فرقہ ورانہ تعصب ایک ذہنی بیماری ہے 

سید عاصم بخاری ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے اپنا ذاتی تجربہ بتایا کہ 1999 سے 2001 تک میں ملتان لا کالج میں زیر تعلیم تھا، تو میں نے نیو ملتان میں رہائش اختیار کی ، پہلے ہی دن قریبی مسجد میں نماز فجر ادا کرنے گیا اور دوران تکبیر میں کھڑا ہوا تو تمام لوگ مجھے عجیب و غریب نظروں سے دیکھنے لگے، میں نماز مکمل کر کے نکلنے لگا تو مسجد کے لوگ صفیں اور فرش دھونے میں لگ گئے۔ مجھے اس کی وجہ سمجھ کچھ نہ آئے اور بہت عجیب محسوس ہوا۔ نماز ظہر میں پھر اسی علاقے کی دوسری مسجد میں چلا گیا اور میں تکبیر کے وقت بیٹھا تھا اور نماز ادا کر کے میں جیسے باہر نکلا تو اس مسجد کے افراد نے بھی بالکل ویسے ہی جہاں سے میں گزر کر نماز پڑھی ہر چیز اور ہر جگہ کو دھو دیا ، مجھے ایسے لگا جیسے میں کوئی نجس چیز ہوں۔

عصر نماز کے لیے اسی علاقے میں اہل حدیث کی مسجد چلا گیا تو وہی کچھ دیکھنے کو ملا پھر میں نے ان مساجد کے مختلف نمازیوں سے پوچھا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے تو انھوں نے بتایا کیوں کہ آپ ہمارے مکتبہ فکر سے تعلق نہیں رکھتے۔ ہمارے نزدیک آپ کافر شمار ہوتے ہیں، اس لیے مسجد نجس ہو گئی تھی۔ یہ سن کر میں چونک گیا اور حیران و پریشان ہوا کہ کیا یہ لوگ مجھے واقعی کافر اور نجس ہی سمجھتے ہیں۔ اس کی کھوج میں پھر میں نے ان تینوں مساجد میں فرداً فرداً جا کر اندرونی دیواروں پر لگے بورڈز پر نظر دوڑائی تو وہاں ہر مسلک کی مسجد میں اس کے علاوہ دیگر مسالک کے بارے برا بھلا لکھا ہوا تھا اور یہاں تک کہ اپنے سوا سب کو کافر قرار دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے میں نے کسی بھی مسجد میں جانا چھوڑ دیا اور اپنے کمرے میں ہی نماز اداکرنا شروع کر دی۔

2001 کے بعد میں اپنے شہر احمد پور شرقیہ میں آیا تو جب میں نے غور کیا، ادھر بھی ویسے ہی فرقہ ورانہ تعصب دیکھنے کو ملا۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ مسلمان مسلمان کو ہی کافر قرار دے رہے ہیں۔ میں اپنے علاقے کی مسجد میں سب سے پہلے اپنے امام اور ارد گرد رہنے والے معززین کو سجھایا کہ سب مسلمان ہیں۔ اس لیے کسی کو بھی مسجد آنے سے نا روکا جائے اس عمل میں مجھے کافی دشواریاں بھی آئیں۔ لوگوں نے مجھے غلط سجھنا شروع کر دیا۔ مجھے گمراہ ، حق چھوڑ کر دوسرے گمراہ فرقے میں تبدیل ہونے کا طعنہ دیا گیا۔

چونکہ میرے محلے میں غربت بہت ہے، لوگ صفائی کرنے والوں اور بطور خاکروب کام کرنے والوں کی اکثریت ہے۔ تو اہل علاقہ ان سے دوری رکھتے تھے۔ انہیں مسجد آنے سے روکا جاتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں اپنے علاقے کے لوگوں کو ہی سمجھا لوں تو میری زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا اس معاملے میں اللہ نے میرا ساتھ دیا اور اب الحمدللہ مسجد کے دروازے سب امیر و غریب اور ہر مسلک کے لیے کھلے ہیں۔ سب ہی فرقوں سے تعلق رکھنے والے آ کر آسانی سے نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں نے اپنے حصے کا چراغ جلا دیا۔

ایسے ہی ایک خاتون ( ا،م،د ) بتاتی ہیں کہ میں 2023 کے محرم الحرام میری دوست جو کہ اہل تشیع سے تعلق رکھتی تھی، نے مجھے لے کر جلوس میں چلی گئی۔ جلوس چونکہ تاخیر سے نکل رہا تھا تو ہمیں ادھر پاس کسی کے گھر میں بٹھا دیا گیا، وہاں موجود ایک بزرگ خاتون بھی بیٹھی تھی، باتوں باتوں میں مجھے بتا رہی تھیں کہ وہ عمرہ پر گئی ہوئی تھیں اور خاص طور پر محرم الحرام کی وجہ سے 5 دن بعد ہی آ گئی کیونکہ سعودی تو پورے کافر ہیں جو کہ کوئی سوگ وغیرہ نہیں مناتے ( ا،م،د) کیونکہ سعودیہ میں 20 سال گزار کر آئی تھی تو اس نے اس خاتون کو سمجھایا وہاں اکثر شہروں میں کسی قسم کے مذہبی جلوس نہیں نکلتے۔ نہیں نکلتے وہاں لوگ نمازیں مساجد میں پڑھتے ہیں اور باقی مذہبی رسومات اگر کسی نے ادا کرنے ہیں تو وہ اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ ہماری طرح محلوں اور شہروں کی دیواروں پر اشتہار بازی نہیں ہوتی،ہمارے یہاں کی طرح وہاں سیاسی اور مذہبی جلسے جلوس نہیں ہوتے رہتے۔

یہ باتیں سن کر اس خاتون نے نفرت کی نظروں سے ( ا،م،د) کو دیکھا اور پوچھا کہ کس فرقے سے تعلق ہے تمھارا ؟ اور کیا تم دیوبندی ہو، اس نے بتایا میں بس مسلمان ہوں جب اہل تشیع خاتون کو معلوم ہوا کہ میں کسی اور فرقے سے ہوں تو مجھے گھر سے نکال دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اتنے سال سعودیہ میں رہی تو مجھے فرقوں کا پتا ہی نہیں تھا صرف مسلمان ہونے کا پتا تھا، کون اچھا کون برا یہ صرف انسان کی عادات سے اندازہ لگاتے تھے ہم لوگ۔ مگر پاکستان آ کر پتا چلا کہ لا تعداد فرقے بھی ہیں اور تعصب بھی ہر فرقہ باقی فرقوں کو کافر اور انسان کو ناپاک سمجھتا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے  ہر گھر میں  فرقہ ورانہ تعصب ایک وبا کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو سب سے پہلے فرقہ سجھایا جاتا ہے۔ بعد میں اسے مسلمان ہونا سکھاتے ہیں۔ مسلمان کا لفظ جب زبان پر آتا ہے تو ایک عام سی بات ذہن میں آتی ہے کہ اچھا آپ مسلمان ہیں، لیکن جب ایک فرقہ کی بات آتی ہے کہ جی آپ بریلوی، ہیں آپ دیوبندی ہیں آپ شیعہ ہیں ۔ آپ اہل حدیث ہیں وغیرہ آپ کسی بھی فرقہ سے ہیں تو خود بخود سامنے بیٹھے اچھے خاصے انسان میں تعصب جاگ جاتا ہے اور ان کے تعصب زدہ جذبات نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور اپنے علاوہ دوسرے فرقوں کے متعلق جو کچھ بچپن سے ذہن نشین کیا جاتا کہ ہمارا فرقہ مسلمانی ہے، باقی فرقوں سے تعلق رکھنے والے کافر ہیں، یہی سوچ کر سامنے بیٹھا انسان ہمیں جو کہ دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے۔ بعض اوقات واجب القتل نظر آنے لگتا ہے اور اس میں ہزار برائیاں نظر آنے لگتی ہیں۔

ان واقعات کو سننے کے بعد میں نے سوچا کہ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت کے بارے میں کچھ پڑھوں۔ جب میں نے تاریخ اٹھائی تو عظمت صحابہ کے نام پر سپہ صحابہ نظر آئی ، اہل تشیع کے ذاکرین کی طرف سے صحابہ کی شان میں بے حرمتی کے متعدد خطابات سامنے آئے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر بہت سے قتل و غارت کے واقعات ہو چکے ہیں اور ملک بھر میں بلاشبہ ہزاروں لوگ اس فرقہ وارانہ منافرت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔سماج دشمن عناصر وقتاً فوقتاً اپنے ذاتی مفادات اور گروہی مقاصد کی تکمیل کے لیے مختلف کمزور گروہوں مثلا کوئٹہ کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی وغیرہ کو نشانہ بنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ ملک بھر میں شیعہ سنی اور متعدد حلقے کے علماء اس مذہبی تفریق کو ختم کرنے کے لیے ایکٹیو ہوئے ، حکومت کی سر پرستی میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے، شدت پسند جماعتوں کو کلعدم قرار دیا گیا، تمام فرقوں کی جماعتیں متفق ہو کر سرگرم ہوئیں۔

اب یہ حکومت وقت اور اہل فکر و دانش کی زمہ داری ہے کہ وہ مذہبی فرقہ ورانہ تعصب  پیدا نہ ہونے دیں۔ ہر فرقے کا احترام کرنا اور آپس میں امن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں امن اور بھائی چارے کا ماحول قائم رہے۔

ہمیں ایک نئی جدوجہد کی ضرورت ہے، جس کے ہتھیار کتابیں ہوں، اِس کے لیڈر اہل فِکر ہوں اور اُس کا شکار جِہالت اور پسماندگی ہو!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے