خالد خان کا تعلق خیبر پختون خواہ کے ایک پسماندہ ضلع شانگلہ سے ہے۔ آپ نے سن 1996 میں پشاور یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹر کرنے کے بعد اپنے علاقے کے ایک پرائمری سکول میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ لیکن تقریبا چھ ماہ بعد ملازمت سے استعفیٰ دے کر سماجی خدمت کا راستہ چنا۔
خالد خان کے ذہن میں گاؤں کی غربت، معاشرتی اونچ نیچ، عورتوں کو کمتر سمجھنا، موچی، نائی، بڑھئی سمیت معاشرے کے ہنرمند طبقوں ( مقامی زبان میں کسب گر) کے ساتھ نارواسلوک رکھنا، دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تسلیم نہ کرنا، اور ٹرانس جینڈر کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، جیسے عوامل نے ایک عجیب اضطراب میں رکھا۔
وہ ہر وقت یہ سوچا کرتے تھے کہ معاشرے کے ان عوامل پر کیسے قابو پایا جائے۔ لوگوں کے ذہن سے صنف، نسل، برادری، پیشہ کی بنیاد پر اونچ نیچ، برہمن، شدر کے پختہ تصورات اور رویوں کو کیسے ٹھیک کیا جائے؟ عورت جو کہ معاشرے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتی ہے۔ جس کو چار دیواری تک محدود رکھا گیا ہے۔ کیسے ان کو آگے لایا جائے؟ کسب گر طبقہ جو کہ معاشرے کا بے انتہا قیمتی اثاثہ ہے، جن کی وجہ سے معاشرے کا نظام چل رہا ہے۔ اگر موچی جوتے بنانا چھوڑ دے۔ تو لوگ پیروں میں کیا پہنیں گے؟ اگر بڑھیی لکڑی کا کام چھوڑ دے۔ تو لوگ دروازے، کھڑکی وغیرہ کیسے بنائیں گے؟
خالد خان کہتے ہیں کہ ہلاکو خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جہاں بھی گیا قتل عام کیا۔ صرف کسب گروں کو چھوڑا۔ کیونکہ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ معاشرے کا نظام ان لوگوں کی وجہ سے رواں دواں ہے۔ اسی طرح خالد خان کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈرز کی پیدائش رب ذوالجلال نے کی ہے۔ تو ہم کون ہوتے ہیں کہ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والے ؟ ان کو تو پیار و محبت کی زبان کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کو فائدے کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پیدا کرنے میں اللہ تعالی کی کوئی حکمت ہوگی۔ تو پھر ہم کیوں ان لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں؟
معاشرے کے ان خطرناک نظریات نے خالد خان کو مضطرب رکھا۔ اور یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیسے معاشرے کی سوچ بدلی جائے؟ چنانچہ آپ نے ہینڈی کیپ انٹرنیشنل کو جوائن کیا اور وہاں سے اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغاز کیا۔
انھوں نے وہاں معاشرے کے ان لوگوں پر کام کیا۔ جن کو معاشرہ معذور یا ڈسیبل کہتے ہیں۔ خالد خان کہتے ہیں کہ مجھے اس دن بڑا دکھ ہوا، جب میں نے دیکھا کہ ہمارا شا نگلا تو سارا ڈسیبل ہے جو کہ زیادہ تر لوگ کوئلہ کے کانوں کے لوگ ہیں۔ لیکن خوشی بھی اس دن ہوئی کہ میں خود ان لوگوں کی فائلنگ کر رہا ہوں اور ان کی مدد کر رہا ہوں۔ ہینڈی کیپ کے ساتھ کام کرنے اور ڈسیبل لوگوں سے واسطہ پڑنے پر پتہ چلا کہ یہ لوگ کتنے تکلیف کے ساتھ زندگی کی صبح و شام کرتے ہیں۔
میں نے یونیسیف کے ساتھ واش پر کام کیا۔ اس پراجیکٹ سے مزید پتہ چلا۔ کہ ہم بنیادی صفائی سے کتنے دور اور نا آشنا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک میں مختلف تنظیموں کے ساتھ کرم کرتا ہوں اور اپنے حصے کا سوشل ورک کرتا آ رہا ہوں۔
خالد خان صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں گاؤں سے کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ تو مجھے میرے دوست کی کال آئی کہ جامعہ مسجد کے امام صاحب نے اعلان کیا ہے۔ کہ ہمارے گاؤں میں جو سلائی کڑائی کا سینٹر بنا ہے۔ یہ NGO والے ہیں اور یہ لوگ ہماری عورتوں کو خراب کر رہے ہیں۔ لہذا آپ سب لوگ اپنی عورتوں کو ان کے سینٹر میں نہ بھیجیں۔ جب میں نے میرے دوست کی یہ باتیں سنی۔ تو بہت پریشان ہوا کہ کتنی مشکل اور اپنی مدد آپ کے تحت ہم نے اس سنٹر کا اجراء کیا اور مولانا صاحب کے کچھ ہی جملوں سے ہمارے سالوں کی محنت خراب ہو گئی۔ میں جب دوست سے ملا۔ تو سوچا کہ کیا کریں؟ اتنے میں میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ اس مولانا صاحب کے گھر میں زنانہ کے لیے ایک مدرسہ ہے اور وہاں بھی گاؤں کی تمام عورتیں آتی ہیں۔
چنانچہ میں سیدھا اپنے دوست کے ساتھ مسجد پہنچا اور مولانا صاحب کو بٹھا کر سوال کیا کہ کیا آپ نے ممبر پر جو بات کی ہے۔ اس کی تھوڑی وضاحت کریں گے؟ آپ نے کہا کہ میں نے اور کچھ نہیں کہا۔ بس صرف اتنا بولا ہے کہ جو عورتیں سینٹر میں آتی ہے۔ ان کا پردہ خراب ہو رہا ہے۔ اس پر میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی مدرسے میں جو عورتیں آتی ہیں۔ کیا ان کا پردہ خراب نہیں ہوتا؟ مولانا صاحب ہکا بکا رہ گیا اور کہا کہ وہ عورتیں پردہ میں آتی ہیں۔ تو میں نے جواب دیا۔ کہ اگر ہمارے سینٹر پر عورتیں پورے پردے میں آنا شروع کریں اور سکھانے والے بھی عورت ہو؟ تو پھر انہوں نے کہا پھر تو ٹھیک ہے۔
چنانچہ مولانا صاحب نے ممبر سے اعلان کیا۔ کہ عورتیں سینٹر میں سلائی کڑائی سیکھنے کے لیے جا سکتی ہیں لیکن شرعی پردے کا اہتمام کریں۔ اسی طرح ہمارا سینٹر دوبارہ آباد ہوا اور مسئلہ حل ہو گیا۔
مزید بتاتا چلوں کہ اس سینٹر پر 300 بیوہ اور انتہائی غریب عورتوں نے کام سیکھا۔ ہم نے ان کو گورنمنٹ سے سرٹیفیکیٹ بھی دلوایا۔ الحمدللہ آج کل وہ تمام عورتیں اپنے اپنے گھر چلا رہی ہیں۔ انہیں میں سے کئی عورتوں کو گورنمنٹ نوکری بھی ملی ہوئی ہے اور ہمیں دعائیں دے رہی ہیں۔
اگر ہم بصیرت سے کام نہ لیتے اور امن کا نظریہ ذہن میں نہ ہوتا۔ تو ایک لمبی لڑائی چھڑ جاتی۔ لیکن ہم نے بصیرت اور دلائل سے مولانا کو راضی کیا اور پھر مولانا صاحب نے اپنے خاندان سے تین عورتوں کو داخل کروایا۔ ان کو سرٹیفیکیٹس اور مشین وغیرہ دئیے اور آج کل وہ عورتیں بھی اپنا خود کا کام کر رہی ہیں۔
تعلیم کی اہمیت پر جب مجھے پتہ چلا تو میں نے سوچا کہ یہ یتیم بچے جو کہ تقریبا ہمارے ضلع میں زیادہ ہوں گے کیونکہ ہر سال کوئلہ کے کانوں سے سینکڑوں مزدوروں کی لاشیں لائی جا رہی ہیں اور ان کے بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے سویٹ ہوم اسلام آباد سے رابطہ کیا اور اپنے علاقے سے 11 یتیم بچوں جن کی عمریں تقریبا پانچ سال کے لگ بھگ ہیں، کو وہاں داخلہ دلوا کر ان کی بہترین پرورش، تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔
مجھے اب بھی یاد ہے۔ جب میں ان کو اپنے گھروں سے نکال رہا تھا۔ تو ان کے گھروں میں ایک ماتم سا بچا ہوا تھا۔ چونکہ میں شانگلہ کا ایک جانا پہچانا سوشل ورکر ہوں۔ تو ان کی ماؤں کا مجھ پر اعتبار تھا۔ ان 11 بچوں کو ایک گاڑی میں بٹھایا۔ اور اسلام آباد سویٹ ہوم کو عصر تک پہنچ گیا۔ سویٹ ہوم میں ان بچوں کا بہت اچھے طریقے سے استقبال ہوا۔ لیکن جب میں ان بچوں سے واپسی میں آ رہا تھا۔ تو تمام بچے رونے لگے اور مجھے آنے نہ دیا۔ چنانچہ میں نے وہیں رات گزاری اور صبح بچوں کے اٹھنے سے پہلے میں وہاں سے نکل پڑا۔
الحمدللہ ان بچوں میں آج دو بچے ڈاکٹر ہیں اور باقی بھی اپنے گھروں کی کفالت کر رہے ہیں۔ وہ بچے میری عزت میری اولاد سے بھی زیادہ کر رہے ہیں اور جب بھی وہ اپنے گھر آتے ہیں تو پہلے میرے پاس آتے ہیں۔
اس کے بعد میری کوششوں سے پاکستان بیت المال کا سویٹ ہوم کا سکول ہمارے اپنے ضلع میں بنا۔ جس میں آجکل 100 یتیم طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
میں خود یہ سمجھتا ہوں کہ میں نیکی صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کروں اور سب سے زیادہ خوشی مجھے ان یتیم بچوں کی کامیابی پر ہوتی ہے، جو آج کل اپنے اپنے گھروں کے چولہا جلانے کے قابل بن چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے یو ایس ایڈ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایوارڈ ملا ہے۔ این سی ایچ ڈی کی طرف سے مجھے بیسٹ والنٹیئر ایوارڈ ملا ہے۔ 2005 کے زلزلہ میں ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت 2000 خاندانوں کو فرسٹ ایڈ مہیا کیا۔ 300 سے زیادہ ڈسیبلز کو ویل چیئرز مہیا کیے گئے تھے۔
ٓج کل میں ہلال احمر پاکستان کے ساتھ ضلعی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں۔ جس میں ہم ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ہ پر کام کر رہے ہیں۔