ایک تو اسرائیل بذاتِ خود نسل پرست فسطائی نظریاتی ریاست۔اس پر طرہ یہ کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی موجودہ مخلوط حکومت کو اسرائیل کی پچھتر برس کی تاریخ میں اب تک کی سب سے جنونی حکومت کہا جا رہا ہے کہ جو انتہائی دائیں بازو کی ان دو جماعتوں کے سہارے کھڑی ہے کہ جنھوں نے بنا لگی لپٹی اپنا تین نکاتی منصوبہ کھول کھول کے بیان کر دیا ہے۔
اس منصوبے کے مطابق بہتر تو یہ ہو گا کہ تمام فلسطینی بشمول عرب بدو اسرائیل اور غربِ اردن سے رضاکارانہ طور پر بے دخل ہو جائیں۔اگر نہ ہوں تو خود کو درجہ دوم کے شہری کی اوقات پر رکھیں کہ جو ہمیشہ اکثریت ( اسرائیلی یہودی ) کی خوشنودی کے سبب اپنی ہی زمین پر غیروں کی طرح رہے۔ پھر بھی اگر وہ آمادہِ مزاحمت ہوں تو بے رحمی سے کچل کے پوری طرح زمین سے لگا دیا جائے۔
جنین پناہ گزین کیمپ پر ایک سال کے عرصے میں تیسری بڑی فوجی کارروائی دراصل ہر فلسطینی زن و مرد و طفل تک یہی پیغام پہنچانا ہے کہ یہاں رہنا ہے تو سر جھکا کے بنا اف کیے رہو ورنہ مٹانے کا کوئی معمولی موقع بھی ضایع نہیں کیا جائے گا۔
مگر ایسی قوم کا کیا کریں جس کی چوتھی نسل کا بچہ بھی ٹینک اور طیارے کی مزاحمت کے لیے بقول شخصے ہاتھ میں ایک پتھر اور غلیل لے کے پیدا ہوتا ہے۔
ہر نئی امریکی انتظامیہ گزشتہ سے بڑھ کے اسرائیل کی پاپوش برداری کرتی ہے۔جتنی اندھی وفادار امریکی کانگریس ہے اتنی حمایت تو خود اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ میں بھی بعض اوقات اسرائیلی حکومت کو دستیاب نہیں ہوتی۔
غزہ کو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔جب کہ غرب اردن میں اس وقت انیس کیمپ ہیں جن میں ان عربوں کی چوتھی اور پانچویں نسل اقوامِ متحدہ کی امداد پر زندہ ہے جنھیں پچھتر برس پہلے ان آبائی گھروں اور زمینوں سے کھدیڑا گیا تھا جن کے ملبے پر اسرائیل کی ریاست کو باضابطہ کھڑا کیا گیا۔
دو روز قبل جب ایک ہزار اسرائیلی فوجیوں نے انھی انیس کیمپوں میں سے ایک یعنی نصف کلومیٹر کے قطر میں آباد جنین کیمپ میں محبوس چودہ ہزار فلسطینیوں کا محاصرہ کیا اور ایمبولینسوں کو بھی ہیلی کاپٹرز، ڈرونز اور بھاری ہتھیاروں کی بمباری سے زخمی انسانوں کو لانے لے جانے کی اجازت نہیں دی۔
عین اس وقت وائٹ ہاؤس سے بیان جاری ہوا کہ حماس اور اسلامک جہاد کے دہشت گردوں کے خلاف اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔اسی دوران وہ تصاویر میڈیا میں شایع ہوئیں جن میں اسرائیل میں امریکی سفیر ٹوم نائیڈز لبنانی سرحد پر تعینات اسرائیلی فوجی دستوں کے درمیان کھڑے وکٹری کا نشان بنا رہے تھے۔
گزشتہ ہفتے ہی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے پارلیمان میں کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کو ہر صورت میں کچلنا ہماری ترجیح ہے۔
اندھی امریکی حمایت اس امر کے باوجود ہے کہ نیتن یاہو اور صدر جو بائیڈن کے ذاتی تعلقات میں بظاہر سرد مہری ہے۔بائیڈن نے اب تک نیتن یاہو کو واشنگٹن مدعو نہیں کیا۔ گذرے مارچ میں جب اسرائیل میں متنازعہ عدالتی اصلاحات کے خلاف ہر جانب احتجاجی جلوس نکل رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس نے بس اتنا کہا کہ اسرائیلی حکومت کو ان اصلاحات کی بابت حزبِ اختلاف کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔ ردِعمل میں نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ ’’ امریکا اسرائیل کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے‘‘۔
ریاستوں کے درمیان دو طرفہ مراسم ہوتے ہیں یہ تو سنا جاتا ہے۔ لیکن کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کی یکطرفہ اندھی عاشق بھی ہو سکتی ہے۔یہ دیکھنا ہو تو اسرائیل کے بارے میں امریکا کا تاریخی طرزِ عمل دیکھنا کافی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے چین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر رقیبانہ تحفظ ظاہر کیا تو نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اس سال بیجنگ کا دورہ کریں گے۔چین سے قربت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ امریکا ہم پر اور توجہ دے گا۔
گزشتہ ماہ امریکی وزیرِ خارجہ اینتنی بلنکن نے ریاض میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ذاتی درخواست کی کہ وہ بھی متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرلیں۔
جب سے امارات ، بحرین اور اسرائیل کے درمیان ’’ معاہدہِ براہیمی دو ہزار بیس ‘‘ ہوا ہے۔تب سے بحرین اور امارات کے ریڈار سے فلسطین غائب ہوگیا ہے۔
گذرے رمضان میں مسجدِ اقصی میں اعتکاف میں بیٹھے بزرگوں پر اسرائیلی پولیس کے تشدد کا معاملہ ہو یا قومی سلامتی کے وزیر کا جوتوں سمیت مسجد کے احاطے کا دورہ ہو یا جنین کیمپ پر اسرائیل کا ننگا حملہ ہو یا پھر غزہ پر ہر چند ہفتے بعد بمباری ہو۔آپ کو امارات و بحرین رسمی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اب نظر نہیں آئیں گے۔
اس کے باوجود جب امارات نے امریکا سے جدید ترین ایف پینتیس لڑاکا بمبار طیارے خریدنے کی خواہش ظاہر کی تو اسرائیل نے اس خواہش کو ویٹو کردیا۔جب کہ خود اسرائیل اب تک پچھتر ایف پینتیس طیارے حاصل کر کے مشرقِ وسطیٰ کی سب سے طاقتور فضائی قوت کے پہلے پائیدان پر بدستور قائم ہے۔یہ تمام طیارے اس فوجی امداد سے خریدے گئے ہیں جو امریکا نے اسے دفاعی مد میں دی ہے۔گویا اسرائیل کو یہ طیارے مفت میں پڑے ہیں۔
اس برس دوطرفہ تعلقات کے پچھتر برس پورے ہونے پر اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے خصوصی مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی ہے۔وزیرِ اعظم نیتن یاہو ایک جانب وائٹ ہاؤس کو ہمیشہ سے جوتے کی نوک پر رکھتے آئے ہیں تو دوسری جانب انھیں امریکی کانگریس اب تک تین بار مشترکہ اجلاس سے خطاب کا اعزاز بخش چکی ہے۔( بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو یہ شرف دو بار مل چکا ہے )۔
اسرائیل نے جس امریکی انتظامیہ سے جتنی بدتمیزی کی اس انتظامیہ نے اسرائیل کے لیے خزانے کا اتنا ہی زیادہ منہ کھولا۔بارک اوباما اور نیتن یاہو کے ذاتی تعلقات کبھی بھی بہتر نہیں رہے۔مگر سب سے زیادہ فوجی امداد ( اڑتیس ارب ڈالر ) اوباما دور میں ہی اسرائیل کو ملی۔
بائیڈن انتظامیہ سے اسرائیل کے تعلقات روزِ اول سے ہی سرد مہری کا شکار ہیں۔مگر امریکی سینیٹ اور ایوانِ زیریں کے چھ یا سات ارکان کو چھوڑ کے باقی سب اسرائیل کے بارے میں بیک آواز ہیں۔بائیڈن بھی جانتے ہیں کہ سینیٹ میں ان کی پارٹی کو محض دو ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے جب کہ ایوانِ زیریں پر ان کے کٹر سیاسی دشمن ریپبلیکنز چھائے ہوئے ہیں۔
اتنی احتیاط برتی جاتی ہے کہ چھ برس پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو سے ’’ اسرائیل پر نکتہ چینی کے جرم‘‘ میں مکمل علیحدگی اختیار کر لی۔بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے ہی اس فیصلے کو منسوخ کر دیا مگر اسرائیل سے پیشگی مشورے کے بعد۔
گزشتہ برس جو بائیڈن نے فرمایا کہ ’’اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو ہم ایک اسرائیل تب بھی ایجاد کر لیتے‘‘۔
ایسے اظہارِ عشق کے بعد تیرے میرے کے اس رونے گانے کی کیا اہمیت ہے کہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے بارے میں کیا پالیسی ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)