کس کا یقین کیجئے، کس کا یقیں نہ کیجئے
لائے ہیں اُس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
کچھ یہی احوال تحریکِ انصاف کا ہے۔ اپنی اپنی بولیاں بولنے والے رہنمائوں کی رنگا رنگ پھُلجھڑیوں سے لوگ لطف اندوز تو ہوسکتے ہیں، یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ پی۔ٹی۔آئی کا اصل موقف کیا ہے؟ اب تو عمران خان اڈیالہ جیل میں ہیں لیکن جب وہ بنی گالہ یا زمان پارک تھے، تو بھی یہی کیفیت تھی۔ آج کل بانی تحریک کے کچھ مقدمات کی سماعت اڈیالہ جیل میں لگی عدالتوں میں ہو رہی ہے۔ وکلا اکثر اُدھر کا رُخ کرتے ہیں۔ اگرچہ اِن ’’سیاہ پوشوں‘‘ میں سے شاید ہی کوئی روایتی معنوں میں ’’وکیل‘‘ رہ گیا ہو۔ سب کے سب سیاست کی طلسمی قبائیں پہن چکے ہیں۔ اِنکی دلچسپیاں خان صاحب کے مقدمات سنجیدگی سے لڑنے اور ان کی برّیت کا سامان کرنے کے بجائے، سیاست میں اپنی جگہ بنانے اور ترقیِٔ درجات کی راہیں تلاش کرنے سے ہے۔ بیشتر اسمبلیوں میں آ چکے ہیں اور اب اگلی اڑان کیلئے دوسروں کے پَر قینچنے میں لگے ہیں۔ یہ ’’وکلا‘‘، کالے کوٹ پہنے، فائلیں اُٹھائے اڈیالہ جاتے، کسی مقدمے میں بے دلی کے ساتھ حُجّت تمام کرتے اور پھر ’’قانونی مشاورت‘‘ کے نام پر خان صاحب کیساتھ بیٹھ کر اپنے سیاسی اہداف کی پرورش و نمُو میں لگ جاتے ہیں۔ باہر نکلتے ہیں تو پھاٹک پہ منتظر کیمروں کے سامنے، اپنے جذبات واحساسات کو خان صاحب کی ہدایات کا جامہ پہنا کرارشاداتِ عالیہ کا چمنستان کھِلا دیتے ہیں۔
ایک خبر علی گوہر دیتے ہیں، دوسری شیر افضل مروت، تیسری لطیف کھوسہ اور چوتھی خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان۔ اِن خبروں میں ’’ہم ابھی خان صاحب سے مل کر آئے ہیں‘‘ کے سوا کچھ بھی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سرِشام خان صاحب تک رسائی رکھنے والے کورٹ رپورٹرز، اپنے چینلز کو پانچویں خبر دیتے ہیں جو عموماً سیاسی آلائشوں سے پاک اور درست ہوتی ہے۔ یہ تمام خبریں بھی ’’جواں مرگ‘‘ ہی ٹھہرتی ہیں۔ ایک آدھ دِن بعد ایک نئی کہکشاں سج جاتی ہے۔ تین چار دِن قبل، نوآراستہ سینٹ میں مسلم لیگ (ن) پارلیمانی پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے تحریکِ انصاف کو پیش کش کی کہ ’’آئیں ہم وسیع تر ملکی مفاد اور سیاسی استحکام کیلئے باہم مل بیٹھیں اور وطنِ عزیز کو بحرانوں کی دلدل سے نکالنے کیلئے ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔‘‘ میری اِس پیشکش کیساتھ ہی ایک دبستان سا کھل گیا۔ اُسی شام ’’جان اللہ کو دینی ہے‘‘ کی شہرت رکھنے والے، پی۔ٹی۔آئی کے شعلہ بیاں راہنما، شہریار آفریدی نے ایک ٹی۔وی شو میں اعلان کیا ’’ہم صرف چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی۔جی۔آئی۔ایس۔آئی سے بات کرینگے۔ عمران خان تو روزِ اوّل سے مذاکرات چاہتے ہیں۔ مگر دوسری طرف سے رسپانس نہیں ملا۔اب جلد مذاکرات شروع ہونگے۔‘‘
اِسی دوران سینٹ میں قائدِحزبِ اختلاف، شبلی فراز نے میری تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کھڑکی کا پَٹ کوئی بال برابر کھولا اور کہا ’’بانی پی۔ٹی۔آئی نے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ پہلے مذاکرات کا ماحول پیدا ہو اور ٹی۔او۔آرز وضع کئے جائیں۔‘‘ ابھی اِس سَرگوشی نما اعلان کی گرہیں کھُل رہی تھیں کہ تحریک انصاف کے ترجمان، رئوف حسن، جیو پر شہزاد اقبال کے شو میں آئے اور پی۔ٹی۔آئی کی پالیسی نہایت دوٹوک، حتمی اورواضح انداز میں بیان کردی۔ رئوف حسن کا کہنا تھا ’’عمران خان نے تین جماعتوں کے بارے میں کہہ دیا ہے کہ چونکہ انہوں نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے، اسلئے ان سے کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ یہ جماعتیں ہیں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم۔کیو۔ایم۔ حکومت کے لوگ صرف مُہرے ہیں۔ نہ یہ قانونی طریقے سے حکومت میں آئے ہیں، نہ یہ ہمیں کچھ دے سکتے ہیں۔
عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی بنائی تھی لیکن اُدھر سے کوئی ردّعمل نہیں آیا۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مذاکرات کسی ڈیل کیلئے نہیں، اُنہیں صرف یہ سمجھانے کیلئے کررہے ہیں کہ وہ سیاست میں دخل نہ دیں۔ انہیں اُن کا آئینی رول یاد دلانا چاہتے ہیں۔‘‘ پارٹی ترجمان کے اِس واضح اعلان کے بعد، کم ازکم فی الحال، پی۔ٹی۔آئی نے حکومتی اتحاد سے بات چیت کےدروازے نہ صرف بند بلکہ مقفل کردئیے ہیں۔ پی۔ٹی۔آئی کی تاریخ بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ سیاستدانوں سے ہاتھ ملانے یا قومی مسائل پر (چاہے وہ کتنے ہی اہم ہوں) بات چیت کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ راولپنڈی یا اس کی ذیلی بارگاہوں سے رشتہ وتعلق میں وہ آغوشِ مادَر کی سی نرمی اور گرمی محسوس کرتی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد کا غوغا اٹھا تو بھی خان صاحب نے رحم طلب نگاہوں سے انہی بارگاہوں کی طرف دیکھا۔ حکومت چلی گئی، صرف تین ووٹوں کی اکثریت سے شہبازشریف وزیراعظم بن گئے تو بہترین وقت تھا کہ پی۔ٹی۔آئی اسمبلی میں رہتے ہوئے سیاسی دائو پیچ آزماتی۔
خان صاحب نے یہ پسند نہ کیا۔ وہ جنرل باجوہ کو سازشی کہتے رہے۔ میرصادق اور میر جعفر قرار دیتے رہے۔ جانور پکارتے رہے۔ لیکن مدد طلب کرنے دو بار اُنہی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اگرچہ بات نہ بنی لیکن انہوں نے کسی سیاستدان کو منہ لگانا گوارا نہ کیا۔ رئوف حسن کے تازہ انکشاف کی روشنی میں اِس امکان کو بھی رَد نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان نے معزولی کے بعد جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں انہیں سیاست سے بازرکھنےکیلئے کی ہوں۔ 2014ءکے چار ماہی دھرنوں کے دوران بھی ایک شام خان صاحب ہونٹوں پر وسیع وعریض مسکراہٹ سجائے جنرل راحیل شریف کے پاس گئے تھے۔ آج تک یہی سمجھا جارہا تھا کہ وہ نوازشریف کو منصب سے ہٹانے کیلئے مدد طلب کرنے گئے تھے لیکن پارٹی ترجمان کے تازہ بیان سے لگتا ہے کہ وہ اُس وقت بھی راحیل شریف کو بتانے گئے تھے کہ آپ صرف اپنے آئینی حلف تک محدودرہیں۔ نوازشریف سے ہم خود نبٹ لیں گے۔
مسئلہ مذاکرات نہیں، صرف یہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی موجودہ گرداب سے نکلنے کی راہیں تلاش کر رہی ہے۔ اُس کے نزدیک مذاکرات کے معنی پاکستان کے مفادات یا سیاسی استحکام نہیں، عمران خان کے مقدمات کا خاتمہ اور رہائی ہے۔ اسکے نزدیک مذاکرات کے معنی پبلک کو معاشی بحران سے نکالنا نہیں، کسی نہ کسی طور خان صاحب کو پھر مسندِ اقتدار پر بٹھانا ہے۔ اُسکے نزدیک مذاکرات کے معنی دہشت گردی جیسے مرض پر قابو پانا نہیں، 9 مئی کی غارت گری کو عفو و دَرگزر کا جامۂِ زیبا پہنانا ہے۔ پی۔ٹی۔آئی بخوبی جانتی ہے کہ یہ خیرات اُسے کس گھر سے ملے گی۔ حکومت مذاکرات کو پاکستان، اور پی۔ٹی۔آئی، عمران کے حوالے سے دیکھتی ہے۔
وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سےبڑے این۔آر۔او کو ’’مذاکرات‘‘ کے ریشمی لبادے میں لپیٹ کر اپنی حیاتِ نو کے جتن کر رہی ہے۔ سو بجا طورپر اُس کی جبینِ نیاز میں اُسی چوکھٹ کیلئے ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں، جہاں سے اُسکے زخموں کی چارہ گری ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم۔کیو۔ایم سے اُسے کیا لینا؟ وہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس یہ سمجھانے نہیں جا رہی کہ اپنے آئینی تقاضوں کے مطابق، سیاست سے دور رہو، یہ التجا کرنے جا رہی ہے کہ باجوہ اور فیض حمید کے ’’عہدِزرّیں‘‘ کی طرح، تم بھی لنگرلنگوٹ کَس کر سیاست میں کودو اور موجودہ حکمرانوں کو ’’نوازشریف‘‘ بناتے ہوئے، ہمیں تختِ طائوس پر بٹھا دو۔ کون سمجھائے کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا۔ 9مئی حالات میں بہت بڑی جوہری تبدیلی لاچکا ہے۔