اسلام آباد کی ہندو برادری مذہبی رسومات کے لیے مندر سے محروم

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے کوئی بھی مندر موجودہ نہیں ہے جہاں ہندو اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں ۔ پاکستان ہندو پنچائیت کے مطابق صرف اسلام آباد میں تین ہزار ہندو خاندان موجودہ ہیں جو کہ مذہبی رسومات کے لیے راولپنڈی میں مختلف مقام پر موجودہ دو مندروں میں رسومات ادا کرنے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں پہلے ’’شری کرشنا مندر ‘‘ کی تعمیر کے لیے ایچ 9 سیکٹر کے علاقے میں 0.5 ایکڑ اراضی 2017 میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے حکم پر کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہندو پنچایت کو الاٹ کیا تھا۔

تاہم اسلام آباد کی ہندو برادری مندر تعمیر کے لیے درکار رقم جمع کرنے سے قاصر تھی۔ انہوں نے عطیات کے ذریعے جو رقم جمع کی وہ صرف چاردیواری کی تعمیر کے لیے کافی تھی ۔ چنانچہ 2018 میں ہندو برادری نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے مدد کی التجا کی۔ یہ مطالبہ جنوری 2020 میں دوبارہ اٹھایا گیا۔ جون 2020 میں پاکستان کے مذہبی امور کے وزیر پیر نور الحق قادری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مندر کی تعمیر کے لیے رقم دے گی۔ مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب 24 جون 2020 کو انجام دی گئی تھی جس کے مہمان خصوصی پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی تھے۔

اگرچہ 27 جون 2020 کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے مندر کی تعمیر کے لیے 17 کروڑ 50 لاکھ روپے جاری کیے مگر اس کی چار دیواری کی تعمیر شروع ہونے کے فورا بعد سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں منفی آرا کا اظہار کیا جانے لگا۔ بعض سیاسی اور مذہبی شخصیات نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے اس کی تعمیر روکنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مندر کے لیے ایک مسلم ریاست کے سرکاری خزانے سے پیسے دینا اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ بعض مسلم علما نے عوامی پیسے (یا بیت المال) سے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کا عبادت خانہ بنائے جانے کے جواز سے متعلق بھی سوالات اٹھائے۔

8 جولائی 2020 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور اور مذہبی آہنگی نور الحق قادری نے کہا کہ اسلام آباد میں مندر کی نئی عمارت کی تعمیر کا فیصلہ اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کی روشنی میں کیا جائے گا کیوں کہ مذہبی سوالات کے حوالے سے اس ادارے کو آئینی حق حاصل ہے کہ حکومت کو مشورہ دے سکے۔ لہذا وفاقی حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھا کہ ایک اسلامی ریاست عوامی پیسے سے ہندو مندر تعمیرکر سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب آنے تک مندر کی چار دیواری کی تعمیر رکوا دی گئی جو ابھی تک رکی ہوئی ہے۔

اسلام آباد میں رہنے والے پاکستان ہندو پنچائیت اسلام آباد کے رہنما مہیش چودھری کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے شرعی تقاضوں 1950 کے نہرو لیاقت معاہدے اور 1973 کے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کے سوال کا جواب دے دیا ہے لیکن شہر کی ہندو آبادی کے لیے عبادت خانے کی فراہمی کا معاملہ جوں کا توں لٹکا ہوا ہے۔ ان کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر سرکاری عبادت گاہوں کے لیے سرکاری فنڈز فراہم کرنے کی روایت نہیں رہی ہے اس لیے مندر کے لیے سرکاری فنڈز فراہم کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی تاہم مترو کہ وقف املاک بورڈ کے ایکٹ میں ترمیم کر کے اسے اختیار دیا جائے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے لیے عبادت گاہیں تعمیر کرے۔

مترو کہ وقف املاک ، بورڈ 1950 کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کیے گئے ایک معاہدے کے نتیجے میں بنایا گیا تھا جس پر اس وقت کے پاکستانی اور ہندوستانی وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لال نہرو نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے مطابق جبکہ پاکستان میں ہندو مندروں اور سکھ گوردواروں کی دیکھ بھال اور اور ان میں آنے والے زائرین کی دیکھ بھال کا کام اس بورڈ کے ذمے لگایا گیا تھا جبکہ آمدن کا ذریعہ ہندو اور سکھ برادریوں کی وہ املاک ہیں جو وہ 1947 میں پاکستان میں چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے تھے۔

مہیش چودھری کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل میں اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا ایک دوسرا حل یہ پیش کیا کہ "آئین کے تحت ریاست تمام شہریوں کی فلاح وبہبود کی ذمہ داری ہے چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ لہذا حکومت اسلام آباد کی ہندو برادری کی فلاح وبہبود کے لیے رقم مختص کرکے اس کے حوالے کر دے اور اسے یہ اختیار دے کہ وہ جہاں چاہے خرچ کرلے”۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ تجاویز نہ بھی تسلیم کی جائیں تواس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذہبی اقلیتوں کے آئینی حقوق ہی ختم ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق "آئینی طور پر ہر مذہبی گروہ کو اپنے مذہب کے مطابق فوت شدگان کی آخری رسومات ادا کرنے کا حق ہے ۔ اس حق کے تحت ہندو کمیونٹی کو اسلام آباد میں شمشان گھاٹ کے لیے موزوں جگہ فراہم کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ آئین ہندو کمیونٹی کو شادی بیاہ اور مذہبی تہواروں کے لیے کمیونٹی سنیٹر تعمیر کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے”۔

ان آئینی حقوق کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی ہندو برادری کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے مقامی علاقے سید پور میں واقع مندر اور اسی کے ساتھ ملحق دھرم شالہ کواستعمال کرنے کا حق دیا جائے اور وہاں تک ہندو برادری کی رسائی کو ممکن بنایا جائے تاکہ وہ وہاں اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔

راولپنڈی میں موجودہ ہندو مندر کے پنڈت میر چند کے مطابق سید پور میں موجودہ مندر ایک قدیم عبادت گاہ ہے جسے مقامی ہندو رام مندر کے نام سے پکاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "اس مقام پر تالاب بھی تھا جہاں ہندوؤں کی مذہبی رسومات ادا ہوتی تھی اور تہوار بھی منائے جاتے تھے”۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "موجودہ حکومت نے اس مندر کو سیاحتی مقام کے طور پر کھولا ہوا ہے مگر مندر کو عبادت گاہ کے طور پر بحال کیا جائے تو ہندو برادری کے لیے مذہبی رسومات اور تہوار منانے میں مثبت قدم ہو گا”۔

اسلام آباد کے رہائشی اور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے چونتیس سالہ عدیل گل کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں کئی ہندو خاندان آباد ہیں جو تعلیم ، روز گار یا دوسرے معاملات کی وجہ سے سندھ، پنجاب ، بلوچستان اورخیبر پختونخوا سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مقامی ہندو برادری کو اس مندر میں عبادت کرنے کا حق دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہم بغیر کسی اختلاف اور انتشار پیدا کیے سید پور مندر کو عبادت گاہ کے طور پر بحال کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ اسلام آباد میں موجودہ ہندو اپنے ہی شہر میں عبادت کر سکیں”۔

نصیر اللہ کیانی سید پور میں گائیڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے اس تارِیخی مقام کی نگرانی پر متعین ہیں جبکہ ان کا خاندان اس علاقے کے جدی پشتی مقامی رہائشی ہیں۔ وہ یہاں کے مندر کو’’جانکی دیوی کا مندر‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ علاقے کے بزرگوں کے مطابق یہ تقریباً دو سو چالیس سال پرانا ہے۔ ان کے مطابق قیام پاکستان سے پہلے ہی اس مندر سے جانکی دیوی کی مورتی کو اٹھا لیا گیا تھا۔ وہ دعویِ کرتے ہیں کہ دو سال پہلے ایک ہندو پنڈت نے اس مندر کا جائزہ لیا تھا اور کہا تھا کہ یہ جگہ مقامی آبادی کی مذہبی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مندر کے ساتھ ہی گوردوارے اور مسجد کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ "ان عبادت گاہوں کی بحالی کے بعد یہاں امن و ایمان اور سلامتی کی فضا قائم رکھنا مشکل ہو سکتا ہے”۔

اقلیتوں کے حقوق اور امن کو فروغ دینے کے لیے آواز اٹھانے والی سماجی کارکن جیا جگی تسلیم کرتی ہیں کہ یہ تحفظات بجا ہیں کہ مندر کی بحالی امن و امان کی صورتحال میں خلل ڈال سکتی ہے۔ اس لیے ان کے مطابق اس سلسلے میں کوئی بھی اقدام اٹھانے سے پہلے دانش مندی کا مظاہرہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "۔سید پور مندر کی بحالی ایک مثبت قدم بھی ثابت ہو سکتا ہے جو لوگوں میں امن ، بھائی چارے اور برداشت کے پیغام کو فروغ دے گا”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے