بین المذاہب و المسالک ہم آہنگی اور ذاتی تجربات

جن درختوں کی طبیعت میں نرمی ہوتی ہے، ان کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔ نرم مزاج اور خوش اخلاق شخص کے دوست زیادہ ہوں گے ۔انسانیت کو فائدہ دینے والے مذاہب کے پیروکار زیادہ ہوں گے، جس امام کا فقہ آسان اور عام فہم ہو، اس کے متبعین اور پیروکاروں کی تعداد کثرت میں ہوگی ۔امام وہ خطیب جو نرم مزاج اور شیریں زباں ہوں گے، کے مقتدی کثیر تعداد میں ہوں گے ۔نصابی کتب میں عموماً اور مذہبی کتب میں خصوصاً تربیت اور حسن سلوک پر زور دیا جاتا ہے۔ ان کتب میں مذہب کی اشاعت اور ترقی کا راز حسن سلوک کو قرار دیا گیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں رواداری اور یکسانیت کا فقدان تھا۔ محمد بن قاسم اور دوسرے سرکردہ شخصیات کے حسن سلوک نے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔ جس کی وجہ سے اسلام برصغیر پاک و ہند میں بہت تیزی سے پھیلنے لگا ۔ان سرکردہ رہنماؤں کے نام آج بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں۔ متکلم اور واعظ کا ایک ایک لفظ اور ہر جملہ اپنے فرمانبرداروں و متبعین پیروکاروں کے لیے پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہے۔ جس کو معاشرہ حرف آخرسمجھتا ہے۔ اپنے وعظ و نصیحت کے بل بوتے پر ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

دور طالب علمی میں اپنے اساتذہ سے مذاہب اور مسالک سے رواداری اور ہم آہنگی کے متعلق سنتے آئے ہیں۔ مذہبی اور مسلکی اختلاف کو طول دینے یا عوامی سطح پر ان موضوعات کو بیان کرنے سے اکابر علماء منع فرماتے ۔ اس طرح اسلاف علماء کرام مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے یہود کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا تذکرہ فرماتے ۔ یہ تمام نصیحتیں اور وعظ کچھ حد تک محدود رہتیں کہ مدارس اور مساجد کی حد تک ان نصیحت آموز باتوں پر عمل کیا جاتا۔عملی زندگی میں ان مواعظ پر عمل مفقود نظر آتا ہے۔

مختلف شہروں میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے امتیازی سلوک اور ان کی عبادت گاہوں کا تقدس پامال کرنے کے بعد عرق ریزی سے اس موضوع نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس موضوع پر کتب کا مطالعہ، مختلف مضامین کی پڑھائی اور ساتھ دعوہ اکیڈمی اسلام آباد میں پاک کونسل فارورلڈ ریلیجن پاکستان اور ادارہ برائے امن و تعلیم پاکستان کے مختلف ورکشاپس میں دیگر مذاہب وہ مسالک کے متبعین سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان کے عقائد اور نظریات، ان کی اپنی شناخت اور مذہب اپنی جگہ لیکن انسانیت، معاشرتی اقدار، مذہبی تعلیمات، ریاست مدینہ کے اصول اور ملکی وحدت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی ذاتی تشخص، عزتِ نفس اور انسانی زندگی میں ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی ان کی مذہبی آزادی اور امن کی زندگی اور معاشرے کے ساتھ رواداری کا تقاضا کرتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ جب مذہبی افرا تفری، تعصب، فرقہ واریت کو دیکھتا تو یہی سوچ ہمارےمعاشرے میں پیش آمدہ واقعات کی وجہ سے بڑھتے جا رہے تھے۔ جس کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں اس بات نے سرایت کی تھی کہ اپنے مذہب اور مسلک کو مضبوطی سے پکڑو اور کسی کی پرواہ نہ کرو ، ذہن اس شعر کا مصداق بن گیا تھا کہ
مست رہ اپنی ہستی میں نہ چھیڑ کسی ہستی کو
جو چھیڑے تیری ہستی کو مٹا دے اس کی بستی کو

جس کا مفہوم اور مطلب یہی نکالتا تھا کہ اپنے مذہب اور مسلک کی پیروی کرو کسی کا مذہب اور مسلک نہ چھیڑو ، جو بھی اپنے مذہب اور مسلک کے خلاف بات کرتا ہے تو ان کا مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ جھگڑا کرو۔ جو مذہبی اور مسلکی مخالفت کرے گا تو نہ صرف ان کو نقصان دیا جائے گا بلکہ اس کے معاشرے کو سخت اور کڑی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مذہبی اور مسلکی اختلافات میں شدت اور کئی مذہبی عبادت گاہوں کو نقصان یا ان کے پیروکاروں کو جانی اور مالی نقصان نے اس موضوع کی طرف مزید آمادہ کیا اور اپنی طرف کھینچ لیا۔ اختلافات، تعصب، نفرت اور امتیازی سلوک وہ عوامل ہیں جو انفرادی، اجتماعی، مذہبی، مسلکی اور ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔ امن تباہ ہو جاتا ہے۔ ترقی نقصان میں بدل جاتی ہے اور تعمیر تخریب میں بدل جاتا ہے۔ ملکی معیشت گر جاتی ہے۔ انسانی زندگی سستی اور کاہلی کا نمونہ بن جاتی ہے۔ عزت و وقار ذلت کی نظر ہو جاتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔سرمایہ ڈوب جاتا ہے، غربت بے روزگاری ،چوری ا ور ڈکیتی کے ساتھ ساتھ قتل و غارت گری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

مذاہب مذہب کا جمع ہے، جس کا مفہوم و مطلب راستہ، طریقہ ،ایمان ،دھرم اور عقیدہ کے الفاظ سے کیا جاتا ہے۔ مسلک بھی عربی زبان کے الفاظ میں سے ہے ، جس کا مطلب راستہ، راہ، قاعدہ، طریقہ اور دستور کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ہم آہنگی سے مراد متفق الرائے، سُر اور راگ میں شریک لوگ یا ساتھی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ امن بھی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب چین، سکون، اطمینان، آرام ، صلح، آشتی اور پناہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔مندرجہ تینوں حروف کو یکجا کیا جائے اور ان کا آپس میں تعلق قائم کیا جائے تو ان کلمات میں چند چیزیں مشترک دکھائی دیتی ہیں جیسے راستہ، طریقہ، دستور ، اتفاق، ساتھ دینا وغیرہ جن میں امن کا مفہوم مشترک پایا جاتا ہے، جبکہ امن کے بغیر ان پر عمل پیرا ہو نا اور مقصدِ زندگی بنانا یا پرسکون زندگی بسر کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

عقائد اور نظریات کا تعلق انفرادی سوچ اور فکر سے ہوتا ہے ۔ایک شخص ذاتی حیثیت میں اپنی ایک دنیا بساتا ہے۔ اس دنیا میں اس کا اپنے پروردگار سے ایک خاص تعلق ہوتا ہے، جس کے بل بوتے پر وہ زندگی بسر کرتا ہے، اپنی پریشانیاں دُور کرتا ہے، اس سے مدد طلب کرتا ہے اور اس کو یاد کر کے سکون و اطمینان کی زندگی جیتا ہے۔ انفرادی نظریات اور عقائد کی پیروی کرتے ہوئے جس انفرادی سوچ اور فکر کے ساتھ اپنی زندگی آگے بڑھاتا ہے اور جس روش اور طریقے پر وہ زندگی بسر کرتا ہے، وہ اس کے مذہب کی ترجمانی ہوتی ہے جس کو مذہبی زندگی سے موسوم کیا جاتا ہے۔

ایک معاشرے کے کئی افراد مل کر ایک سوچ کو لے کر معاشرے میں امن و مساوات کے لیے کردار ادا کرتے ہیں، اجتماعیت کو پروان دے کر معاشرتی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں جو مقصودِ انسان ہے۔ یہی سوچ اور یہی وہ نقطہ ہے جس میں انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا مقصود بھی یہی اجتماعیت ہے، جس سے ہمیں اتحاد و اتفاق سے زندگی بسر کرنے کی تعلیمات ملتی ہیں۔ مدنی دور ہو یا مکی زندگی، دونوں میں نبوی تعلیمات دیگر مذاہب کے ساتھ اتحاد و اتفاق کا درس دیتا ہے۔ میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ دیگر مذاہب کے ساتھ امن کے فروغ کی خاطر مل جل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ فتحِ مکہ کے موقع پر اہلِ مکہ کی قتل ، جلاوتنی اور قید کرنے جیسے منصوبوں کا انتقام نہیں ملتا، نبوی تعلیم ان کو معاف کرنےاور اہلِ مکہ کی بخشش کا اعلان جیسی خوشخبری ملتی ہے، کہ امن کی بقا اور ترقی کے لیے سب اکھٹے ہوکر دار ادا کریں۔

ائمۂ اربعہ کی اختلافات نبوی طریقوں کی تحفظ اور بقا کے لیے ناگزیر تھا۔ ہر امام نبوی تعلیمات، سنت اورحضور علیہ السلام کی ادا کو محفوظ کرنے کی خاطراپنے پیروکاروں کو مستند ، معتبراور معتمد دلیل پیش کرتے ، دوسرا امام اپنے روایات کو پرکھ کر قوی دلائل پیش کرتے ، جس کی وجہ سے نبوی طریقے، تعلیم، کردار، ادائیں اور فرمودات ہر زمانے میں محفوظ اورمعمول بہ رہیں۔

دور جدید مسائل اور گھمبیر صورتِ حال ، اختلافات و تفرقات میں ائمہ کے اختلاف کو رحمت و برکت سمجھتے ہوئے حضورؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ائمہ اربعہ اور فقہاءِ امت اتحاد و اتفاق کا حکم دیتا ہے۔نفرت، دشمنی، تعصب اور دیگر برائیوں سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے، جن کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی سکون ختم ہو جاتا ہے۔ معاشرتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، قرآن تمام انسانیت کو ایک اللہ کی رسی تلے متحد رہنے کا حکم دیتا ہے کہ اے اللہ کے بندو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو، تفرقے میں نہ پڑو۔ اس کے مقابلے میں اختلاف ہے جس سے بچنے کی تلقین اسلامی تعلیمات سے ملتا ہے۔ قرآنی تعلیمات کو لے کر عمل پیرا ہونا اللہ تعالی کی رحمتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے