فارمیشن کمانڈرز کانفرنس اور 9 مئی کی ’سازشی منصوبہ بندی‘

پاک فوج کے کور کمانڈر جب فارمیشن کمانڈروں کے ساتھ مل کر کوئی اجلاس کریں تو یہ غیر معمولی حد تک ایک جامع عمل ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک اجلاس کے بعد بدھ کی شام مسلح افواج کے محکمہ¿ تعلقات عامہ کی جانب سے ایک پریس ریلیز کا اجراءہوا ہے۔اس کالم کے دیرینہ اور باقاعدہ قاری غالباً میرا یہ دعویٰ فی الفور تسلیم کرلیں گے کہ مذکورہ پریس ریلیز کی سخت گیز زبان نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔ رواں ہفتے کے آغاز سے اشاروں کنایوں میں مسلسل خبردار کرتا رہا ہوں کہ 9مئی کے واقعات ’انہوں‘ نے بہت سنجیدگی سے لیے ہیں۔ ان کے بارے میں ہماری ریاست کا طاقت ور ترین ادارہ ایسے ہی عالم میں غضبناک ہوچکا ہے جس نے نائن الیون کی وجہ سے امریکی فیصلہ ساز حلقوں کو کئی برسوں تک غصے سے بھڑکائے رکھا تھا۔

9مئی کے واقعات کو تاہم نائن الیون کے ساتھ گڈمڈ کردینا درست عمل نہیں ہوگا۔ اس روز نیویارک کی بلند ترین عمارت جو سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی علامت بھی تصور ہوتی ہے ’غیر ملکی تخریب کاروں‘ کا نشانہ بنی تھی۔ بعدازاں ان ہی عناصر کی جانب سے امریکا کے دفاعی مرکز یعنی پینٹاگون پر حملے کی ناکام کوشش بھی اسی دن ہوئی ۔جو حملے ہوئے لمحہ بہ لمحہ ٹی وی سکرینوں پر امریکی شہریوں کو نظر آتے رہے۔ اس کی بدولت نائن الیون فقط ا مریکا کی فیصلہ ساز اشرافیہ ہی کو غضب ناک بنانے تک محدود نہ رہا۔عام امریکی شہری بھی حملہ آوروں کے خلاف غضب ناک ہوگئے۔

اپنی زندگی کی تین سے زائد دہائیاں صحافت کی نذر کردینے کے باوجود یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ ہمارے صحافتی ادارے ابھی تک 9مئی جیسے واقعات کو چوبیس گھنٹے ’باخبر‘ رکھنے کی دعوے دار ٹی وی سکرینوں کے لیے رپورٹ کرنے کا ہنر سیکھ نہیں پائے۔ ’صحافت‘ ہماری ویسے بھی ریاست کے بنائے بے تحاشا قوانین وضوابط سے تیار ہوئی ’لگام‘ سے چلائی جاتی ہے۔ 9مئی جیسے واقعات ہوں تو انھیں کاملاً نظرانداز کرنے ہی میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔سوشل میڈیا کی بدولت مگر اب روایتی میڈیا کی اختیار کردہ ’احتیاط‘ قارئین وناظرین کی اکثریت کو ناراض کردیتی ہے۔ روایتی میڈیا اسی باعث بتدریج اپنی ساکھ کھونا شروع ہوگیا۔

تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جو ساکھ اب تقریباً لٹ چکی ہے اس کے تابوت میں آخری کیل اس زمانے میں لگنا شروع ہوئی جب ’باریاں لینے والے نااہل اور بدعنوان سیاستدانوں‘ کی جگہ کرکٹ کی وجہ سے ’کرشمہ ساز‘ ہوئے ایک صاحب کو ’دیدہ ور‘کی صورت متعارف کروانے کی کاوشیں شروع ہوئیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے یہ لکھنے کو بھی مجبور ہوں کہ مذکورہ عمل پنجابی محاورے کے مطابق ہاتھ سے گرہیں لگانے کے مترادف تھا جنھیں بالآخر دانتوں کے استعمال سے کھولنا پڑتا ہے۔

بدھ کی شام جاری ہوئی پریس ریلیز ’دانتوں‘ کے استعمال کا واشگاف الفاظ میں اعلان کرتی سنائی دی ہے۔ ’دانتوں‘ کے بالآخر استعمال کو مگر اب عوام کی اکثریت کے لیے ’جائز‘ثابت کرنا بھی ضروری ہے۔طیش کے عالم میں اس تقاضے کو نظرانداز کردیا گیا تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کے خلاف 2014ءمیں ہماری ریاست کے چند طاقت ور عناصر کی پشت پناہی سے ہوا دھرنا اپنے اہداف کے حصول میں قطعاً ناکام رہا تھا۔ اپریل 2016ءمیں لیکن دھماکہ کی صورت منظر عام پر آئیں ’پانامہ دستاویزات‘ نوازشریف کے مخالفین کے بہت کام آئیں۔ سپریم کورٹ نے ’سچ‘ ڈھونڈنے کے لیے ازخود نوٹس لیا۔اس کی جانب سے اس ضمن میں لی گئی پیش قدمی اور عدالتی کارروائی 24/7چینلوں کے ایئرٹائم پر چھائی رہی۔ صحافت کا بھرم برقرار کھنے کو بے چین مجھ جیسے بدنصیب مذکورہ عمل کے عاجلانہ پن کی بابت سوالات اٹھاتے تو ’لفافہ‘ ٹھہرادیے جاتے۔

کئی مہینوں تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں نواز شریف کے خلاف چلایا مقدمہ بالآخر ایسی فضا تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا جو تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لیے تاحیات ’نااہل‘ ٹھہرانے کا باعث ہوئی۔ ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کا دعویٰ ہے کہ 9مئی کے واقعات ’سازشی منصوبہ بندی‘ کی بدولت رونما ہوئے ۔ ان کے پاس اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے ثبوت بھی موجود ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ جن ’ثبوتوں‘ کا ذکر ہورہا ہے انھیں کس انداز میں عوام کے روبرو لایا جائے گا۔ فرض کیا مبینہ سازش کے منصوبہ ساز اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو انھیں باوقار اور قابل اعتبار ججوں پر مشتمل ’خصوصی عدالت‘ کے روبرو رکھنے سے احتراز کیوں برتا جائے؟

ملٹری ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا تذکرہ کئی تبصرہ کاروں کو یہ سوچنے کو اکسارہا ہے کہ شاید جس سازش کا بدھ کی شام آئی پریس ریلیز میں ذکر ہوا ہے اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے ’کورٹ مارشل‘جیسی کارروائی ہوگی۔ ’کورٹ مارشل‘ کی کارروائی جائز وجوہات کی بنیاد پر عوام کی دسترس سے دور رکھی جاتی ہے۔ 9مئی کے واقعات کے نظربظاہر ذ مہ دار مگر غضب ناک ہوئے ادارے کے اندر ہی سے محض چند افراد نہیں۔بنیادی ذمہ داری اس کی ایک سیاسی جماعت اور اس کے سرکردہ رہ نماﺅں پر ڈالی جارہی ہے۔

مذکورہ جماعت کے اندر سیاست کا میں شروع دن سے ناقد رہا ہوں۔گزشتہ چار برسوں میں طویل بے روزگاری کی صورت اس کی قیمت بھی چکائی ہے۔اس کے باوجود یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ کسی بھی سیاستدان کے خلاف ریاستی حلقوں کی جانب سے جمع ہوئے ثبوت ’ناقابل تردید‘ ہونے کے باوجود اس کے حامیوں کے لیے بسااوقات قابل قبول نہیں ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوران ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کو بے تحاشا ’ناقابل تردید‘ ثبوتوں کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ہاتھوں ’کالعدم‘ ٹھہرادیا گیا تھا۔ 1978ءمیں یہ ہی جماعت مگر عوامی نیشنل پارٹی کی صورت دوبارہ ’زندہ‘ ہوگئی اور آج بھی اپنی شناخت برقرا ر رکھے ہوئے ہے۔

میری دانست میں پانامہ دستاویزات کے حوالے سے نواز شریف اور ان کی دختر کے خلاف چلائی مہم مذکورہ تناظر میں زیادہ بارآور ثابت ہوئی تھی۔دیکھنا ہوگا کہ 9مئی کے مبینہ ذمہ داروں کے خلاف کس انداز میں کارروائی کا آغاز ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے