اس وقت ہمارے سماجی مسائل میں سے ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ’’فرقہ واریت ‘‘ ہے۔ اس کے اسباب زیادہ تر سیاسی و سماجی نوعیت کے ہیں تاہم کچھ چیزیں علمی نوعیت کے بھی ہیں۔ چاہے سیاسی مفادات کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے یا فرقہ وارانہ سوچ کو سیاسی انداز میں آگے بڑھایا جائے دونوں صورتوں میں سماج کی تعمیر و ترقی اور امن و خوشحالی بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں مفاد پرست طبقہ اور ان کے مفادات محفوظ رہتے ہیں جبکہ جذباتی کارکنان اور عقیدت و تقلید کی شدت سے متاثرین عام لوگ اور ان کے مفادات مسلکی حمیت میں مارے جاتے ہیں۔
فرقہ واریت کے سماجی اثرات
[pullquote]فرقہ واریت کے سماجی اثرات پورے سماج کو گھیر لیتے ہیں اور انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔یہ زہریلے اثرات ذہنو ں اور دلوں میں نفرت کی آگ بھڑکاتا ہوا قتل و غارت اور خانہ جنگی تک پہنچ جاتے ہیں، ایسی صورت حال میں ہر طرف سے زندگی کے آثار معدوم ہونے لگتے ہیں اور ہر طرف موت، تباہی، بربادی، خوف، دہشت، خون، لاش اور آگ ہی نظر آنے لگتی ہے۔ جس کی تازہ مثالیں مشرق وسطیٰ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ فرقہ واریت کی آگ ایک دفعہ بھڑکنے کے بعد اس پر قابو پانے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ سمجھ دار قوم وہی ہے جو آگ بھڑکنے کے بعد اس پرپانی ڈالنے میں اچھل کود کے بجائے ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے آگ بھڑک نہ پائے۔ اور بے قوف قوم وہ ہے جو اپنے ہی گھر میں لگی آگ پر پانی کے بجائے تیل چھڑکے۔ اور بے قوف ترین قوم وہ ہے جس کے گھر میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور وہ بھڑکتے شعلوں کا ہی انکار کرے۔
[/pullquote]
فرقہ واریت کے اسباب
• جہالت: دین کی بنیادی تعلیمات اور وسیع تر مقاصد سے جہالت اور دوسرے فرقوں کے بارے میں لاعلمی۔
• معاشرتی شکست و ریخت: جب مختلف فرقوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان دُوریاں پیدا ہوں تو ان کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں، غلط تصورات اور افواہیں عام ہوجاتی ہیں اور وسائل ایک دوسرے کے مسائل میں اضافہ کرنے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔
• شناخت کا بحران: جب مختلف مسالک سے وابستہ لوگ اپنے اپنے مسلک کے بارے میں یہ محسوس کرنے لگیں کہ ان کے ساتھ ریاستی یا سماجی سطح پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ تفریق کی جاتی ہے، ان کے حقوق مارے جاتے ہیں تو ان میں احساس محرومی بیدار ہوتا ہے نیز اسی طرح جو طبقہ/مسلک ریاستی اور سماجی سطح پر اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ مضبوط، متحرک اور حصہ دار سمجھتا ہے تو ان میں احساس برتری اور غلبہ کی نفسیات طار ی ہو جاتی ہے۔ احساس محرومی اور احساس برتری میں مبتلا طبقات کے لیے شناخت کا مسئلہ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ سماجی تفریق، تعصب اور تشدد کے لیے جواز تلاش کرتے ہیں۔
• غلو: اپنے فرقہ سے متعلق شخصیات اور مقدسات کے متعلق غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لینا۔
• تنقیص و تحقیر: دوسرے فرقہ سے متعلق شخصیات اور مقدسات کی تنقیص، تحقیر، تکفیر اور توہین کرنا۔
• تعصب: ظلم و زیادتی پر بھی اپنے فرقہ سے متعلق لوگوں کی اعانت کرنا اور دوسرے فرقہ کے لوگوں کے بارے میں متعصب رویہ اختیار کرنا
• نفرت: محبت و نفرت کا معیار جب فرقہ قرار پاتا ہے تو انسان دوسرے فرقوں سے وابستہ لوگوں سے نفرت کرنا مسلکی غیرت و حمیت سمجھتا ہے۔
• تشدد: فرقہ پرست انسان دین کی تمام تعلیمات کو پس پشت ڈال کر فرقہ کے لیے دوسروں پر تشدد کرنے اور قتل و غارت کو اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔
• اشتعال انگیزی: فرقہ پرست اپنے الفاظ، رویوں اور سوچ کو مذہبی اصطلاحات اور تعلیمات کا لبادہ چڑھا کر فرقہ وارانہ آگ کو بڑھکاتا ہے اور اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔
• الزام تراشی: کسی بھی وقوع پذیر ہونے والے واقعہ پر بلا تحقیق ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دینا
• فرقہ پرستوں کی فکری، اخلاقی اور عملی سرپرستی: جب علماء، دانشوروں، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور عوام الناس کی جانب سے فرقہ پرستوں کے جرائم پر خاموشی، سہولت کاری اور تعاون فرقہ اریت کے پھیلنے کا باعث بنتا ہے اور فرقہ واریت کو سماجی قبولیت حاصل ہوتی ہے۔
• دوسرے فرقہ کے بارے میں ان کے مستند موقف پر اعتبار کرنے کے بجائے اپنے خود ساختہ فہم اور تعبیر پر یقین کرنا
• مکتب کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بجائے لوگوں کے ذاتی افعال اور حرکتوں سے ان کے بارے میں رائے قائم کر لینا
• دوسرے فرقہ کو صرف رد کرنےاور گمراہ ثابت کرنے لیے صرف محدود و مخصوص موضوعات کا مطالعہ کرنا۔
• مفاہمانہ اور مکالمانہ انداز گفتگو کے بجائے مناظرانہ، مدافعانہ اور جارحانہ طرز گفتگو
• دوسرے کی رائے کے ہمیشہ غلط ہونےاور اپنی رائے کے ہمیشہ صحیح ہونے پر یقین رکھنا
• ذرائع ابلاغ: مختلف ملکوں، شہروں اور علاقوں میں مختلف اوقات میں پیش آنے والے واقعات کی بنیاد پر یک دوسرے کے بارے میں غلط تصورات و تعصبات پر مبنی غیر مستند تقاریر و تحاریر اور افواہوں کو عام کرنا
• فرقہ وارانہ تقسیم پر مبنی دینی نصاب و تعلیمی نظام اور فرقہ وارانہ مفادات کے لیے قائم فرقہ وارانہ ادارے اور تنظیمیں
• ریاستی اداروں، علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے فرقہ وارانہ رجحانات، اور حکمرانوں کے طرز حکمرانی میں موجود خامیاں
فرقہ واریت کی شدت کو بڑھاوا دینے والے رویے
• دوسرے فرقوں کے مطالعہ کے لیے ’’اپنوں‘‘ کے لکھے ہوئے لٹریچر کا مطالعہ اور’’اپنے‘‘ علما سے رجوع کرنا۔
• دوسرے مسلک کو صرف رد کرنے، باطل ثابت کرنے اور گمراہ ثابت کرنے لیے صرف محدود و مخصوص موضوعات کا مطالعہ کرنا۔
• غلط تصورات و تعصبات پر مبنی غیر مستند تقاریر و تحاریر اور افواہوں ، پر یقین
• اپنے عقیدے کو چھوڑو مت اور دوسروں کے عقائد کو چھیڑو مت کا رٹ لگائے رکھنا اور علمی ارتقاء کے سفر کو منجمد کرنا
• کچھ عام افراد کے کچھ مخصوص ذاتی فعل سے پورے مکتب کے بارے میں رائے قائم کرنا
• دوسرے فرقہ سے وابستہ لوگوں کو اپنے سے کم تر اور گمراہ مسلمان سمجھنا اور سب و شتم اور تکفیر و تشدد پر اتر آنا
• دوسرے پر ہونے والے تشدد اور مظالم کو برحق اور جائز سمجھنا اور ان کی طرف سے ان مظالم پر احتجاج کو شدت پسندی قرار دیناو اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو ظلم عظیم قرار دے کر احتجاج کرنا اور سب سے یہ توقع کرنا کہ وہ بھی ان کے ہمنوا بنیں۔
• دوسروں کے سامنے یہ رویہ اختیار کرنا کہ آپ وہ نہیں جو آپ کہہ رہے یا کر رہے ہیں بلکہ وہ ہے جو میں سمجھ رہا ہوں۔ یعنی اس کے بارے میں اس کے بیان اور عمل سے زیادہ اپنے ظن اور فہم پر اعتبار کرنا
• کسی اور زمان و مکان اور حالات میں دیے گئے فتاویٰ،نظریات اور واقعات کی بنیاد پر موجودہ حالات پر رائے قائم کرنا اور اپنا غصہ دوسرے فرقہ سے وابستہ سامنے بیٹھے ہوئے بے گناہ انسانوں پر نکالنا اور ان کو بھی شریک جرم قرار دینا۔
• دوسروں کے مذہبی رسومات کو انتہائی بے وقوفانہ حرکتیں اور اپنے رسومات کو مقدس بنا کر پیش کرنا۔
فرقہ واریت کی شدت کو کم کرنے والے رویے
• ہر فرقہ کے مطالعہ کے لیے ان کے نزدیک مستند لٹریچیر اور ذمہ دار علماء سے رجوع کیجئے!
• مناظرانہ، مدافعانہ اور جارحانہ طرز گفتگو کے بجائے مفاہمانہ اور مکالمہ کا طرز اختیار کیجئے!
• دوسرے کو سنتے ہوئے یا پڑھتے ہوئے ان کے بارے میں قائم اپنے مفروضوں کو معطل کیجئے!
• مکالمہ اور مفاہمانہ عمل سے پہلے نتیجہ اخذ کرنے سے گریز کیجئے!
• دوسرے کو جاننے کے لیے توجہ سے سنئے ! ماننے کے لیے یا منوانے کے لیے نہیں!
• دوسرے کو اختلافی رائے رکھنے کا حق اور اس کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا پورا موقع دیجئے!
• مکالمہ کا موضوع ، مقصد اور سمت مکالمہ میں شامل ہر ایک کے لیے واضح کیجئے!
• ایک وقت میں صرف ایک شخص بات کیجئے!
• لب و لہجہ ہمیشہ دھیما رکھ لیجئے!
• اعلیٰ اخلاقی اقدار کا عملی مظاہرہ کیجیے!
• کم علمی محسوس ہونے کی صورت میں مزید مطالعہ اور مکالمہ کے لیے وقت نکال لیجئے!
• دوسرے کی رائے میں صحت اور اپنی رائے میں غلطی کے امکان کو سامنے رکھ لیجیے!
فرقہ وارانہ تشدد کا خاتمہ کیسے ہوگا؟
فرقہ وارانہ تشدد کا بغور جائزہ لینے سے اس کے مراحل سمجھ میں آتے ہیں جو فرقوں کی بنیادر پر تقسیم سے شروع ہو کر، سماجی فاصلے، سماجی تفریق، منافرت، مخصوص طبقات کی ریاستی و سیاسی سرپرستی، مخالف کے جینے کے حق کا انکار سے ہوتا ہوا فرقہ وارانہ قتل و غارت تک پہنچ جاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے عمل درآمد (Implementation) کے مرحلہ پر کام کرنے والے کردار کو سزا دینا ہر گز کافی نہیں بلکہ پہلے مراحل پر ہی اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ حکمت عملی بنانی ہوگی۔ اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے فرقہ واریت کے پھل کے ساتھ ساتھ اس کا تنا، اس کی جڑ اور اس کی بیج کا بھی خاتمہ ہو۔
ہمارے معاشرے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی و امن کے لیے فرقہ واریت ایک خطر ناک زہر ہے۔ معاشرے کو اس زہر سے اثرات سے پاک کرنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ وہ کردار یہ ہے کہ کم از کم ہم کسی فرقہ وارانہ سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔ جن کے پاس ہمت ہے وہ مزید آگے بڑھ کر اس سماجی مرض میں مبتلا لوگوں کو اس سے نجات دینے کی کوشش کریں