حامد میر صاحب نے اپنے معروف شو پر بریک پر جانے سے پہلے جلدی جلدی کسی امدادی تنظیم کی طرف سے بنگلہ دیش میں محصور "پاکستانی ” بہاریوں کے لیے ایک اپیل پڑھ کر سنائی. بہت برسوں کے بعد آنسوؤں سے رو پڑی. نجانے ٹھیس کہاں لگی تھی اور اشکوں کی جھڑی کیوں لگی ؟
خیال آیا کہ برق رفتاری سے ادا کی گئی اس اپیل پر کوئی رد عمل بھی ہوا ہوگا ؟ سنی ان سنی ہو گی یا کسی نے پل دو پل سوچا کہ یہ کن مصیبت کے ماروں کا ذکر کیا گیا ؟ یہ کونسی کمیونٹی ہے ؟ یہ بنگلہ دیش کے کن شہروں میں کیمپس نما قفس میں مقید ہیں ؟ یہ وہی تین چار لاکھ ہیں جن کے بزرگ پاکستان کی محبّت میں ہجرت در ہجرت کرتے رہے ،برباد ہوتے رہے اور 1971 کے قہر آلود سال میں بے سرو سامان ہو کر اپنے گھر سے در بدر ہوئے.
انھوں نے سولہ دسمبر اپنی بد نصیب آنکھوں سے دیکھا، اپنے نوجوانوں کو بچوں کو بچیوں کو بیدردی سے مکتی باہنی کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا، اپنے گھر کو جلتے لٹتے دیکھا اپنی شناخت کو بدلتے بگڑتے دیکھا . ان کی آنکھیں پاکستان سے آنے والے جہازوں کے انتظار میں پتھرا گئیں اور کوئی نہیں آیا. ان کو بھکاری کہا گیا . قوم پرستوں نے نفرت اور تضحیک کا نشانہ بنایا.نام نہاد قومی سیاسی جماعتوں نے نظر انداز کیا حتی کہ "مہاجروں ” کے نام پر بننے والی جماعت نے بھی محصورین کو بھلا ہی دیا اور پاکستان میں بسنے والے بہاریوں اور دیگر اردو اسپیکرز جو سابقہ مشرقی پاکستان سے ہجرت کر کے کراچی اور پاکستان کے دیگر حصّوں میں آباد ہوئے ان کی عزت تکریم برابری کے لیے کچھ نہ کیا .
روتے روتے اپنے ماموں اور ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر جاوید محسن ملک کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ ہم لوگ کون ہیں؟ نانا کے کومیلا والے گھر کا پتا کیا تھا؟ میرے ابو جان کے ڈھاکہ والے گھر کا پتا کیا تھا ؟ کاش فارن آفس نے ہم بہاریوں کی پراپرٹی کے حوالے سے کچھ سوالات کبھی کئیے ہوتے؟ سنا ہے کہ فاطمی صاحب بھی بہار کے ہیں لیکن دروغ بر گردن راوی انہوں نے آج تک بہاری کمیونٹی کے حقوق کے لئیے کوئی بات نہیں کی ؟ کاش دانش وروں نے بھی کچھ پوچھا ہوتا ؟ یہاں تو سکوت ہے . سناٹا ٹوٹتا ہے تو صرف زہر میں بجھے الفاظ اور جملے سنائی دیتے ہیں.
میں نے اسلام آباد میں پروان چڑھ کر بہت توہین سہی، اسکول کالج میں بللینگ برداشت کی، بہت ساری "دوستیں ” ایسی بھی ہیں جو انسانی اور خواتین کے حقوق کی چیمپئنز ہیں مگر ان سے بہاری کمیونٹی کی بات کرنے کی "جرات ” کر کے دیکھ لیں اور آپ کو اندازہ ہو گا کہ تنگدلی ، تعصب ،نفرت اور بدیانتی کتنی خوبصورت شکلوں میں بھی دستیاب ہیں. وطن میں جلا وطنی کا احساس بھی عجب ہے . میں نے ایک نظم بھی اس حوالے سے لکھی تھی، جو میری کتاب "مجھے محبّت سے ڈر لگتا ہے ” جو 1996 میں شائع ہوئی تھی اس میں شامل ہے .
سمجھ نہیں آتا میری بدنصیب کمیونٹی کا مقدّمہ کون لڑے گا ؟ ایک ایسے وقت میں جب غزہ میں جاری نسل کشی ٹی وی پر لائیو نشر ہونے کے باوجود عالمی ضمیر ساکت ہے یا ان طاقتوں کا ضمیر ساکن ہے جو اس المیے کو روک سکتے تھے یا اب بھی روک سکتے ہیں . ہمارے پاس تو کوئی ساؤتھ افریقہ بھی نہیں . جو بہاری بنگلہ دیش میں کیمپس کے باہر بنگالیوں کے ساتھ شادی کے بندھن میں ہیں، ان کی زبان بندی بھی برحق ہے . ان کو پورا حق ہے کہ اپنے بچوں کو محفوظ اور پر سکون رکھیں اور ایک المنک باب کو بھول جائیں . ہندوستانی مسلمان اپنی سزا بھگت رہے ہیں. جو پاکستان میں ہیں وہ اپنی زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہیں . جو یہاں سے مغربی ممالک immigrate کر گیۓ جس کو وہ ہجرت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، ان کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں. ان میں سے چند ایک جو کسی این جی او یا صحافتی منصب کی وجہ سے اس ایشو سے جڑے ہیں، وہ ایک نپے تلے انداز میں بات کرتے ہیں .
کسی حد تک کھل کر بہاریوں کا کیس لڑتے ہوئے بہت کم ہی بہاریوں کو دیکھا. قابل ستائش مثالوں میں شبانہ آپی کی بہادری کو سلام کہ اب بنگلادیشی ہونے کے باوجود ڈھکے چھپے انداز میں ہی سہی پاکستان سے محبّت کرتی ہیں اور بہاری کمیونٹی کا درد سمجھتی ہیں.اسی طرح امریکا میں مقیم محترم احتشام نظامی ہیں یا کناڈا کی محترمہ شاہین کمال ہیں جو ظلم ہم نے سہے وہ بتا تے ہیں . ان کی طرح کراچی کی ماہر تعلیم اور ادیبہ ہماری بہاری کمیونٹی کی محترمہ شہناز پروین ہیں اور اسلام آباد سے محترمہ فرحت پروین ہیں جنہوں نے سقوط ڈھاکہ اور دربدری پر ناول اور کتابیں لکھ دیں. عظمت اشرف صاحب جو اب ٹورنٹو میں ہیں انھوں نے انگریزی کتاب رفیجی قلم بند کی جس کا اردو اور بنگلہ ترجمہ بھی ہوا.
کئی اور بہاری ا فسانہ نگاروں اور شاعروں نے بھی ہماری بےقدری اور بےبسی کو رقم کیا. یہ نہیں پتا کہ ہماری نئی نسل نے اس تمام قصّے میں کتنی دلچسپی لی یا ہم نے ان کو اس طرف مائل کرنے کی کوشس بھی کی ؟ ہم قلم کے ساتھ کتنے ایماندار رہے ؟ راگ یہی آلاپتے رہے کہ ایک ہزار میل دور تھا مشرقی حصّہ ، بنگالی مختلف تھے اور ایسا ہونا ہی تھا یا کسی نے ہمّت کر کے سوال بھی کیا کہ کیا ہمارا قتل ہماری نسل کشی جس کو چھپایا گیا ہماری خواتین کی بے حرمتی جس کو بتایا نہیں گیا ۔ ہماری شناخت کا مسخ ہونا جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ ان دکھوں کو کسی نے جانا ، مانا ، سمجھا ، جانچا ؟ شائد نہیں ؟
جب کھل کر بات ہوگی– مکالمہ ہوگا — یاداشت درست کی جائے گی تو صرف بنگالیوں کے ساتھ کی گئی ناانصافی نہیں بلکہ اور بہت کچھ بھی منکشف ہو گا . . یہ کہاں کا انصاف تھا کہ پاکستانی اشرافیہ کی بے حسی اور ان سے ناراضگی کا غصہ نہتے اور معصوم لوگوں سے لیا گیا ؟ شائد میری پاکستانی قوم ان بے گناہ فوجیوں اور ان کی فملیز کے بہیمانہ قتل پر بھی گریہ کر لے جو ایسٹ پاکستان رائفلز میں بنگالی فوجیوں کی غدّاری کی نذرہوئے. بے کفن رہے۔
ہم سب کو بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے بہاریوں کی بربادی کو نہیں بھولنا چاہیے . زخم تب مندمل ہوں گے جب زخم کے ہونے کو تسلیم کیا جائے اور درد کا درماں ڈھونڈا جائے. مقتدر اداروں اور افراد کو اس سمت کی طرف توجہ دینی ہوگی اور ہماری نمائندہ آوازوں کو ۔۔مخلص لوگوں کو۔۔مینسٹریم اور سوشل میڈیا میں وقت دینا ہوگا . نا صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش اور انڈیا کی کامیابی بھی ایک دوسرے کا مذاق اڑانے یا نیچا دکھانے میں نہیں ہے بلکہ حوصلے اور برد باری کے ساتھ تاریخ کو پرکھنے میں ہے اور اس سے سیکھنے میں ہے .
بہاری کباب کھاتے ہوئے اور بہاری پاکستانی عالمی شہرت یافتہ شاعرہ پروین شاکر کی شہرہ آفاق غزلوں کو سنتے ہوئے سراہتے —- ہوئے تھوڑی سی کشادگی محب وطن پاکستانی بہاریوں کے لیے بھی پیدا کر لیں —-ان کو خیرات کی نہیں محبّت ،عزت اور پاکستان کے لئے دی گی قربانیوں کے اعتراف کی ضرورت ہے .
آپ سب کو رمضان کی رحمتیں مبارک اور عید کی پیشگی مبارک.
رہے نام اللہ کا
———————–
*ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