گلگت بلتستان 10 اضلاع پر مشتمل مملکت پاکستان کا ایک صوبائی طرز خطہ ہے جہاں گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع سے ڈیکلریشن لئے 35 مقامی اخبارات شائع ہوتے ہیں، جس میں روزانہ کے بنیاد پر 3 اخبار 8 صفحات اردو زبان کے 20 اخبار 4 صفحات اردو زبان میں نکلتے جبکہ 1, اخبار انگلش زبان کا نکلتا ہے جبکہ اردو میں 10 اخبارات 4 صفحات کو لیکر ہفتہ میں ایک مرتبہ شائع ہوتے ہیں اور ایک ہفتہ روزہ اخبار مقامی و اردو مشترکہ زبان میں شائع ہوتا ہے۔
ان تمام 35 اخبارات کی رجسٹریشن گلگت بلتستان میں ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب ملک کے دیگر حصوں سے رجسٹرڈ درجن کے قریب قومی اخبارات اسلام آباد و راولپنڈی سٹیشن سے اشاعت کے ایک دن بعد بزریعہ ٹرانسپورٹ ساڑھے پانچ سو کلومیٹر سفر طے کر کے گلگت بلتستان پہنچ جاتے ہیں لیکن قومی اخبارات یہاں سٹالز پر باسی حیثیت میں موجود ہونے کی وجہ سے قارئین مقامی سطح پر اشاعت شدہ اخبارات پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ سنہ 2000 سے قبل گلگت بلتستان سے ڈیکلریشن لئے ہوئے کوئی 7 کے قریب ہفتہ روزہ اخبارات راولپنڈی پنڈی سے چھپ کر گلگت بلتستان میں آتے تھے، اس دوران یہاں پورے خطے میں اخبار چھاپنے کا کوئی ایک بھی چھاپ خانہ موجود نہیں تھا جہاں سے اخبار چھپ سکے بعد ازاں محاسب اخبار نے سب سے پہلے اپنی پرنٹنگ مشین گلگت میں لگا کر روزنامہ اخبار نکالنا شروع کیا، جس کے دیکھا دیکھی دوسرے اخبار مالکان نے بھی اپنے ہفتہ روزہ اخبارات کو روزنامہ میں تبدیل کردیا اور یہاں سنگل و ڈبل یونٹ سے لیکر 7 یونٹ تک کے چھاپ خانہ مشینوں کی تنصیب کا سلسلہ شروع ہوا اور 2010 تک گلگت بلتستان میں تمام ہفتہ روزہ اخبارات سوائے ایک آزان کے تقریباً سب روزناموں میں تبدیل ہو گئے جبکہ بعض اخبارات اس دوران مالی بحران کا شکار ہو کر بند بھی ہوئے۔
محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان کے مطابق اگست 2023 میں اے بی سی شدہ اور میڈیا لسٹ میں شامل مقامی اخبارات کی مجموعی تعداد اب گلگت بلتستان میں 35 تک پہنچ گئی ہے اخبارات نے یہاں ماضی میں بہت مشکل ترین دور گزارا ہے لیکن اس کے باوجود ان اخبارات نے ہمیشہ گلگت بلتستان میں معاشی ترقی تجارتی سرگرمیوں کے فروغ علاقائی ثقافت کے تحفظ اور یہاں کے سیاحتی مقامات کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے سمیت قیام امن کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔
لیکن ایک اخباری ادارہ کا سفر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کے لئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اخباری اداروں کی اپنی معیشت حلقہ قارئین اور اشتہارات سے منسلک ہے۔ ملک بھر کے دیگر صوبوں میں صنعتوں و دیگر تجارتی مراکز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جبکہ گلگت بلتستان میں پرائیویٹ سیکٹر سرے سے موجود نہیں جو یہاں کے مقامی اخبارات کو اشتہارات فراہمی سے آمدن کا ذریعہ بن سکے، یہاں اخبارات صرف حکومتی سطح پر ملنے والے اشتہارات کے سہارے ہی زندہ ہیں لیکن یہاں سرکاری اشتہارات بھی مقامی اخباروں کو ان شرائط پر جاری کئے جاتے ہیں کہ حکومت کے خلاف لکھنے کی صورت اشتہار کی فراہمی آئندہ ممکن نہیں ہو سکے گی، جس کی وجہ سے یہاں کے مقامی اخبارات آج کل سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
گلگت بلتستان سے شائع ہونے والا روزنامہ اوصاف کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ایمان شاہ بتا رہے ہیں کہ حکومت صحافیوں کی آواز کو دبانے کے لئے سرکاری اشتہارات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے حکومت کو کوئی خبر نا خوش گوار گزرے تو وہ اخبارات کو فراہم کرنے والے سرکاری اشتہار کو روک دیتی ہے جس سے اخبار کو مالی طور پر نقصان پہنچتا ہے بلکہ مالی متاثر اخبار سے منسلک صحافیوں و ٹیکنکل سٹاف کے تنخواہوں سے لیکر آفس رینٹ تک ادائیگیاں بھی سخت متاثر ہو جاتی ہیں روزنامہ اوصاف گلگت بلتستان کی سرکولیشن گلگت بلتستان کے مقامی اخبارات میں دوسرے نمبر پر ہے۔
حکومت کے خلاف خبر لگنے پہ سال 2013 میں 20 دن تک سرکاری اشتہارات روک دئیے گئے جس سے 25 لاکھ کا نقصان کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح 2017 میں بھی 3 ماہ تک سرکاری اشتہارات کی بندش سے 40 لاکھ اور دسمبر 2022 سے مئی 2023 تک حکومت گلگت بلتستان نے ایک بار پھر سرکاری اشتہارات روک دئیے جس سے اخبار کو 80 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
حکومت گلگت بلتستان چاہتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف نہ لکھے بلکہ حکومت ہر برے کاموں پر پردہ ڈال کر ان کے حق میں خبر شائع کی جائے انہوں نے بتایا کہ یہ رویہ صرف روزنامہ اوصاف گلگت بلتستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کا سب سے پرانا اور زیادہ پڑھا جانے والا اخبار روزنامہ کے ٹو بھی حکومت کے نشانے پہ رہا ہے۔
اس حوالے سے جب ہم نے روزنامہ کے ٹو گلگت بلتستان کے ایڈیٹر راجہ سلطان مقپون سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سرکاری اشتہارات بند کرنے کی تاریخوں کا ذکر کرتا رہوں گا تو آپ کا مضمون ان تاریخوں سے ہی بھر جائے گا انھوں نے کہا کہ کے ٹو اخبار کے ساتھ عموماً حکومت کے خلاف جب بھی کوئی خبر چھپی ہے 29 سالہ اشاعت کے دوران سینکڑوں مرتبہ اشتہار بند کر کے ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
روزنامہ وطین گلگت بلتستان کے ایڈیٹر امجد برچہ نے کہا کہ اخبار میں عوامی مسائل پر آواز اٹھانے پر اور پیدا شدہ عوامی مسائل کے زمہ دار حکومت کو ٹھہرانے کے جرم نومبر 2022 میں 10 دن اور جنوری 2023 میں 20 دن اشتہارات بند کر دئیے جانے کے نتیجے ان 30 یوم کے دوران اخبار کو 10 لاکھ سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔
اس حوالے سے روزنامہ بانگ سحر کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر جہانگیر ناجی بتا رہے ہیں کہ روزنامہ بانگ سحر بیک وقت گلگت بلتستان ،راولپنڈی اور کراچی سے شائع ہوتا تھا سرکاری اشتہارات بند کرنے پر ادارہ مالی بحران کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے 2013 کو کراچی ایڈیشن پھر 2015 کو راولپنڈی ایڈیشن اور 2016 اکتوبر میں گلگت بلتستان ایڈیشن بند ہو گیا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اخبار مکمل طور عوام کی ترجمانی کر رہا تھا اور سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن سمیت بیورو کریسی کی طرف عوام سے کے ساتھ ناانصافیوں کو منظر عام پر لانے کا کردار ادا کر رہا تھا۔
جس کی وجہ سے نہ صرف اخبارات کو سرکاری اشتہارات بند کیا گیا بلکہ بقایہ جات کی ادائیگی بھی روک دی گئی تھی جس کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہو کر اخبار 2019 تک بند رہا اس کے بعد گلگت بلتستان ایڈیشن کی اشاعت شروع تو کردی گئی ہے لیکن حکومت کے خلاف جب بھی کوئی بیان چھپنے کو ملتی ہے تو اس صورت اشتہارات کی اجرا روک دی جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اخبار کا اشاعت متاثر ہو گیا ہوتا بلکہ ادارے سے منسلک صحافیوں کی تنخواہیں بھی بروقت ان کو نہیں ملتی اور بعض صحافی دو دو تین تین مہینے بغیر تنخواہ برداشت کرنے اور بعض صحافی عدم ادائیگی ادارہ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ستاراحمد فاروق جو مقامی صحافی ہے کا کہنا ہے سرکاری اشتہار کی بندش سے رپورٹر کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ادارہ تنخواہیں فراہم کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس سے رپورٹرز کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
روزنامہ بادشمال کے رپورٹر شہزاد حسین کا بھی یہی کہنا تھا سرکاری اشتہار کی بندش کا براہ راست اثر رپورٹرز پہ پڑتا ہے تنخواہیں بند کی جاتی ہے یہ تنخواہیں فراہم کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیئے جاتے ہیں ۔
سیکرٹری اطلاعات گلگت بلتستان ضمیر عباس سے اس حوالے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں باقاعدہ طور محکمہ اطلاعات کا قیام جولائی 2013 کو عمل میں لایا گیا ہے جب سے صوبائی اطلاعات کے محکمے نے یہاں کام شروع کیا تب سے گلگت بلتستان میں اخباری مالکان کو درپیش مسائل دور ہو چکے ہیں اس سے قبل اخباری مالکان سرکاری اشتہارات کے بقایاجات وصول کرنے متعلقہ اضلاع کے اداروں میں جاتے تھے ۔
ہم نے ایک پالیسی کے تحت محکمہ اطلاعات سے جاری ہونے والے اشتہار کی ادائیگی ہر دو یا تین ماہ کے اندر محکمہ اطلاعات سے ہی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے اخبار مالکان کو نہ صرف دوسرے اضلاع سے ادائیگیوں کے لئے سال سال انتظار کرنا پڑ رہا بلکہ ایک ضلع سے دوسرے ضلع جا کر ریکوری کے مد جو اخراجات آتے تھے وہ بھی ان کے بچت میں آتے ہیں اب تمام اضلاع کے اندر موجود اداروں کے اشتہاری بقایاجات جو ایک ہی جگہ سے ان کو مل رہیں ہیں تو اس کا مطلب حکومت یہاں صحافیوں اور اخبارات کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ جولائی 2013 سے 2023 تک سرکاری اشتہارات کے مد اخبار مالکان کے کوئی بقایہ جات محکمہ اطلاعات کے زمہ نہیں سب کی ادائیگی ہو چکی ہے گلگت بلتستان میں 3 درجن کے قریب اخبارات چھپتے ہیں ان سب کو پالیسی کے تحت اشتہارات مل رہے ہیں کسی اخبار کے ساتھ اشتہار کے اجراء میں زیادتی نہیں ہو رہی البتہ محکمہ اطلاعات سے ان تمام اخبارات کو ایک پالیسی کے تحت مختلف کیٹگریز میں اشتہار جاری کیا جاتا ہے ۔
ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان نے اشتہارات پالیسی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ 2018 کی پالیسی کے مطابق اطلاعات کا محکمہ صرف ان اخبارات کو اشتہار جاری کرے گا جوکہ سنٹرل میڈیا لسٹ پر ہوں گے ،اخبارات کو تین کیٹگریوں میں تقسیم کیا گیا جس میں کیٹگری اے میں وہ اخبارات شامل ہوں گے جس کی روزانہ کی سرکولیشن 30 ہزار کاپیاں اور 50 ملازمین ہوں جبکہ کیٹگری بی میں وہ اخبارات شامل ہوں گے جن کی روزانہ کی سرکولیشن 15 ہزار کاپیاں اور 20 ملازمین ہوں جبکہ سی کیٹگری میں وہ اخبارات شامل ہیں جوکہ نہ تو اے کیٹگری میں آتے ہیں اور نہ ہی بی کیٹگری میں آتے ہیں اس میں ویب یا آن لائن اخبارات شامل ہیں۔
حکومتی اشتہارات کو باقاعدہ اور حقیقی اشاعت جوکہ نہ صرف وفاقی حکومت کی سنٹرل میڈیا لسٹ (سی ایم ایل ) پر ہوں بلکہ وہ آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق بھی ہوں اور اسی طرح حکومتی اشتہار کو کسی بھی صورت میں میڈیا کے شائع شدہ مواد اور ایڈیٹوریل کو سزایا جزا کے بدلے میں مختص نہیں ہونا چاہیے ۔
اشتہارات دوطرح کے ہونگے جسمیں نان کیمپین اشتہارات اور ڈسپلے اشتہارات ہونگے ۔ نان کیمپین اشتہارات میں پبلک نوٹسز ، بھرتیاں اور حکومتی ٹینڈرز شامل ہوں گے اور حکومتی ٹینڈرز نوٹسز میں دو انگریزی کے قومی اخبارات اور ایک علاقائی اخبار یا ایک قومی اخبار کے تمام ایڈیشنز میں چھاپے جائیں گے جبکہ ٹینڈرنوٹسز جن کی مالیت ایک کروڑ روپے تک ہوگی وہ چھ اخبارات میں دیے جائیں گے جس میں سے چار قومی اخبار ہوں گے۔
ٹینڈر نوٹسز جن کی مالیت ایک کروڑ سے زائد ہوگی وہ بھی دو اردو قومی اخبارات اور دو قومی انگریزی اخبارات کو جاری کیے جائیں گے اور دو علاقائی اخبار بھی شامل ہوں گے اور اگر اشتہار ایک سے زائد زبانوں میں دئے جائیں گے تو ان میں ایک انگریزی ، دو اردو اور ایک علاقائی اخبار شامل ہوگا۔ خالی آسامیوں کے اشتہارات تین بڑے قومی اخبارات اور ایک چھوٹا اخبار جبکہ ڈسپلے اشتہارات صرف مخصوص سامعین کو ہی جاری کیے جائیں گے ۔
اگر کوئی اشتہار وفاق سے متعلق ہے تو چھ اخبارات میں سے تین اردو یا انگریزی اخبارات کے ساتھ تین علاقائی اخبارات کو ہی جاری کیے جائیں گے جبکہ تمام سرکاری یا خودمختار اداروں کے شوکاز نوٹسز دو قومی اخبارات کے ساتھ ایک علاقائی اخبار کو جاری کیے جائیں۔
لیکن گلگت بلتستان سے شائع ہونے والے تمام مقامی اخبارات کو ان کی ترقی کے لئے حکومت بھرپور تعاون کر رہی ہے کیونکہ بعض اخبارات ایسے ہیں کہ جو کم سرکولیشن کے ساتھ نکلتے ہیں اور ایک ضلع سے دوسرے اضلاع نہیں جاتے ان کو بھی اشتہار جاری کیا جاتا ہے تاکہ حکومت کی تعاون سے ادارہ مضبوط پوزیشن کے مرحلے داخل ہو کر سرکولیشن کا دائرہ کار ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک بڑھانے کا قابل بن سکے بعض اخبارات کی سرکولیشن زیادہ ہے ان اخبارات کو اشتہار کے کوٹہ میں ترجیع دینی ہوتی ہے۔
اشتہار اخبار کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا گلگت بلتستان میں پرائیویٹ سیکٹر نہ ہونے کی وجہ سے اخبارات کمرشل اشتہارات سے محروم رہتے ہیں ان مقامی اخبارات کا گزارہ صرف سرکاری اشتہارات سے چلتا ہے حکومتی کوریج بھی ان کو بھرپور انداز میں کرنے کی ضرورت ہے اب بیرون کئی ممالک میں سرکاری اشتہارات کی تقسیم بھی وہاں کی پالیسی کے تحت کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کوریج حکومتی معاملات بابت اخبار میں دیں جبکہ یہاں حکومت اخباری صنعت کے ساتھ نرمی برت رہی ہے تاکہ وہ حکومتی ترجمانی کا بھی حصہ بن سکے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی اخبار حکومت کے خلاف کوئی خبر چھاپے یا حکومت پر تنقید کرے تو پھر اس صورت اشتہارات ایڈورٹائزمنٹ پالیسی کے تحت روک دیا جاتا ہے۔