مذہبی رواداری و ہم آہنگی اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ یہ انسانی معاشرے میں بنی نوع انسان اور اقوام و مذاہب کے مابین مساوات، معاشی ومعاشرتی ترقی،امن ومحبت اوربلاتفریق رنگ ونسل ایک دوسرے کے لیے بھلائی کی راہیں ہموار کرنے کا سبب بنتی ہے ۔اسی کے توسط سے معاشرے سے منفی جذبات و تعّصبات جو سماجی بگاڑ کا ذریعہ بنتے ہیں، کم ہو جاتے ہیں۔اور نسانی تعلقات میں رواداری اور برداشت کا مادہ فروع پانے لگتا ہے۔ دور حاضر میں اگر رواداری و ہم آہنگی پر مبنی روّیہ اختیار نہ کیا جائے تو معاشرے، ملک وقوم اور مختلف مذاہب کے مابین پرامن بقاءِ باہمی کا عملی سماں پیدا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ لہذا رواداری و ہم آہنگی پر مبنی مثبت روّیہ ہی وہ راستہ ہے، جس سےدنیا میں امن وامان اور سلامتی وخوشحالی کو بحال کیا جاسکتا ہے۔زیر بحث موضوع کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر مذہبی رواداری وہم آہنگی کے سلسلے میں پشاور کے ہندو مذہبی سکالر پنڈت سرپنج ہارون سربدیال کی کاوشوں کو سامنے لانے کی سعی کی گئی ہے۔
"ہندومذہبی اسکالر سرپنج ہارون سرب دیال کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور سے ہے۔انھوں نے ماسٹرز ’’ اسلامک ایجوکیشن ‘‘ میں کیا اور ہندوازم کے مذہبی اسکالر ہ بھی ہیں۔ آپ نے ۱۹۸۶ سے پاکستان میں بالخصوص ہندو برادری اور بالعموم اقلیتی مذاہب کے حقوق کے لیے اپنی کاوشوں کا آغاز کیا۔ امن وامان کے قیام پرآپ کی تقریباً چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ تحقیق، مشاورت اور مذہبی آہنگی کے مختلف منصوبوں پر مختلف حیثیت میں کام کر رہےہیں۔آپ پاکستان میں ہندو مندر منیجمنٹ کمیٹی، منسٹری آف ریلیجس آفیئر کمیٹی اور پاکستان میں مذہبی مقامات کی حفاظت ان کی ایکسپوژر، اس کی اہمیت ریلیجیس ٹوریزم کے فروغ کے لئے اپنی خدمات سر انجام د ے رہے ہیں ۔ اور بیرون ممالک کے مختلف ادراوں کے ساتھ Faith based مختلف ایشیوز پر کام کررہے ہیں۔جناب سرپنج ہارون سرب دیال سماجی اور سیاسی پلیٹ فارمز پر اپنی برادری کی بہتری کے لیے فعال کردار ادا کررہے ہیں۔”
بدامنی،تعصب،فرقہ واریت، سیاسی عدم استحکام اور دہشتگردی جیسی برائیوں کےخاتمے کے لیے ضروری ہے کہ "مختلف مذاہب کے پیروکار چاہے وہ مسلمان ، ہندو، مسیحی،سکھ،بہائی یا پارسی جو بھی پاکستان کا شہری ہے، ان سب کو اپنے اپنے مذاہب کی تعلیمات میں آزادی اور احترامِ انسانیت کے ان تمام تقاضوں کو آسان پیرائے میں سمجھنے کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو کہ پاکستان کے امن وترقی اور باہم رواداری کے فروع میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔کیونکہ امن وامان اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنے مذاہب کی روشن تعلیمات کو تفہیمِ ادیان کی صورت میں نہ سمجھ لیں اور اپنی ذمہ دارویوں کے فہم وادراک کے ساتھ اپنے ہر ممکنہ فرائض کی انجام دہی کو لازمی نہ سمجھیں۔”
امن وسلامتی اور باہم رواداری وہم آہنگی کا تقاضا یہی ہے کہ بنی نوع انسان(بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب) ایک دوسرے کی خیرخواہی چاہتے ہوئے ملک وقوم میں بسنے والے غیرمسلم اقلیتی فرقوں کے ساتھ عدل وانصاف،بنیادی انسانی حقوق( Fundamental Human Rights) کی فراہمی،مذہبی آزادی اور درپیش مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوشش کریں۔ تاکہ معاشرہ افراتفری،انتشار، شر،فساد اور دیگر خرابیوں سے محفوظ رہ سکے۔
پاکستان میں غیرمسلم اقلیتی برادری کو درپیش مسائل کی نشاندہی
سرپنج ہارون سرب دیال صاحب بتاتے ہیں کہ” مذہبی اقلیتی کمیونٹی اور ان کے مسائل آئینی ہیں یعنی ان کے قیام ، ان کے تحفظ ، اور ان کی تعمیر وترقی کے ہیں، جو حل طلب امور ہیں، وہ تا حال سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو پائے ۔”
ایک غیرمسلم پاکستانی شہریت کے حامل اقلیتی برادری کو درپیش مسائل میں سرفہرست مسئلہ ’’یکساں حقوق‘‘ کا ہے۔ ان کے بقول نوے فیصد میجورٹی کمیونٹی یہ سمجھتی ہے کہ مذہبی اقلیت کا اطلاق ان پر ہوتا ہے جو کہ خدانخواستہ پاکستان سے جڑا ہوا نہیں ہے، اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے اور آئین کے آرٹیکل 25 کی روشنی میں یکساں شہریت کے تصوّر کو فروع دینے کی ضرورت ہے۔
• 11 ،اگست ۱۹۴۸ء کو محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ریاستی امور میں مذہب کو عمل دخل نہ ہوگا ،سب برابر کے شہری ہوں گے۔ ہندو مندر، سکھ گردوارا ، کریسچن چرچ اور مسلمان مسجد میں جانے کی آزادی کو حاصل کریں گے . کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد تمام تر فیصلے Dominantمسلم میجورٹی لیڈرز نے کیئے. اس طرح مذہبی اقلیتیں دوسرے درجے کے شہری کی صورت میں دکھائی دینے لگے۔
• اقلیتی برادری کو صوبائی اور قومی اسمبلی سینیٹ میں اپنے نمائندوں کے چناؤ کا حق ووٹنگ یا حق رائے دہی کے ذریعے ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے خواتین اور مذہبی اقلیتوں کی پارلیمان میں آرٹیکل ۵۱ کے تحت سلیکشن کے ذریعے ہوتی ہے ۔اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے اور ہمیں اپنے حق سے محروم کیا گیا ہے۔
• موجودہ قانون میں سات سال گزرنے کے باوجود خیبر پختونخوا،پنجاب اور دیگر صوبوں میں ہندو عائلی قوانین کے اصول وضوابط تاحال نہیں ہیں،جس کی وجہ سے ہماری مائیں،بہنیں اور بیٹیاں عائلی قوانین کی عدم تکمیل کی وجہ سے Lowerسے لیکر Higher Courts میں سینکڑوں کیسسز ان کی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ فیملی کورٹ کے بجائے سول کورٹ کے زیر التوا ہیں،ان کی زندگیاں داؤ پہ لگی ہیں۔
ہارون سرب دیال چئیرمین آل پاکستان ہندؤ رائٹس مومنٹ کا کہنا ہے کہ: ” یہی وجہ ہے کہ مذہبی اقلیتی نمائندوں کو پارلیمان میں لانے کے بعد ایک مخصوص میرٹ بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہر سال ان کی کارکردگی کو پبلک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی نظروں سے کچھ اوجھل نہ ہو اور غفلت یا کوتاہی کی صورت میں آئینی اداروں تک رسائی حاصل کرکے اپنے مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرپائیں،اور یہی وہ حقوق ہیں جو نہ ملنے کی وجہ سے بدامنی ،تعصب، تنگ نظری اور معاشرتی وسماجی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔”
پنڈت ہارون سرب دیال کا "ایک بہترین اقدام پاکستان کی اقلیتی اقتصادی حالت کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے ایک ادارہ رکی بنیاد رکھی جس میں خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان اور اندرونی سندھ سے ہندو،مسیحی اور سکھ برادری جو مختلف مسائل سے دوچار ہیں، ان کو ہنرمند افرادی قوت سے روشناس کروانا ہے۔”
ہندواقلیت ودیگر اقلیتی برادری کے لیے روشن مثال
آل پاکستان ہندو رائٹس مومنٹ کے چئیرمین ہارون سرب دیال اقلیتی برادری کے لیے آپ کی تمام تر کاوشیں ایک روشن مثال کی طرح ہیں، جو ان کو آگے بڑھنے، امن وامان کے فروع اور پاکستان سے محبت کے جذبہ کو بڑھاتی ہے۔آپ مستقبل میں بھی اسی تن من دھن سے قوم کی خدمت اور اقلیتی برادری کے حقوق کے حصول کا ارادہ رکھتے ہیں ۔