخابات بھی شاید اب بروقت نہیں ہوپائیں گے۔

مذکورہ خدشے پر میں غالباََ ڈٹا رہتا مگر 9مئی ہوچکا ہے۔ اس دن ہوئے واقعات نے اپریل 2022ء سے گزرے ماہ کے آغاز تک نظر آتے سیاسی حقائق کو قطعاََ بدل دیا ہے۔ دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں واپسی کے لئے تیار بیٹھی جماعت کے بے شمار ’’بانی اراکین‘‘ اور ’’الیکٹ ایبلز‘‘ تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر مذکورہ جماعت اور چند صورتوں میں سیاست ہی سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔ 9مئی کی بدولت جو فضا بن رہی ہے اب مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ عام انتخابات بروقت منعقد کروانا ہی پڑیں گے۔ شہباز حکومت بجٹ منظور کروانے کے بعد قومی اسمبلی کو تحلیل کروانے کی تیاری شروع کردے گی۔ اس کی خواہش ہوگی کہ تحلیل ایسے دن ہو جو نئے انتخاب کا ’’60دنوں‘‘ کے بجائے ’’90دنوں کے اندر‘‘ ہونا یقینی بنائے۔ یہ لکھ دینے کے بعد آئندہ چند روز میں اپنے ذہن میں ابھرے نئے خاکے کی تصدیق یا تردید ڈھونڈنے کی کاوشیں شروع کردوں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے