نعتیہ مشاعرہ ختم ہوا تو جنرل شاہد حامد کرسی صدارت سے اتر کر سیدھا احمد فراز کے پاس آئے اور ڈپٹ کر بولے
فراز تم باز نہیں آتے یہ تم نے کیا پڑھا
میں نے وہی پڑھا ہے جو میں لکھتا ہوں فراز اس غیر متوقع وار سے سنبھل کر بولے ۔میں پوچھتا ہوں یہاں تم نے ایسی چیز کیوں پڑھی.
میں تو وہی پڑھوں گا جو میں لکھتا ہوں ۔میں تمہیں سمجھوں گا ۔شاہد حامد وزیر اطلاعات تھے جنرل ضیاء چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور یہ جا وہ جا.
مگر سارا ہال سناٹے میں آگیا اور میرے ذہن میں فراز کی نعت کے شعر گونجنے لگے
مرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
تو روشنی کا پیمبر ھے اور مری تاریخ
بھری پڑی ھے شب ظلم کی مثالوں سے ۔
احمد فراز کو وسیلہ روزگار اور جنرل شاہد حامد کو مسند وزارتِ سے محروم ہوئے ایک مدت ہو چکی ہے. مگر یہ واقع میرے ذہن میں ایک ڈروانے خواب کی طرح محفوظ ہے .اپنے شعری مزاج اور ادبی نظریہ کی بدولت فراز روائتی حمد وثناء رسمی توصیف کے بجائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی سے کسب نور کا خوگر ہے.
جھوٹی مذہبیت کے ریاکار تاجروں کے دست ہوا اور سلاطین و ملوک کے دست ستم پر بیعت نہ کرنے کی خواہش اپنا کر فراز نے ہماری روحانی تاریخ کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے وہ شب ظلم کے اندھیروں سے لڑنے کے لئے محمد اور حسین کی سیرت سے روشنی اور استقامت کا جویا ہے ۔
میں آج اسی کربلا میں
بے آبرو نگون سر
شکست خوردہ خجل کھڑا ھوں
جہاں سے میرا عظیم ہادی
حسین کل سرخرو گیا ھے
فتح محمد ملک کے مضمون احمد فراز کا شہر آشوب سے اقتباس
کتاب احمد فراز کی شاعری تحریر فتح محمد ملک دوست پبلشر اسلام آباد