حسیب اقبال کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک بہت خوبصورت شہر "جسے محلات کا شہر کہا جاتاہے” بہاولپور سے ہے۔ آپ کا خاندان ایک تعلیم یافتہ خاندان ہے۔ ان رجحان میڈیکل کی طرف تھا لیکن حسیب اقبال نے سوشل ورک میں بی،اے، ایم، اے اور ایم فل کیا ہے۔
حسیب اقبال کہتے ہیں کہ میری والدہ نے سوشل ویلفیئر میں ملازمت کی۔ جہاں پر میں اپنی والدہ کے ساتھ بچپن سے جایا کرتا تھا۔ میں نے بے بس عورتوں اور انتہائی غریب لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے آتے دیکھا۔ دو ،دو کلو آٹے کے لیے سارا سارا دن دھوپ میں کڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان بے بس ماؤں کے ساتھ ان کے بچوں کی آہ و فریاد دیکھی، تب سے میں نے فیصلہ کیا کہ میں نے بڑے ہو کر ان غریبوں اور لاچاروں کی مدد کرنی ہے۔
سوشل ورک کا نظریہ مجھے اپنی پیاری والدہ سے ملا، میں نے ایف- ایس- سی کے بعد سوشل ورک میں ماسٹرز کرنے کا ارادہ کیا تو والدہ کے علاؤہ تمام خاندان والے مجھ پر ہنس رہے تھے کہ آپ نے سوشل سائنس میں ماسٹر کر کے کیا کرنا ہے؟ میڈیکل میں جا کر پیسے بھی زیادہ کماؤ گئے اور عزت بھی ۔ لیکن میں نے تہیہ کیا تھا کہ غریب و بےآسرا ،اور بےیارو مددگار لوگوں کی خدمت میں نے یہاں سے کرنی ہے۔
میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں اپنی والدہ کے بڑے مشن یعنی غریبوں کی مدد اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کی پاسداری پر کام کروں۔ امی نے ہمیشہ امن کی بات کی، یہی وجہ تھی شاید کہ جب میں نے پروفیشنل لائف میں کچھ سال کام کیا۔ تو امن اور عورتوں کے حقوق کی پاسداری کے تمغے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مجھے ملے۔
اکثر ہمیں دوسرے مذاہب کے لوگوں سے نفرت اور دوری کا سبق دیا جاتا ہے۔ لیکن میں نے ساری عمر اپنی امی کو اس نظریے کے خلاف پایا۔ میں نے دیکھا کہ والدہ کے پاس اکثر غریب کرسچن عورتیں آیا کرتی تھیں اور امی ان سے انتہائی ادب اور خوش اسلوبی سے پیش آتی تھیں۔ یہ مذہبی رواداری کا نظریہ مجھے میری امی سے ملا۔ ہمیشہ انھوں نے ہمیں سمجھایا کہ اگر عزت دو گے تو عزت ملے گی۔ خواہ وہ دوسرے مذاہب سے ہو یا رشتہ داروں سے۔
والدہ کی مذہبی رواداری، امن اور پسے ہوئے طبقات کی خدمت، ان کے حقوق کی جنگ، اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کی لڑائی، میرے جسم کے رگ رگ میں بس گئی اور ساری عمر، ان نظریات پر عمل کا درس مجھے میری امی جان کے کردار سے ملا۔
حسیب اقبال نے پروفیشنل کیریئر کا آغاز بچیوں(لڑکیوں) کی تعلیم کی فراہمی سے کیا۔ تقریبا تمام صوبہ پنجاب اور سندھ میں لڑکیوں کی تعلیم کا حال دیکھا۔ جو کہ بہت برا نہیں تو اچھا بھی نہیں تھا۔ حسیب اقبال کا کہنا تھا کہ ہم نے کئی نان پنکشنل سکولوں کو دوبارہ آباد کرایا۔ کئی نئے سکول کھولے۔ کچھ جگہوں پر استانیوں کی کمی کو پورا کیا۔ کئی علاقوں میں لوگوں اور پنچایتوں کو جو کہ عورتوں کی تعلیم کیخلاف تھے کو سمجھایا۔ اور ان لوگوں نے اپنے ہی حجروں سے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سہولیات فراہم کیں۔
پچھلے کئی سالوں سے مختلف اداروں کے ساتھ امن و سلامتی پر کام شروع کیا ہے۔ امن پر پاکستان کے کونے کونے سے میڈیا انفلونسرز کو بلایا اور ان کو ٹریننگ دی کہ کیسے میڈیا کو ہم امن کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ تقریبا 300 کے قریب جرنلسٹوں، جن کا تعلق بلوچستان، خیبر پختون خواہ، سندھ، پنجاب اور گلگت بلتستان سے ہے۔ ابھی تک صحافت کے وہی ستارے امن کہانیاں، صوفی آشہ، امن کی آشہ کے ناموں سے مختلف چینل چلا رہے ہیں۔ اور تقریبا تمام پاکستان میں امن کی ایک ہوا چل رہی ہے۔
حسیب اقبال کہتے ہیں کہ امن کا نظریہ میرا تب زیادہ پکا ہوا۔ جب میں نے اپنے ایم فل کا مقالہ لکھا۔ اس دوران میں نے سیکھا کہ وہ کون سے پلرز ہیں جن سے امن آ سکتا ہے۔ میرے ایم فل کے ریسرچ نے میری سوچ اور کام کو اور زیادہ نکھار بخشا۔
حسیب اقبال کو عورتوں کے حقوق، امن اور تعلیم پر کام کرنے کے عوض ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے اور اب تک جناب نے پاکستان کی نمائندگی دبئی، نیپال، کانگو، یوگانڈا ،اور تھائلینڈ میں کر چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کانگو اور یوگانڈا میں لوگوں کی غربت نے مجھے بہت دکھی کیا۔ میں نے دیکھا کہ بچے غربت اور بھوک سے نڈال ہیں۔ جب میں نے ان کی کچھ خدمت کی تو دل کو تھوڑا اطمینان تو ہوا لیکن ان کی غربت اور بھوک و افلاس کی وہ آہیں مجھے آج بھی بہت تنگ کرتی ہیں.
حسیب اقبال پاکستان کا وہ ستارہ ہیں جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔ جہاں ہمارا ملک بہت خراب عادات اور خراب رویوں کے لیے مشہور ہے۔ وہاں پر ہم فخریہ انداز میں بہاولپور کے جوان کو پیش کر سکتے ہیں۔
حسیب اقبال صاحب اصل میں محترمہ والدہ صاحبہ کی محنت اور کردار کا ثمرہ ہیں۔ تو اگر ہم والدہ صاحبہ کو دعا اور سلام پیش نہیں کریں گے تو زیادتی ہوگی۔
دعا ہے کہ ہمارے پیارے دیس پاکستان کو حسیب اقبال کی طرح جوانوں سے نوازے اور دعا گو ہیں کہ حسیب اقبال کی ہمت امن وآشتی کے لیے اور بڑھئیں۔ آمین یا رب العالمین۔