دسمبر اور دل خراش یادیں

شائد اگست کا مہینہ تھا سال تھا ١٩٨٤ مجھے فی البدیہ اردو مباحثے میں پہلا انعام ملا اور انعام میں جو دو کتابیں تھیں وہ فیض کی تھیں "دست صبا” اور "مرے دل مرے مسافر”۔

مرد مومن مرد حق المعروف ضیاء الحق کا عہد تھا۔ فیض صاحب ان دنوں شاید پی ٹی وی پر بین تھے۔ جوش ملیح آبادی کی طرح جن سے ہمارے گھریلو سطح کے تعلقات تھے۔ ان کے گھر آنا جانا تھا اور ابّو کے پاس اس "جرم” کی پاداش میں کئی اجنبیوں کا آنا جانا لگ جاتا تھا۔جوش صاحب کے حوالے سے چند مدہم مگر دلچسپ بھی اور دل فگار سی یادیں ہیں وہ پھر سہی۔۔۔

نومبر کا مہینہ ہے اور فیض صاحب کے ذکر کے بغیر شاید گزارنا مشکل ہو میرے جیسے بیوقوف کے لیۓ ، جو سوچتی ہے کہ کاش کوئی ١٦ دسمبر کی منحوس تاریخیں کیلنڈر سے نکال سکتا ۔۔۔ پہلے ١٦ دسمبر ١٩٧١ کا غم کیا کم تھا کہ ١٦ دسمبر ٢٠١٤ کا سانحہ بھی سہنا پڑ گیا۔ اس لیے دل ضد کرتا ہے کہ سال نومبر میں ختم ہو جایا کرےتو کتنا اچھا ہو۔ اگر زندگی کی حقیقت ایک سپنا ہے جو ختم ہو جانا ہے تو کیوں نہ یہ سپنا خوبصورت ہو، رومانٹک ہو، کامیڈی ہو، ہارر کیوں ہو؟

لیکن میری چاہت یا چاہ سے کیا ہوتا ہے ؟ الله تعالیٰ کی حکمت کو میں کیا جانوں؟ لہٰذا اپنی بےبسی اور بے طاقتی کے حصار میں رہتے ہوئے ایف ایس سی کے زمانے کی ایکس ٹیسی کو یاد کر رہی ہوں۔ میں نے اس سمے سوچا تھا کہ میں فیض صاحب سے ان کی سالگرہ پر ملوں گی ۔ کیسے ؟ یہ نہیں سوچا تھا ،اچھا وقت تھا۔ کچھ سوچیں تو آزاد تھیں۔ آج کے دور میں تو میرے جیسوں کو اپنی اوقات ہر وقت ہی یاد رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ فیض امن میلا میں کبھی بھی نہ بلانے جانے کا غم نہ ہو،اس وقت لگتا تھا کہ میں بھی مخلوق خدا ہوں اور میں بھی راج کروں گی ۔

یہ بھی سوچا تھا کہ فیض صاحب سے پوچھوں گی کہ آپ نے فلسطینی بچے کی لوری لکھ کر اپنے کمزور دل پاکستانی پرستاروں کو اتنا کیوں رلایا ؟

بہت ساری باتیں انکہی رہ جاتی ہیں پھر اب با صفا کون ہے ،شہر جاناں سے ان کے پاکستان سے ان کو واپس لے جانے کوئی نہیں آیا جو کسی طرح آگئے تھے۔ ان کی نمناک داستان سننے کی نہ کسی کو ضرورت ہے نہ ہی فرصت۔۔۔

٢٠ نومبر ١٩٨٤ کو فیض کو الله نے ہمیشہ کے لئے وطن بدری سے بچا لیا اور لاہور میں آسودہ خاک کر دیا ،
میں نے ان کی یاد میں جاری ہونے والا ایک پوسٹر کہیں سے حاصل کیا، جس پر ان کے یہ اشعار کندہ ہیں۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے

٣٩ برس ہونے کو آئے، وہ پوسٹر میرے ساتھ نگر نگر گھوما لیکن میرے سوالات میں اپنی بہارئی کمیونٹی کے ساتھ ہونے والی دھاندلی کے حوالے سے کئی سوالات بھی شامل ہو گئے ۔۔۔

کاش فیض صاحب نے بتایاہوتا کہ خون کے دھبے برساتوں کے بعد بھی نہیں دھلتے لیکن شاعر کا کام شاعری ہوتا ہے، ایکشن پلان دینا نہیں چاہے وہ کتنا ہی بڑا دانشور ہو یا امن کا شیدائی۔

ادب اور ادیب کو الگ الگ رکھ کر دیکھنا چاہیئے ورنہ مایوسی ہوتی ہے،فیض صاحب نے زبردست کلام عطا کیا جس کے ایک اہم حصّے کو مہدی حسن ‘ نور جہاں اور اقبال بانو نے دوام بخشا ہے۔

فیض صاحب کا کلام ایلیٹ کلاسس کے ایلیٹ طریقے کے ایکٹ وزم میں بھی کام آتا ہے ۔انہوں نے خواب میں بھی ایسا سوچا نہ ہو لیکن گردش زمانہ۔۔۔

یہ نومبر بھی گزر جائے گا اور پھر دسمبر آجائے گا۔ نہیں آئیں گے تو وہ معصوم جو اے پی اسس پشاور میں ٹیررازم کا شکار ہوئے یا وہ مظلوم بہاری جن کی چوتھی نسل بھی ڈھاکہ اور دیگر شہروں کی سانس کو بند کر دینے والے تنگ بدبودار "کیمپ” نما پنجروں میں ایک نہ سمجھ میں آنے والی "زندگی” گزار رہی ہے ۔ ان میں سے اکثر نے اپنے والدین اور ان کے والدین سے سنا ہو گا کہ متحدہ پاکستان میں وہ شہر میں اپنے گھر میں رہتے تھے۔

پاکستان نے تو ہمیں نظر انداز کر دیا
مجبوری ہوگی
حاکم شہر کی بھی مجمع عام کی بھی
بنگلہ دیش سے بھی سوال تو بہت ہیں
کاش جواب مل جائے
مساوات کے حوالے سے عدل کے حوالے سے شہریت کے حوالے سے مثال کے طور پر یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کہ آپ نے ان بدقسمت لوگوں کی جائیدادوں کا کیا کیا؟
کلیم نہیں کر رہے
بس بزبان فیض اتنا کہوں گی
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے