"زمین کا حصہ تو ملا ہے مگر زمین گرمیوں میں نظر نہیں آتی صرف سردیوں میں یہ زمین میری ہے۔”
یہ کہنا ہے فرحانہ (فرضی نام) ایک بیوہ خاتون ہیں، جو عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں. زمین عدالت کا دروازہ کٹھکٹانے کے بعد بھائیوں نے دے دی، سردیوں میں نظر آتی اور گرمیوں میں دریا کے بہاو میں اضافے کی وجہ سے دریا برد ہوتی ہے۔ مگر فرحانہ نے عدالت میں کیس کیا اور اچھی زمین کیلیے کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے کے بعد , اس امید سے ہے کہ اسے کہیں اچھی جگہ پر زمین مل جائے۔
اسی طرح کی کہانی خالدہ کی بھی ہے۔ وراثت کا حق نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی دربدر پھر رہی۔
نہ صرف خالدہ بلکہ کئی خواتین در در کی ٹھوکریں کھاتی دوسروں کے گھروں میں بے یارومدگار ہیں۔
یہ کہانی صرف ان دو کی نہیں بلکہ ان تمام خواتین کی ہے، جو شادی کے بعد وراثت کے حق سے محروم کردی جاتی ہیں۔اسکی گلگت بلتستان میں بڑی مثالیں ملتی ہیں۔
وہ بہن جو ہر وقت ماں باپ بھائیوں کی خدمتیں کرتی تھی اب انکی شادیاں ہونے کے بعد بھائیوں کی محبت ختم ہو چکی اور بہن پرائی ہو چکی تھی اور اسکے اپنے گھر میں جگہ نہیں تھی۔
خالدہ کی شادی کو دس سال بیت گئے تھے. خالدہ کا تعلق ہنزہ کے دوردراز علاقے سے ہے جو چار بچوں کی ماں بھی ہے، ایک دن اچانک اسکے شوہر نے اسے طلاق دی خالدہ کہتی ہے کہ
"میرے اور میرے شوہر کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا پھر بھی میرے شوہر نے طلاق دی۔”
خالدہ اب کبھی کسی کے گھر اور کبھی کسی رشتہ دار کے گھر بیٹھتی ہے کیونکہ شادی کے بعد سب کچھ اچھا چل رہا تھا، کسی قسم کی پریشانی بھی نہیں تھی لیکن اچانک اسکی زندگی میں ایک نیا موڑ طلاق کا آیا ،جسکے بعد اب نہ اپنے گھر ماں باپ کے گھر جاسکتی ہے اور نہ اب شوہر کے،دونوں گھر کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔
"بھائی ،بھابھی اور ماں باپ کے گھر سے نکلنے کے بعد اب رشتہ ختم ہوچکا ہے ” ، خالدہ کے آنکھوں میں آنسو تھے، وہ مسلسل رورہی تھی کہ” اب میں کہاں جاؤں” ؟
ایڈوکیٹ شبانہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر عدالت میں جائیداد کے حق کے کیسز آتے ہیں. خاتون جائیداد کا حق مجبوراً مانگتی ہے، اگر وہ اپنے ماں باپ سے بھی نہ مانگیں تو کہاں جائے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ جب قانون نے خاتون کو اسکا حق دیا ہے تو کیوں کورٹ آنے کی نوبت ہوتی ہے. ہمارے قانون اور عدالت کے قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ ایک ہی سماعت میں فیصلہ ہو تو خاتون کو اسکا حق وقت پر ملے گا .جب خاتون زندہ ہوتی ہے تو عدالت کے چکر کاٹتی ہے، اسکا فیصلہ بہت دیر سے آتا ہے تب تک خاتون حالات سے تنگ آکر خودکشی کرتی ہے اور مرجاتی ہے ۔انگریزوں کے دور کے قوانین کو ختم کرنے کی ضرورت ہے. اسلام اور قانون کے تحت دئیے گئے حق میں کس بات کی دیر ؟
ہیومن رائٹس گلگت کے کوارڈینیٹر اسرار الدین اسرار کے مطابق وراثت کا حق پاکستان کے اسلامک فیملی قانون کے تحت ایک تہائی حصہ ہے، مگر گلگت بلتستان میں یہ حق نہیں دیا جاتا . یہ لوگوں کے رویئوں کا مسئلہ ہے اور قانون کی عمل داری کا مسئلہ ہے کیونکہ کیسز لے کر خواتین کورٹ جاتی ہیں، ان کو بھی اپنا حق لینے میں بڑا وقت لگتا ہے۔اسکی بنیادی وجوہات میں گورنمینٹ لیول پر اور خواتین کو بھی اس حوالے سے آگاہی کم ہے. جس کی وجہ سے فوائد پر بات کم ہوتی ،نقصانات پر بات کرتے ہیں. لوگ سمجھتے ہیں کہ حق دینے سے زمین کسی اور کے پاس چلی جائے گی۔ یہ نہیں سوچتے کہ بیٹی معاشی طور خودمختار ہوگی۔ اور اس حق سے پاکستان اور گلگت بلتستان کی زیادہ تر خواتین محروم ہیں۔
ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او گلگت حسین بانو کے مطابق گلگت میں خواتین خاص کر بیوہ خواتین اپنے ماں باپ سے اپنا حصہ اور اپنے بچوں کا جائیداد کا حصہ لینے جب اپنے خاندان میں جاتے ہیں تو خاندان والے رشتہ ختم کرنے ہیں. بعض دفعہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں سے رشتہ ختم بھی کیا جاتا اور انہیں گھروں سے نکالا جاتا ہے، پھر وہ پولیس سٹیشن کا رخ کرتی ہیں، جہاں آنے پر بھی رشتہ دار ایسی خواتین کا ساتھ نہیں دیتے۔ پولیس اسٹیشن میں بٹھایا جاتا ہے یا کبھی کسی پولیس خاتون کے گھر لے جا کر پناہ دی جاتی ہے ۔دارلامان یا پناہ گاہ نہ ہونے کی وجہ سے پولیس خواتین کو ہی انکی مدد کرنی پڑتی ہے۔ بعض دفعہ کرایہ تک دیتے ہیں اور اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے ۔
جنڈر سپیشلسٹ یاسمین کریم کہتی ہیں کہ خواتین کو جائیداد کے حق سے دور رکھنا جہالت ہے، اس دور جدید میں بھی والدین میں اتنی آ گاہی نہیں کہ وہ بیٹیوں کو انکا حق جو اسلام نے قانون نے دیا ہے، والدین دینے سے انکار کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ہم نے پڑھایا ہے اور اپنے بھائیوں کے حق پر دعویٰ کرتی ہو ۔
اسلام اور قانون نے خواتین کو حق دیا اور ہم کس بات کو لے کر پیچھے ہٹیں کہ ہمارے والدین اور رشتہ دار ابھی بھی ان روایات کو لے کر بیٹھے ہیں کہ خاتون کو زمین جائیداد کا حق دینے سے وہ کسی اور کے گھر چلا جائے گا ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے کمیونٹی میں وراثت کے حق کے حوالے سے حکم دیا گیا ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق جو بچے اور بچیوں کا وراثت میں حق ہے، اسکو برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔خواتین جن کا کوئی سہارا نہیں ،خاص کر بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین دربدر دوسروں کے گھروں میں بیٹھتی ہیں .گلگت بلتستان میں دارلامان نہ ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا شلٹر ہوم نہیں، اس وجہ سے ان خواتین کی مشکلات میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
قبائلی رسم وراوج میں فیصلہ سازی کا اختیار مردوں کے پاس ہونے کی وجہ سے خواتین کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی اور نہ انکو کسی فیصلہ سازی میں شامل کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے زیادہ تر علاقوں میں خواتین کے حقوق پامال ہورہے اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہورہی ہے۔
بلبل جان غذر کا رہائشی ہے، اس کی ماں کی زمین کیلیے کیس کو بیس سال بیت گئے، ماں وفات پاگئی ہے. اب وہ کورٹ کچہری کے چکر کاٹ رہا ہے، نے بتایا کہ نظام سست روی کا شکار ہے ۔ میں نے اپنی بیٹیوں کو زمین دی ہے، جو اسلام اور قانون نے حق دیا ہے. والدین کو اپنی خوشی سے دینا چاہیے یہ ایف سی ار کے دور کے بعد بیٹی کو حق دینا ختم کیا ۔میں 20 سالوں سے عدالت کے چکر کاٹ رہا ہوں ،میری ماں کا حصہ اب تک نہیں ملا ہے۔
اسلامی اور ملکی قوانین میں خواتین کو وراثتی جائیداد پراپرٹی کی ملکیت یا اس میں حصہ داری کا حق حاصل ہے مگر اس کے برعکس تحقیقی رپورٹس اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ معاشرے میں مروجہ روایات خواتین کے اس حق ملکیت کی نفی کرتی ہیں ۔
خواتین کو حق وراثت سے محروم رکھنے کیلیے روایات کا سہارا لیا جاتا ہے، جن کی وجہ سے خواتین کو وراثت کے معاملے میں خاندان کے مردوں کے حق میں دستبردار ہونا پڑتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کوئی بیوہ خاتون اپنی دوسری شادی اپنے مرحوم خاوند کے خاندان سے باہر کرے تو وہ روایتاً اپنے شوہر کے وراثتی حق سے محروم سمجھی جاتی ہے ۔اسی طرح کچھ معاشرے میں جہیز کو اسکی وراثتی حصے کا بدل سمجھا جاتا ہے، جو کہ اسلام اور قانون کی نفی ہے۔پاکستان میں اعلیٰ عدالتی فیصلوں نے خواتین کے حق وراثت کو محفوظ رکھنے کیلیے احکامات جاری کئے اور ایسے رسوم و روایات کی حوصلہ شکنی کی کی ہے، جو خواتین کی حق وراثت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا ہے، وہ نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کیلیے دو اور لڑکیوں کا برابر حصہ ہے ،پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کیلیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کیلیے آدھا حصہ ہے ۔” (سورہً النساء آیت 11)
اس حوالے سے مذہبی و سیاسی رہنما مولانا آصف عثمانی کا کہنا ہے کہ "ہمارے ملک میں عمومی طور پہ اور گلگت بلتستان میں خاص طور پہ ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ بہنوں کو انکے حق سے محروم رکھا جاتا ہے جو یقینا قابل مذمت فعل ہے، عورت کے الگ الگ روپ ہیں. اگر وہ ماں کے روپ میں ہے تو پیروں تلے جنت، بیٹی کے روپ میں تو رحمت اور بیوی شریک حیات ہو تو وہ آپکی عزت و آبرو ہوا کرتی ہے ، زندگی اگر بہن کی صورت میں ہو تو غیرت ہوا کرتی ہے.”
مگر جب یہی صنف نازک آپکی بہن شریعی حق کا دعوی کرتی ہے یا معززین کا انتخاب کرتی ہے، جسکو عرف عام میں پنچائیت یعنی جرگہ کرتی ہے تو یہی بہن آپکی نظر میں دشمن بن جاتی ہے حالانکہ اسکو یہ حق اللؔہ کے احکامات رسول اللؔہ ﷺ کے فرامین کے مطابق دیا گیا ہے.ہم اگر نماز، روزہ ،جہاد ،حج، زکوة اللؔہ کا حکم سمجھ کر ادا کرتےہیں تو اس میں بھی مالک دو جہاں کا واضح حکم موجود ہے.
اسلیئے میں بحیثیت ایک سیاسی ورکر اور مذہبی راہنماء ہونے کے ناطے اور اس معاشرے کا فرض ہونے کے ناطے اور باپ کے منصب پہ ہوتے ہوئے ہمیں بھی ان ایشوز کو دیکھنا ہوگا ،جہاں ہم معاشرے میں عوامی کام کو ترجیح دیتے ہیں اور سول سوسائٹی کیلئے ہمہ وقت کوشاں ہوتے ہیں وہاں قوم کی ہر اس بیٹی کے حق کیلئے آواز بلند کریں، جس کا حق سب سے پہلے اپنے ہی گھر سے سلب کیا جاتا ہے، پھر اس عورت زات کو زمانے میں سینکڑوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
ہم اس دیس کے باسی ہیں، جو عورت کو اس بات پہ ٹوکٹے ہیں کہ وہ اسلام کے دیئے ہوئے حق کیلئے متلاشی ہوتی ہے. میں سمجھتا ہوں اس جرم میں مجھ سمیت زمانے کا ہر فرد شامل ہوگا اسلیئے بحیثیت ایک باپ بھائی ہونے کے ناطے سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ جیسے آپکی وراثت میں آپ کے بیٹے کا حق ہے، ویسے ہی اس معاشرے میں آنکھ کھولنے والی آپ کی دختر یعنی بیٹی کا بھی حصؔہ ہے.