اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے اندازِ سیاست کا میں کبھی مداح نہیں رہا اور میرے لکھے متعدد کالم اس امر کے گواہ ہیں۔اس کے باوجود منگل کی شام سے دل ابھی تک اداس ہے۔ سبب اس اداسی کا سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک وڈیو ہے۔مذکورہ وڈیو میں دونوں حضرات اسلام آباد کی ایک ضلعی عدالت سے ضمانت منسوخ ہوجانے کے بعد پولیس کی گرفت سے بچنے کی خاطر ”فرار“ ہورہے ہیں۔
فرض کیا یہ دونوں حضرات گرفتار ہوبھی جاتے تومجھے سو فیصد یقین ہے کہ حراست کے دورا ن ان کے ساتھ عام قیدیوں والا سلوک نہ ہوتا۔ اپنے وسائل اور خاندانی تعلقات وہ چند دنوں کی حراست کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے بالآخر ضمانت پر رہائی کے لئے مہارت سے استعمال کرسکتے تھے۔غیر سیاسی جرائم میں ملوث افراد کی طرح ”گرفتاری سے فرار“ ان کے شایان شان ہرگز نہیں تھا۔
یہ لکھنے کے بعد بھی نہایت خلوص سے اعتراف کررہا ہوں کہ برطانوی سامراج نے ہمیں محکوم بنانے کے لئے جو قوانین اور ریاستی ڈھانچہ متعارف کروائے تھے وہ ”آزادی“ کے ستر سے ز یادہ برس گزرنے کے باوجود اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد آئی حکومتوں میں سے شاذہی کسی نے ان کو اپنے سیاسی مخالفین کو دیوا رسے لگانے کے لئے استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ سیاست دان جنہیں ہم ”روایتی“ اور ”موروثی“ پکارتے ہوئے اکثر طنزیہ فقروں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں ”برے وقت“ سے نبردآزما ہونے کے لئے لہٰذا ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
مزاحمت کئی برسوں تک بلکہ ہماری سیاست کا کلیدی وصف رہی ہے۔ میں نے اس کا مشاہدہ ایوب حکومت کے دس سالہ دورِ اقتدار کے وسط سے دیکھنا شروع کیا تھا۔غالباََ چوتھی جماعت کا طالب علم تھا تو صدارتی مہم میں حصہ لینے کی خاطر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح لاہور تشریف لائی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ پورا شہر ان کے استقبال کے لئے سیلاب کی طرح امڈ آیا ہے۔ان ہی دنوں حبیب جالب نام کا دیوانہ شاعر میرے لئے مزاحمت کی ٹھوس علامت کے طورپر رونما ہونا شروع ہوا۔ آغاشورش کاشمیری بھی لاہور کے باسیوں کو اپنے باغیانہ چلن سے میرے بچپن میں بہت گرماتے رہے۔ ہمارے ہی شہر میں مزاحمت کا مجسم اظہار ملک غلام جیلانی بھی تھے۔ مرتے دم تک آمرانہ نظام کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ ان کی دختر عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کی چھوڑی وراثت کو جرات وبہادری سے برقرار رکھا۔
1975سے مجھے صحافت علت کی طرح لاحق ہونا شروع ہوگئی تھی۔ سیاسی امور پر رپورٹنگ میرا جنون تھا اگرچہ کئی اساتذہ تلقین کرتے رہے کہ میں خود میں موجود ڈرامہ نگاری کی صلاحیت کو پروان چڑھانے پر زیادہ توجہ دوں۔ اخباروں کے لئے لکھنے کا شوق اگر بہت تنگ کرے تو ادبی موضوعات پر توجہ دوں۔ میں قطعی فیصلہ کرنے سے قاصر رہا۔ صحافت کے ہر شعبے میں ”منہ مارتا“ رہا۔ جنرل ضیاءکی جانب سے 1977میں لگائے مارشل لائکے بعد مگر مزاحمت کی سیاست میرا مرعوب ترین موضوع بن گئی۔ سیاسی رہ نما?ں اور کارکنوں کے لئے وہ انتہائی کڑا وقت تھا۔اپریل 1979میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر لٹکادئے گئے تھے۔اس کے بعد اسی برس کے اکتوبر میں تمام سیاسی جماعتیں ”کالعدم“ ٹھہرادی گئیں۔ اخبارات پریس میں جانے سے قبل سنسر سے ”کلیئر‘ ‘ ہونے بھجوائے جاتے تھے۔ ان میں عام سیاسی کارکن تو دور کی بات ہے انتہائی قدآور رہ نما?ں کا سرسری ذکر بھی ناممکن تھا۔ ”پاکستان کی سیاست“ سے آگاہ رہنے کے لئے فقط بی بی سی کے ”سیربین“ کا انتظار ہوتا۔
مارشل لاء کی مسلط کردہ خاموشی کے باوجود سیاسی کارکن کسی نہ کسی صورت مزاحمت دکھاتے رہے۔ برسرعام لگائے کوڑے اور ”دہشت گردی“ کے سنگین جرائم کے تحت لگائے الزامات کے باوجود جدوجہد سے باز نہ آئے۔ سیاسی کارکنوں کو ”سبق سکھانے“ کے لئے عموماََ فوجی عدالتوں سے سزایں دلوائی جاتی تھیں۔وہاں پیش کرنے سے قبل بے تحاشہ سیاسی کارکنوں کو لاہور کے شاہی قلعہ میں بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتاتھا۔ایسے حالات میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کارکن جلاوطنی کو مجبورہوئے۔ان کی جوانی فیض احمد فیض کی بتائی ”تاریک راہوں“ کی نذر ہوگئی۔
