مذہبی اور مسلکی اختلافات کے بھیانک نتائج

زندگی سے وابستہ ہر شعبے میں کامیابی اور ترقی کا دارومدار ،امن پر ہے۔ امن کی بقا ہی خوشحالی اور سکون کا ذریعہ ہے۔ امن کے بغیر انفرادی سکون کا حصول ممکن ہے نہ اجتماعی خوشحالی۔ امن ہی قوموں کی ترقی کا راز ہے ، جبکہ بدامنی قوموں کے زوال کا سبب ہے۔امن کا قیام ایک کھٹن مرحلہ جبکہ اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک بہانہ۔ امن دودھ کا ایک بیش بہا ذخیرہ جبکہ بدامنی اور اختلافات اس دودھ کے لیے خمیر کا قطرہ۔

بد امنی، دہشت گردی، خوف، افرا تفری، بغاوت اور عدم استحکام امن کے متضاد افعال ہیں۔مذکورہ اسباب کے ہوتے ہوئے امن کے خواب دیکھنا بعید از قیاس ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عدم استحکام اور بدامنی ملکی اور معاشرتی تنز لی کی وجوہات میں سے ہیں۔ اختلافات ، عدم برداشت اور ناخواندگی ایسے مسائل ہیں، جن سے بد امنی بڑھتی ہے، تنزلی شروع ہو جاتی ہے، معاشرہ اور عوام ظلم و بربریت کی چکی میں پس جاتے ہیں، تعلیم کی کمی، عدم برداشت اور اختلافات ایسے عناصر ہیں ، جن پر قابو پانا علاقائی سطح پر ممکن ہے، لیکن ان عوامل کو وہ توجہ نہیں دی گئی، جس کی ضرورت تھی ۔اعراض اور چشم پوشی کی وجہ سے معاشرے میں کئی مسائل پروان چڑھے، جن کو فی الفور قابو کرنا اور حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ مذہبی نمائندے، ائمہ و خطباء معاشرے کی ترقی، امن و خوشحالی میں عظیم کردار ادا کر رہے ہیں، جس کی ہر سطح پر پذیرائی ہوتی ہے اور داد بھی دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے بعض جگہوں پر بعض مسائل و کچھ غیر ضروری اور اختلافی موضوعات عوامی سطح پر بیان کرنے سے کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جو نہ صرف مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں بلکہ کئی مواقع پر جانی نقصان اور انسانی زندگی سے ہاتھ دھونے کا سبب بن جاتا ہے۔ اختلافی مسائل کو زیادہ توجہ دے کر عوامی سطح پر بیان کرکے معاشرے میں ایک غیر یقینی، تذبذب اور شکوک و شبہات بھرے ماحول جنم لیتے ہیں، جن سے ایک چھوٹا سا گاؤں، قصبہ اور علاقہ اختلافات کا شکار ہو کر آپس میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔اس تقسیم کی بنیاد پر کئی مسائل جنم لیتے ہیں، جن کو ذیل کے حروف میں ذکر کیا جاتا ہے۔

ماضی قریب میں حجر وں اور ڈیروں کا رواج عام تھا۔ چھوٹے بڑوں کی محفل میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھتے تھے۔ اخلاق ، آداب ، رسم و رواج، موقع محل گفتگو، معاشرتی مسائل، ملکی و ملی وحدت اور اس کے لیے کردار ادا کرنا جیسی خوبیاں نئی نسل میں منتقل ہوتیں اور تربیت حاصل کرتے۔ حجروں کی معدومیت، وقت کی کمی ، بچوں ، نوجوانوں اور جوانوں کو نصاب سے عدم فرصت اور بڑوں کی محفل سے لاتعلقی نے کئی مسائل پیدا کیے، رہی سہی کسر موبائل فون کے لا محدود اور غیر مثبت استعمال نے پوری کر دی، یوں اتفاق اختلافات میں بدلنے لگے، ادب و احترام کی فضا ختم ہونے لگی اور امت کی اتحاد و اتفاق کی لڑی بکھرنے لگی۔

