گزشتہ ایک عشرے کی دستوری اصلاحات اور سیاسی گہماگہمیاں انفرادی آزادیوں کی تنزیل کی خواہش پر بندھے مرکزیت پسند سیلابی بند میں سوراخ پر سوراخ کرتی چلی جا رہی ہیں۔ اجتماعی سرگرمیوں کی یہ لہر اوپری سطحوں سے نیچے تک، مراکز سے مضافات تک اور ایک نسل سے دوسری نسل تک مسلسل پھیلتی نظر آ رہی ہے۔
مقامی حکومتوں کے انتخابات مقامی انتخابی ثقافتوں میں روایتوں کو محفوظ بناتے اور نئے رجحانات کا اضافہ کرتے ہوئے اپنے آخری مراحل میں ہیں۔ ضلع جھنگ کے حلقہ 89 میں 5 دسمبر کو ہوئے تیسرے مرحلے کے لوکل باڈیز انتخابات سے بالغ ووٹروں کی روزمرہ زندگیوں میں سرگرمی آئی ہی تھی، لیکن اس سے یہاں کہ وہ باسی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے جن کی عمریں اس عمل میں شمولیت کے لیے ابھی کم ہیں۔ پاکستان کے مضافات میں جہاں ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں بڑوں کی دیکھا دیکھی دھول اڑاتے بچوں کو ‘خودکش بمبار’ کا کھیل کھیلتے ہوئے دیکھا جاتا رہا ہے، وہیں گھروں اور عوامی مقامات پر انتخابی عمل سے متعلق ہو رہی گپ شپ اور عوامی تبصروں سے متاثر ہو کر دیہاتی بچوں کا ‘الیکشن الیکشن’ کا کھیل رچانا نسبتاً حوصلہ افزا بات ہے۔ جمعہ 8 جنوری کو حلقہ 89 کی بستی عباس پور میں نہ ہو سکنے والے بچوں کے الیکشن ایک اعتبار سے ‘بڑوں کے انتخابات’ کی بچگانہ نقالی تو تھی ہی، لیکن ہمسایہ بستی خان پور میں کچھ دن پہلے ہوئے جیونیر الیکشن اور برسوں قبل قریبی گاؤں موضع ساہجھر میں ہو چکے ایسے ہی ننھے انتخابات سے ملنے والی یادگار تفریح کا اعادہ کرنے کی ایک کوشش بھی تھی۔
انتخابی نشان بلّے کا بڑا امیدوار 17 سالہ دلشاد کھیتی باڑی میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا ہے، جبکہ چھوٹا امیدوار 15 سالہ حیدر نویں جماعت سے اسکول چھوڑنے کے بعد الیکٹریشن کاریگر کے ہاں شاگرد ہے۔ ان دونوں کے گھر بستی کی مرکزی آبادی میں ہیں اور یہ بستی کے پہلے پہلے آبادکاروں کی تیسری نسل ہیں۔ انتخابی نشان بالٹی کا بڑا امیدوار 13 سالہ اللہ دتہ کا والد سنیاس اور سپیرے کا کام کرتا ہے۔ اللہ دتہ خود دن میں گدھا گاڑی چلاتا ہے اور رات کو گلی میں گرم انڈے فروخت کرتا ہے۔ گاؤں کے ایک کونے پر ایک کچا جھونپڑا اس کا گھر ہے۔ بالٹی کے نشان پر چھوٹے امیدوار 8 سالہ شوکت کا خاندان ‘گائیں والے’ کہلاتا ہے۔ یہ خانہ بدوش قبیلہ ڈیڑھ عشرے قبل بدوی زندگی تیاگ کر گاؤں کے ایک کونے پر آباد ہوا تھا۔ دریائے جہلم کے مزاج میں انہی ڈیڑھ عشروں کی انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے جہاں قریب کی بہت سی زرعی زمینیں بے کار ہوئی ہیں، وہیں بہت سی نئی چراگاہوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ اس وجہ سے یہ قبیلہ اب مستقل گھروں میں رہتے ہوئے اپنے آبائی پیشے گلہ بانی کو جاری رکھنے کے قابل ہو گیا ہے۔ اس آزاد منش قبیلے نے ابھی تک ٹھیٹ صحرائی لہجے اور خانہ بدوش ثقافتی عناصر کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ شوکت اکثر اوقات گائیں چراتے ہوئے اپنے گھر والوں کے ساتھ چراگاہ میں گھومتا پھرتا نظر آتا ہے اور اپنا جیب خرچ اللہ دتہ کی ہمراہی میں ابلے انڈے بیچنے کے جزوقتی کام سے نکالتا ہے۔
ایک مثبت اجتماعی عمل میں فرد کا آزاد ارادہ کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ ان بچوں کو حالات کے جبر نے اپنی زندگیوں میں متوسط طبقے کے بچوں کی نسبت زیادہ خودمختار بنا دیا ہے اور اپنی روزمرہ زندگی کے معاملات طے کرنے میں انہیں اپنے بڑوں کا احتیاج بہت کم رہتا ہے۔ جمہوریت کا درس انہوں نے اسکول کے گھٹن زدہ بستوں سے نہیں نکالا بلکہ اپنی پچھلی نسل کی عمرانی زندگیوں اور اپنے ماحول کے آزادانہ مشاہدے سے اخذ کیا ہے۔ یہ امر علاقے میں انفرادی آزادیوں کے حصول کی کسی بھی ممکنہ مثال کے خانہ زاد ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ مقامی طور پر بڑی جاگیردار طاقتوں اور پنچایتی اداروں کے زوال، مابعد اٹھارہویں ترمیم کے منظرنامے اور تشویشناک ماحولیاتی تبدیلیوں کے زرعی معاشرت پر اثرات نے یہاں کے یونین کونسل ہال کی سرگرمیوں کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے سیلابی بندوں کی تعمیر اور زرعی زمینوں کی تباہی سے نمٹنے کے لیے ایک عرصے بعد چھوٹے کاشتکار اور متوسط و غریب طبقے کے لوگ اتنی سرگرمی کے ساتھ مسائل پر اتفاق رائے کی کوششوں میں سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ جہاں کسی وڈیرے کے حکم کی بجائے موقف کی گنتی غلط یا درست فیصلے کر رہی ہے۔
یہ بچے جنہیں قبل از وقت زندگیوں کے جبر نے گھیر لیا ہے، مزاجِ خلق، ہواؤں اور دریاؤں کے چال چلن، ٹوٹتے بنتے خاندانوں کے مفادات، گلیوں اور کھلیانوں کے طول و عرض اور دکانوں پر آٹے دال کے بھاؤ سے واقفیت انہیں اجنبی زبان کی نصابی کتابوں سے نہیں ملی، بلکہ زندگی کا عملی شعور انہوں نے ماؤں کی بولیوں، باپوں کے تلخ و ترش اور گھر سے باہر زندگی کے بنجارپنے سے حاصل کیا ہے۔ کھیل کھیل میں انتخابی عمل سے شناسائی شاید ان بچوں کے لیے اس لیے بھی مفید ہوتی کہ یہی مستقبل کے بالغ شہری ہیں اور گاؤں کو اگلے عشروں میں درپیش مسائل پر عملی بحث کے لیے موزوں آوازیں کسی اور دنیا سے نہیں آئیں گی۔
اجتماعی اعمال میں استصواب کو بنیاد بنانے کے لیے استدلال کے بنیادی معیارات میں فہم عامّہ کو ایک نمایاں سند سمجھا جاتا ہے۔ چھوٹی عمروں میں فہم عامہ اپنی خالص ترین شکلوں میں پائی جاتی ہے، جبکہ شعوری زندگی کے پختہ ہوتے ہوتے یہ عصبیتی شعور، سماجی و انفرادی رسوم و اقدار پر مبنی امور و نواہی اور دیوانگانہ مشروطیتوں کے ہاتھوں چھوٹے چھوٹے ناقابل مصالحت فکری نظاموں میں بٹ جاتی ہے۔ ان بچوں نے ان ننھے منے انتخابات کا جو مقصد بیان کیا ہے، وہ آبادیوں کی جمہوری تاسیس کے کلاسیکی مباحثوں کا نہایت اہم موضوع رہا ہے، یعنی شادمانی کا حصول۔
ایک سوال کے جواب میں ایک بچے نے بتایا؛ "ان الیکشنوں سے ہمارا اور کوئی مقصد نہیں تھا، ہم نے تو اسی بہانے تھوڑا ‘شغل میلہ’ کرنا تھا”۔ طے پایا تھا کہ جیتنے والی پارٹی حریفانہ نعرے بازی نہیں کرے گی، ہر دو طرف کے امیدوار ایک دوسرے کو گلے لگائیں گے۔ کچھ پیسے جمع کیے گئے تھے کہ شام کو دونوں پارٹیاں ڈھول دھمال کے ساتھ گاؤں کے قریب مدفون درویش پیر عبدالرحمان کی درگاہ پر چادر چڑھائیں گی اور پھر وہاں پلاؤ کی دیگ پکے گی اور کھائی جائے گی۔ گاؤں کے حجام جاوید کا وعدہ تھا کہ وہ چائے کا دیگچا دھرنے کو دو سیر دودھ عطیہ کرے گا، مظہر پاؤلی اپنی کیری ڈبہ گاڑی اور شاہد نائی اپنے رکشا کی مہار ایک دن کے لیے ان بچوں کو سونپے گا تاکہ وہ جس کسی قریبی تفریحی مقام پر جانا چاہیں، انہیں وہاں کی سیر کرائی جائے۔ اس نقل و حمل کے لیے تیل کے اخراجات یہاں کے پنسار فروش حکیم رمضان سستا نے اٹھانا تھے۔ گاؤں کے اکلوتے صحافت پیشہ فرد کی حیثیت سے میرا وعدہ اس الیکشن پر فیچر لکھنے کا تھا۔
بات تب بگڑی جب گاؤں کے ایک پولیس رضاکار نے بچوں کو متعلقہ تھانے سے الیکشن کی اجازت لینے کا کہا۔ دیے گئے وقت پر جبکہ "مقامی پریس” یعنی راقم السطور کاغذ قلم لیے گاؤں کے پرائمری اسکول میں پولنگ کے لیے امیدواروں اور ننھے ووٹروں کا انتظار کر رہا تھا، یہ چاروں امیدوار تھانے کے عملہ کے لغو سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ بچوں کے مطابق تھانہ کے عملہ کی زبان ناصرف دھمکی آمیز تھی بلکہ بچوں کے ساتھ برتاؤ کے لیے نہایت نازیبا تھی۔ ایک بچے نے ایک سپاہی کا ایک الوداعی جملہ نقل کیا؛ "تمہاری بُنڈڑیاں چھوٹی ہیں، اور ہمارے چھتر بڑے ہیں۔ بہتر ہے یہاں سے بھاگ جاؤ۔۔۔” ایس ایچ او نے الیکشن کی اجازت نہیں دی۔ لیکن صورتحال مزید افسوسناک تب بنی جب اللہ دتہ ولد ظفر ملنگ کو تھانے میں مٹی ڈھوتے ہوئے ایک مزدور کے ساتھ مشقت پر جوت دیا گیا۔
راقم الحروف کو جب اس قصے کا علم ہوا تب تک بچے الیکشن سبوتاژ ہونے کے بعد سہم کر اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے۔ بچوں کے گھر جا کر معاملہ کی تفصیل جاننے کے بعد میں نے پولیس اسٹیشن یعنی تھانہ کوٹ شاکر کا رخ کیا، جہاں دھوپ سینکتے ہوئے دو اہلکاروں نے بعد صد انتظار مجھے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھنے اور اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت دے دی۔ ایک طولانی سلسلۂ کلام کے باوجود اس گفتگو میں کوئی ایسا مشترک نکتہ نہیں نکل سکا جسے کسی اصولی مکالمے کی بنیاد بنایا جا سکتا، سو یہ گفتگو ایک یکطرفہ بدکلامی کے مظاہرے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ تاہم بتایا گیا کہ ایس ایچ او تھانہ ہذا شام پانچ بجے ‘فیلڈ’ سے لوٹیں گے، اپنا مدعا انہیں بیان کیا جائے۔ تھانے کے دوسرے چکر پر ایس ایچ او صاحب نے، جو اپنے ملاقاتیوں سے دیگر معاملات پر گفتگو میں مشغول تھے، بالآخر کھڑے پیروں مجھے اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت دی۔ راقم الحروف نے تھانے کے اس اقدام کی قانونی بنیاد دریافت کرنا چاہی تو انہوں نے اپنی ذات کو اس کی قانونی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا؛ "یہ حکم میں نے دیا ہے، جاؤ، اپنے فیچر میں میرا نام ڈال دو۔۔” (ان صاحب کا نام آفتاب عالم ہے)۔ بعد کے تمام سوالات کے جواب میں انہوں نے مجھے تھانے سے نکل جانے کے حکم کا اعادہ کیا۔ راقم نے اس گاؤں کے باسی کی حیثیت سے ان انتخابات کی علامتی اہمیت سمجھانے کی کوشش کے ذریعے یہ امتناعی حکم واپس لینے کا مطالبہ کیا، لیکن جب تھانہ اہلکاروں کا ردعمل زبانی جارحیت سے اگلے قدم پر آنے لگا تو راقم نے وہاں سے نکل آنے کو بہتر جانا۔
پولیس اہلکار، اللہ دتہ سے مشقت کروانے کے عمل کی تردید کرتے ہیں، جبکہ متاثرہ بچے اس کو تھانے والوں کی صریح غلط بیانی قرار دیتے ہیں۔ اللہ دتہ نہ بتایا کہ پولیس والوں نے اسے قریب کے ایک گھر سے کسّی لانے کا کہا اور پھر چھت سے مٹی اتار کر تھانے کے صحن میں ڈھوتے ایک مزدور کے ساتھ کام کروانے کا کہا گیا۔ کام ختم ہونے کے بعد اسے وہاں سے رخصت ملی۔ پولیس اہلکار باقاعدہ انتخابات میں ہونے والے معمول کے متشدد تصادم کے واقعات کی بنیاد پر یہ قیاسِ محض کرتے ہیں کہ ان طفلانہ انتخابات میں ہونے والے کسی ممکنہ جھگڑے کی بنیاد پر یہ حکم جاری کیا گیا ہے۔ جبکہ بچوں کا کہنا ہے کہ وہ پرامن ہیں اور دوستانہ فضا میں تفریح کے لیے منعقد نہ ہو سکنے والے ان انتخابات کا طاقت کی روایتی کشمکش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
بشکریہ لالٹین