مزاحمت سے بتدریج محروم ہوتے معاشرے پر غور کرتے ہوئے میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ ہمارے ہاں 1988کے بعد سیاسی جماعتیں خلق خدا کو محض ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتی اور اقتدار میں باری لینے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو آمادہ نظر آئیں۔ ان کے طرز حکمرانی نے بھی لوگوں کو مایوس کیا۔ ایسے ماحول میں ”نظریاتی“ سیاسی کارکنوں کی گنجائش باقی نہ رہی۔ ”نظریاتی“ اگر تھے بھی تو بتدریج مذہبی انتہا پسندی کی جانب مائل ہونا شروع ہوگئے۔ نام نہاد ”ڈیپ سٹیٹ“ یا ”دریں دولت“ نے افغانستان کے تناظر میں ان کی انتہا پسندی نظرانداز کرنے کو ترجیح دی۔سوویت یونین پاش پاش ہوجانے کے بعد ”بائیں بازو“ کی سیاست بھی قصہ پارینہ بن گئی۔
ایسے حالات میں کرکٹ کی وجہ سے کرشمہ ساز شخصیت کے مالک نے جب اپنی والدہ کی یاد میں کینسر کے علاج کے لئے جدید ترین ہسپتال قائم کرنے کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم کا آغاز کیا تو بتدریج ایک ”دیدہ ور“ کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگئے۔تاریخ کا طالب علم ہوتے ہوئے میں ”دیدہ وروں“ سے خوفزدہ رہتا ہوں۔ عوامی مقبولیت انہیں خودپسند بنادیتی ہے جو بالآخر انہیں ”عقل کل“ آمر بنادیتا ہے۔ دیدہ وروں کی بابت ہزاروں تحفظات کے باوجود میں 2011کے بعد سے عمران خان کی نوجوانوں اور خاص کر پڑھی لکھی اور گھریلو خواتین میں مقبولیت کو ”اچھی خبر“ کی صورت لیتا رہا۔ مجھے گماں رہا کہ ان کی قیادت میں سپاہ ٹرول کے علاوہ ایسے افراد بھی ہماری سیاست میں نمایاں ہورہے ہیں جو نظام کہنہ کو ”مقدس“ تصور نہیں کرتے۔ اسے دورِ حاضر کے تقاضوں سے نبردآزما ہونے کے ناقابل سمجھتے ہیں۔
تحریک انصاف کے قائد کے پاس مگر اپنے عقیدت مندوں کے لئے کوئی دور رس حکمت عملی موجود ہی نہیں تھی۔ اپریل 2022میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے محرومی کو دل پر لے گئے۔ان کی سوئی ہر صورت اس منصب پر لوٹنے کی خواہش پر اٹک کے رہ گئی۔پنجابی محاورے کے مطابق اگر وہ ”روٹی ٹھنڈی“ ہونے کا انتظار کرتے تو اقتدار کھودینے کے باوجود قومی اسمبلی میں موجود رہتے ہوئے موجودہ حکومت کو کبھی کا دیوار سے لگاچکے ہوتے۔ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوکر انہوں نے مگر سیاست کے اصل ”اکھاڑہ“ سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اپنی توانائی موجودہ حکومت ہی نہیں ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کو بھی ”عوامی تحریک“ کے ذریعے نیچا دکھانے پر مرکوز کرلی۔
”عوامی تحریک“ پر ضرورت سے زیادہ تکیہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم ہمارے ریاستی ڈھانچے کی مبادیات سے قطعاََ غافل نظر آئے۔ سیاست بنیادی طورپر ”درمیانی راہ“ ڈھونڈنے کا کھیل ہے۔یہ تخت یا تختہ والے جھگڑوں سے گریز کا تقاضہ کرتا ہے۔ خان صاحب نے سیاست کے بنیادی تقاضوں کو تاہم حقارت سے بھلائے رکھا اور اب شعیب بن عزیز کی بنائی ”سردیوں “کی شام میں اداس اور اکیلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
ان کے دورِ اقتدار میں سیاسی مخالفین کی زندگیاں اجبرن بنانے والے ہتھکنڈوں کا فواد چودھری،اسد عمر اور شاہ محمود قریشی حیران کن حد تک دفاع کرتے رہے ہیں۔”مکافاتِ عمل“ کی حقیقت ان دنوں انہیں بھی یاد نہیں آئی۔ اب تیز اور گرم ہوا چلی ہے تو وقتی مزاحمت دکھاتے بھی نظر نہیں آرہے۔ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی جیسے قد آور اور طاقت ور خاندان کے نمائندے اگر ضلعی عدالتوں سے ضمانتیں منسوخ ہوجانے کے بعد غیر سیاسی ملزموں کی طرح ”بھاگتے‘دکھائی دیں تو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کس بھروسے پر ریاست وحکومت کو للکاریں گے۔؟!