مدارس اور مساجد عمومی طور پرمعاشرے اور خصوصی طور طلباء کی تربیت میں اعلیٰ کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی تربیت خاص طور پررجسٹرڈطلباء تک محدود رہتی ہے۔ خصوصی اور مخصوص درس و تدریس کی بناء پر عصری علوم سے وابستہ نوجوانوں اور طلباء کو بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ یوں دینی مدارس کے طلباءسکول یا کالج سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ کالج و یونیورسٹی طلباء مدارس سے نالاں رہ جاتے ہیں ۔ دونوں کے بیچ فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں اور یہیں سے ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ضائع ہو جاتا ہے۔

دوسری بڑی وجہ مدارس اور مساجد کاایک خاص مکتب فکر سے وابستگی کی بنیاد پر محدود ہونا ہے ،جو دوسرے مکتب فکر والوں پر یہ دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مساجد اور مدارس محدود ہو کر رہ گئے اور ایک خاص جماعت تک محدود ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔بدقسمتی سے بعض مساجد پر مخصوص مکتبِ فکر کے علاوہ دوسرے مکاتبِ فکر کو داخل ہونے کی اجازت نہیں جیسے اعلانات چسپاں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں مذہب اور مسلک کو جمود کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

خاص مکتب فکر سے وابستگی کے ساتھ ساتھ مروجہ علوم کی درس و تدریس سے دیگر مذاہب اور مسالک سے اختلافات بڑھنے لگے ۔ ان میں شدت آنے لگی، جن کی وجہ سے معاشرے کی شیرازہ بندی بکھرنے لگی، بہت سے مسائل نے جنم لیا، جس کی لپیٹ میں نہ صرف ایک خاص علاقہ آ جاتا ہے بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر لوگ اشتعال میں آ کر بغاوت ، بدامنی اورفسادات برپا کر دیتے ہیں۔ جو لامحدود مسائل کو جنم دیتے ہیں۔یوں مذہبی اختلافات بدامنی اور فسادات میں بدل جاتے ہیں، جس کےنتیجے میں دنیا کو اختلافات، بدامنی اور فسادات کا پیغام پہنچ جاتا ہے اور مذہب ایک کمزور تصویر پیش کر رہا ہوتا ہے۔

علمی مباحث لیکن اختلافی اور غیر ضروری موضوعات کو ترویج دینے سے معاشرے کا اتفاق اختلاف میں بدل جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ پیش کرتا چلوں کہ ایک مرتبہ لیکچر میں مصروف تھا، طلباء کو نصابی کتاب سے متعلق موضوع پر لیکچر دے رہا تھا۔ دورانِ درس موضوع اور ماحول سے ہٹ کر ایک طالب علم کہنے لگا کہ "مردے سنتے ہیں یا نہیں” اس سوال کے پوچھنے پر ساری جماعت ہنسنے لگی اور موضوع سے توجہ ہٹ گئی۔ اس دوران محسوس ہوا کہ تعلیمی اداروں میں ان موضوعات کو چھیڑنا اور ان سوالات پر بحث کرنا تعلیمی اداروں کے ماحول کو نقصان دینے کے سوا کچھ نہیں ۔ ان مسائل کو لا کر عصری علوم اور اس سے وابستہ طلباءکو غیر ضروری مباحث میں الجھا کر مقصود سے دور ہو جائیں گے، جو نہ صرف طلباء بلکہ اساتذہ کے لیے بھی دردِ سر بن جائے گا۔ اس طرح کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک ہیئر ڈریسر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ شاپ پر موجود سارے لوگ اپنی باتوں میں مصروف تھے۔ کچھ دیر بعد ایک شخص کہنے لگا کہ مولوی صاحب ایک بات پوچھوں ؟ آپ کن لوگوں میں سے ہیں ؟ مردے سننے والوں یا نہ سننے والوں میں سے؟

مسلکی اختلافات بسا اوقات انتہائی شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ رہائش پزیر ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو بڑی مساجد ہیں۔ دونوں مساجد کے خطباء الگ الگ مکتب فکر کے نمائندے ہیں۔ ایک مسجد عید گاہ بنانے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے جبکہ دوسری مسجد کا امام صاحب اس فیصلے کے خلاف کرتا آ رہے ہیں اور مخالفت برائے مخالفت کی روش جاری ہے۔ دونوں فریقین کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعات رو نما ہو چکے ہیں۔ ایف آئی آر درج ہوتی رہیں، جس میں دو طرفہ اختلافات اتنی شدت اختیار کر گئے کہ عید گاہ کمیٹی کے ذمہ دار اور سربراہ کے بیٹے کو بھی سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مارا پیٹا گیا۔

