اسلام آباد سے گلاسگو!(قسط 1 )

اسلام آباد سے پہلی بار کسی بھی ملک کا سفر کرنا تھااور مجھے اسکی بالکل بھی خوشی نہیں تھی۔
میرا گھر،بچے،ماں۔۔سب پیچھے رہ گئے۔

پورا سفر گھر کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔۔۔جب ترکی میں قیام آیا تو رَن وے کو دیکھ کر روتی رہی۔ ہم بہن بھائیوں میں سے پہلے کوئی اتنا دور نہیں گیا تھا۔اگرچہ جہاز مجھے آگے لے جارہا تھا لیکن میرا ذہن پیچھے اٹکا ہواتھا۔۔ذہن میں ابھی بچوں کی فکر تھی۔

لوگ گیتوں کا نگر یاد آیا
آج پردیس میں گھر یاد آیا

پردیس کے اس سفر سے پہلے مجھے لگتا تھا مجھے دنیا کی سب سمجھ آگئی ہے۔لیکن دورانِ سفر دماغ کے نئے دریچے کھل گئے۔ سوچنے کے انداز میں تبدیلی آگئی۔آگے کی زندگی میں اتنا کچھ سیکھنے کو ملے گا کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔۔منزل گلوسگو تھی لیکن پہلے مجھے لندن جانا تھا کیوں کہ گلاسگو میں رہائش کا انتظام نہیں ہوا تھا۔۔۔ سفر سے قبل مجھے ایک خاتون نے رہائش کے سلسلے میں ساجد صاحب کا ایک نمبر دیا تھا۔ اب لندن ہی جانا تھا تو سوچا وہاں پہنچ کر ہی ان سے رابطہ کیا جائے۔ بہر حال جہاز لینڈ ہوا،اور میں نے برطانوی سرزمین پر قدم رکھ دئیے۔

میں شمس بھائی کی دی ہوئی ہدایات کو ایک ڈائری میں لکھ چکی تھی۔۔کیونکہ جو وہ نام بتا رہے تھے میرے لئے بالکل ہی نئے تھے۔

سارہ کے گھر پہنچی۔ پردیس میں اپنوں کو دیکھ کر ڈھارس بندھی، وہاں دو روز قیام کیا۔ ان دو دِنوں میں سارہ نے بہت خیال رکھا۔ضرورت کی ہرچیز لے کر دی۔گلاسگوکی ٹکٹ بھی لے کر رکھی تھی۔وہیں سے رہائش کے لیے ساجد صاحب کے نمبر پر رابطہ کیا اور پیغام چھوڑا۔ان کا جواب آیا کہ وہ اگلے روز بیگم سے اجازت لیکر بتائیں گے۔ اگلے روز رابطہ کیا تو ساجد صاحب نے بتایا کہ انکے دوست کے گھر کوئی مسئلہ تھا،جس وجہ سے انکی بات نہیں ہو سکی۔ تاہم ساجد صاحب نے کمال مہربانی سے کہا کہ”آپ آجائیں ایک دن تو مہمان نوازی بھی ہوسکتی ہے۔“

بڑا عجیب لگا۔۔۔ میں نے کہا اگلے دن بھی انتظام نہ ہوا تو۔۔۔ بہر حال میں نے کہا میں صبح آوٗں گی۔ میرا سامان رکھ لیجئے گا۔

آٹھ کی شام کو میری لندن سے گلاسگوروانگی تھی۔ بس میں میرا والٹ بھی گر گیا۔رات دس سے صبح سات بس میں ڈرتے ڈرتے سفر کیا۔کبھی کیش چیک کروں کبھی سامان، بٹوا گم ہونے کی الگ پریشانی۔

اب گلاسگو آ گیا۔۔۔ابھی تک نہ ہی مجھے گلاسگو کی سمجھ آ رہی تھی نہ ہی بس کی، کہ یہ کس طرف جائے گی اور کہاں مجھے رکنا ہے؟

پورا دن ان صاحب سے رہائش کی بات چیت کرتے گزرگیا اور شام کے چار بج رہے تھے۔ راستہ پوچھتے پوچھتے پہنچی۔ خدا خدا کرکے پونے گھنٹے بعد وہ گھر مل گیا۔۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔لیکن گھر میں ان کے بیوی بچوں کو دیکھ کر تسلی ہوئی۔

اب ایک اور پریشانی نے گھیر لیا۔۔ گلاسگو کی ایک جیسی سب عمارتیں۔۔انہیں دیکھ کر بہت گھبراہٹ ہورہی تھی۔۔دل کر رہا تھا بھاگ کر پاکستان آجاؤں۔۔۔مجھے اس گھر میں ایک کمرا دیا گیا۔میں وہاں گئی اور دو گھنٹے جی بھر کر روئی۔اپنے میاں اور بچوں سے با ت کر کے اور رونا آریا تھا۔

میر ے میاں نے کہا کہ اسکے دوست مانچسٹر ہوتے ہیں، وہاں چلی جاؤ۔میراجواب تھا کہ میں رستے نہیں جانتی۔۔ صبح سے گھوم گھوم کر تھک چکی تھی!ہمت بالکل نہیں تھی۔ گلاسگو سے جانا بھی تھا۔

خیر میں نے اپنا ایک من وزنی بیگ اٹھایا۔۔ ساجد صاحب کی بیگم سے اجازت لی اور کمرا دینے پر شکریہ ادا کیا۔۔۔ کوشش تھی ساجد صاحب کا سامنا کیے بغیر ہی نکل جاؤں کیونکہ دو دن سے میں انکا سر کھارہی تھی۔میں بس سٹاپ پر تھی اور بس کا انتظار کر رہی تھی۔

کچھ دیر بعد میرے موبائل پر فون آتا ہے،جسے اٹھاتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ کیونکہ یہ ساجد صاحب کی کال تھی۔وہی صاحب جن کا میں سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔کال اٹھائی اور روتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا’آپ چلی کیوں گئیں۔کچھ دن ٹھہرتیں،ماحول دیکھتیں تو دِل لگ جاتا۔

میرا جواب تھا کہ میں نے آپ کے گھر دو گھنٹے قیام کیا ہے،اسکے پیسے لے لیں۔فون بند ہوتے ہی میں نے سڑک پر دیکھنا شروع کر دیا۔اچانک آواز آئی”اسلام علیکم۔۔میں ساجد۔“

میں سوچنے لگی کہ پتہ نہیں اب کیا کیا سننا پڑے گا۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے