میرے قائد کی تصویر اور میری تنظیم کا جھنڈا شہر کے مرکزی چوک پر لہراتا دیکھ کر میرا دل خوشی سے پھول جاتا ہے، دیواروں پر میری تنظیم کے نعرے پڑھ کر نہایت خوش ہوتا ہوں ، خبروں میں میری قیادت اور تنظیم کی شہ سرخیاں میرے لیے سکون اور اطمینان کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ اور اگر کوئی چوراہوں پر لگے میری تنظیم کے اشتہارات پھاڑ دے یا مٹا دے تو میرا خون جوش مارنے لگتا ہے اور اگر ایسی شرارت کرنے والوں کو سامنے پا لوں تو میں اسے درگت بنالوں۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے کسی مالی نقصان پہنچانے پر شاید مجھے اتنی تکلیف نہیں ہوتی ، جتنی تکلیف مجھے اس وقت ہوتی ہے جب کوئی مجھے گالی دے یا سر عام شرمندہ کرے یا میرے والدین ، خاندان / برادری ، مسلک یا پارٹی کو برا بھلا کہے ، ایسے بندے پر میں غصے سے آگ بگولا ہو جاتاہوں اور اچانک میں متشدد ردعمل کے لیے آمادہ ہو جاتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بیرون ملک پردیس میں کوئی پاکستانی ملے تو اپنے بھائی سے بڑھ کر اسے چاہتا ہوں ۔ اگر ملک کے اندار کسی دُور شہر میں میرےہم زبان، ہم مسلک یا ہم علاقہ کوئی شخص ملے تو نہایت خوشی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرے مسلک کی مسجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد میں پڑھی گئی نماز کو میں نامکمل سمجھتا ہوں، درسگاہیں، کتب خانے اور کتابیں وہی معتبر ہیں جن کا تعلق میرے مسلک سے ہو۔ اچھے انسانوں کا وجود میرے مسلک سے باہر ناممکن ہے، کیونکہ وہ سارے گمراہ جو ہوئے! تقویٰ اور تزکیہ نفس بھلا کیسے ممکن ہے میرے مسلک کی تعلیمات سے دُور رہ کر!
یورپ و امریکہ، عرب و عجم میں کسی میرے ہم وطن پاکستان یا ہم مذہب شخص کوئی قابل فخر کارنامہ انجام دے تو مجھے بھی خوشی ہوتی ہے اور اگر ایسے شخص کو کوئی تکلیف پہنچے تو اپنے گھر میں بیٹھے میں بھی اس پر پریشان ہوتا ہوں۔ کراچی، کوئٹہ یا خیبر میں میرا ہم علاقہ، ہم مسلک یا ہم زبان کوئی مارا جائے تو اسلام آباد ، لاہور یا سکردو میں بیٹھ کر اس غم کو محسوس کرتا ہوں، اپنا غم و وغصہ نکالنے کےلیے دوسرے ہم علاقہ، ہم مسلک یا ہم زبان دوستوں کو اپنے ساتھ ملا کر احتجاج کرتا ہوں ، سڑکیں بلاک کردیتا ہوں، اس احتجاج میں بغیر کسی تحقیق کے کسی ایک مسلک، پارٹی یا گروہ کو تختہ مشق بناتا ہوں، اس گروہ سے وابستہ میرے ساتھ بیٹھنے والے بے قصور لوگوں کو بھی اس جرم کا قصور وار ٹھہراتا ہوں۔
[pullquote]ذات، شخصیت، خاندان، تنظیم، ادارہ، جماعت، پارٹی، صوبہ، زبان، علاقہ، مسلک اور قوم وغیرہ کے نام پر ہونے والی لڑائیاں اور تنازعات کی ایک بنیادی وجہ شناخت ہے۔
[/pullquote]
شناخت کیا ہے؟ انسان کا اپنے بارے میں وہ تصور ذات جو اسے دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔ ہر وہ چیز جس کو انسان اپنی طرف نسبت دیتا ہے وہ شناخت کا حصہ ہے۔ میری ذات، میراخاندان، میرا مذہب، میرا۔۔۔۔،
[pullquote]انسان مختلف طبقات کے ساتھ جتنا زیادہ سماجی تعامل اور تعلقات بڑھاتا ہے اتنا ہی اس کی تصور شناخت میں وسعت آتی جاتی ہے اور اس کی شناخت آفاقی ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح جتنا وہ اپنے سماجی تعامل اور تعلقات کو محدود کرتا جاتا ہے اتنا ہی اس کی شناخت محدود ہوتی جاتی ہے۔ کبھی وہ کنویں کا مینڈک بن کرے کنویں کو ہی کائنات سمجھ بیٹھتا ہے۔
[/pullquote]
بعض نے اپنے لباس ، بعض نے زبان، کچھ نے علاقہ، کچھ نے مسلک و مذہب، بعض نے ادارہ و تنظیم، بعض نے شخصیت یا قومیت کو اپنی شناخت کا پیمانہ بنا رکھا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے خاندان اور برادری کو شناخت کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی سماجی حیثیت یا پیشے کو اپنی پہچان قرار دے رکھا ہے۔
[pullquote]شناخت کے ساتھ انسان کا تعلق فطری ہے۔ یہ مثبت نتائج کا حامل بھی ہو سکتا ہے اور منفی نتائج کا بھی۔ شناخت کی بنیاد پر مثبت اور صحت مند مقابلوں کے ذریعے قوموں میں تعمیر و ترقی بھی ہو سکتی ہے اور تعصب و انتقام کے ذریعے تباہی کا سامان بھی فراہم ہو سکتا ہے۔
[/pullquote]
شناخت کے مدارج میں وہی درجہ سب سے حساس ہوتا ہے جسے انسان اپنی شناخت کا سب سے نمایاں اور اہم ذریعہ قرار دیتا ہے۔ چنانچہ اہل سیاست کے لیے سیاسی وابستگی، سماجی عمائدین کے لیے سماجی حیثیت، اہل مسلک ومذہب کے لیے مسلک و مذہب ، قوم پرستوں کے لیے قومیت اور وطن پرستوں کے لیے وطنیت۔ علیٰ ہذا القیاس۔۔۔۔۔ !
انسان اپنی شناخت کو جب خطرات محسوس کرنے لگتا ہے تو اسے اپنا وجود ہی خطرے سے دوچار نظر آتا ہے۔ کبھی انسان اپنی شناخت کو دوسری شناختوں پر برتر اور بہتر ثابت کرنے کے لیے تگ و دو میں لگا رہتا ہے، اپنی شناخت کو فروغ دینے اور اسے دوسروں پر تسلط دلانے کے لیے مشتعل رویوں، غم و غصہ، تعصب، بدعنوانی اور جنگ و جدال اور قتل و قتال سے کام لیتا ہے۔
حل تنازعات کے علم میں شناخت پر مبنی تنازعات کو سب سے پیچیدہ ، دیر پا اور مشکل تنازعات سمجھا جاتا ہے۔ میرے خیال میں مسلم دنیا میں جاری تنازعات خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ شناخت پر مبنی تنازعات ہر معاشرے کے لیے ہمیشہ ایک مستقل خطرہ کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ ان سے نمٹنے کے لیے تعلیمی، تربیتی، سماجی قانونی، سیاسی، آئینی ، عدالتی اور انتظامی لحاظ سے ہمہ جہت اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