مذہبی تہواروں جیسے ختم القرآن اور درس ِقرآن کے دوران لاؤڈ سپیکر کی آواز قریبی دیہاتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ تیز آواز پر کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ اس وجہ سے کسی بچے، بیمار، معذور، بوڑھے یا دوسرے مساجد و مدارس میں قرآن کی درس ، تلاوت و نماز میں مصروف شخص کو دقت و مشقت اور تکلیف کا اندیشہ ہے۔ کوئی شخص اذیت، تکلیف اور مصائب سے گزر رہا ہو؟ کبھی اس طرف دھیان یا توجہ نہیں دی گئی۔ایسے حالات کسی کو قریب کرنے کے بجائے دور کر دیتے ہیں۔

ایک مرتبہ ایک مسجد کمیٹی نے ختم القرآن تقریب کے لیے کچھ اشتہارات شائع کیے۔ مختلف جگہوں پر پوسٹر اور اشتہارات لگوائے گئے۔ایک اشتہار دوسرے مسجد کے اندرونی دروازے پر لگایا گیا۔ دوسرے مسجد کے امام صاحب کے کہنے پر ایک طالب علم مسجد پر لگائے گئے اشتہار کو ہٹا دیتا ہے، لگانے والوں نے چھوٹے طالب علم بچوں کو پکڑ کر سخت مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے دو خاندانوں میں جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا، جبکہ ائمہ اور خطباء صاحبان خاموش تماشائی بن کے صورتحال کو دیکھتے رہے۔

مندرجہ بالا واقعات آنکھوں دیکھا حال ہے۔ ان مسائل سے جہاں رہائش پذیر ہوں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ہمارے سامنے ایسے بہت سے واقعات ہیں ،جن کی بنیاد پر دو طرفہ مذہبی اختلافات میں شدت کے سبب خونریزیاں ہوئیں، لوگ قتل ہوئے، مساجد و مدارس ڈھائے گئے اور تالے لگائے گئے۔ روزمرہ مشاہدے کی بات ہے کہ بعض مرکزی مساجد میں اختلافات کے سبب ایک امام دوسرے امام و خطیب کے محلے کے جنازوں میں شرکت نہیں کرتے، غمی خوشی اور مذہبی تہواروں میں ایک دوسرے کے قریب نہیں جاتے، اختلافات کی شدت کے سبب گمراہ، فسادی، متشدد، لعین، کذاب ، دجال جیسےالقابات کے فتوے اورحکم جاری کرنا ایک مختصراور آسان سی بات بنی ہوئی ہے۔

چھوٹے موٹے اور فروعی اختلافات ہوتےرہتے ہیں، جن کے متعلق علماء، خطباء اور فقہاء کے درمیان اختلافات چلتے آ رہے ہیں۔ جب یہ مسائل عوام کے سامنے آ گئے اور عوام میں سرایت کر گئےتو معاشرے کے ساتھ خواص بھی مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گئے، جس کا خمیازہ بہت سخت اور مشکل طریقے سے بھگتنا پڑرہا ہے۔مذہبی اور مسلکی اختلافات نے عوام کو ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہائش پذیر دو یا تین محلوں کے لوگ اختلافات میں اتنے آگے بڑھ گئےہیں کہ آپس میں خوشی و غمی کے تقریبات میں شرکت کرنا، جنازوں اور دعاؤں میں شریک ہونا، دعا و سلام کرنا مفقود ہو گیا ہے۔ موجودہ دور میں اختلافی اورفروعی مسائل پر عوامی اجتماعات میں بحث علاقائی اختلافات پیدا کرنے اور نفرت میں شدت لانے کے مترادف ہے، جو خونریزی، ظلم و تشدد اور بربریت تک بات پہنچا دیتی ہے۔ اختلافی مسائل اور موضوعات پر بحث کرنا معاشرے کے لیے نقصان کا سبب ضرور ہے فائدہ کچھ نہیں۔اس کی جگہ اتفاقی مباحث کو بیان کرنا، معاشرے کے اتحاد و اتفاق کی علامت ہے۔اتفاقیات کو ترقی دے کر مسلکی و مذہبی تقسیم کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اختلافات کو بھلا کر امت اور قومیت کی تقسیم کو ختم کیا جا سکتا ہے اور اتحاد کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے