الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت اچھا ہے لیکن اس کے ساتھ جو عدالتئ ریمارکس سامنے آ رہے ہیں وہ اتنے اچھے نہیں ہیں۔
صحافیوں پر اتنا غصہ کس لیے؟ کیا الیکشن کے انعقاد میں رکاوٹ صحافی تھے؟ ابہام تھے تو کیا وہ صحافیوں نے پھیلایا تھا؟
صحافیوں کو خدشات کا ذکر چینلز کی بجائے بیویوں سے کرنے کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اگر عدالت اس بات پر غور کرے کہ اس کے حکم کے باوجود شکوک اور ابہام باقی کیوں رہتے ہیں تو پھر شاید صحافیوں پر غصہ کرنے کی بجائے کچھ اور امور پر توجہ دینے کی ضرورت پڑ جائے۔
انتخابات میں تاخیر صحافیوں کے تجزیوں سے نہیں ہوئی بلکہ bare minimum تاخیر کی گنجائش سپریم کورٹ نے دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں دی تھی؟
انتخابات کا معاملہ کسی صحافی کے تجزیے سے نہیں الجھا ، یہ عدالت کے اس حکم سے الجھا جواس نے ڈیفیکشن کلاز میں دیا تھا اور وہ نکتہ نکال لائی تھی جس کا آئین میں کہیں ذکر نہ تھا۔
عدالتی فیصلوں کے بعد ابہام اور خدشات ختم ہو جاتے ہیں جہاں عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے نہیں دیتیں۔
جہاں عدالتیں آمر کو آئین میں تبدیلی کا وہ اختیار بھی دے دیں جو خود ان کے پاس نہ ہو وہاں فیصلوں کے باوجود شکوک ختم نہیں ہوتے۔ جہاں عدالتوں کے فیصلوں پر سوالات اٹھتے ہوں اور صحافی نہیں بلکہ خود قانونی حلقے کہتے ہوں کہ عدالتیں آئین کی تشریح کے نام آئین ری رائٹ کرتی ہیں وہاں ان کے فیصلوں کے باوجود ابہام ختم نہیں ہوتے۔
شکوک اگر ہوں گے تو صحافی اس کا ذکر کیسے نہ کریں؟ اور ان کی رائے میں شکوک ہیں تو یہ امر واقع کا بیان نہیں یہ رائے ہے اور رائے دینے میں ہر شخص آزاد ہے۔ رائے کے حق پر اس طرح کی قدغنیں کل کو مزید پابندیوں اور قباحتوں کو جنم دیں گی۔
صحافیوں کو جھوٹ کا بالکل حق نہیں ، لیکن رائے کا اظہار یا کسی معاملے میں خدشات کا اظہار جھوٹ کیسے ہو گیا؟
چیف جسٹس نے فرمایا : صحافیوں کو دیکھ لیں گے ۔ عرض یہ ہے کہ صحافی بے چاروں کی کیا مجال کہ حکم سے سرتابی کریں لیکن عدالت نے ذرا عدالت کو بھی دیکھ لیا ہوتا تو اصلاح احوال آسان ہو جاتی۔