فاتو بنسودا اس وقت لندن میں مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا کی ہائی کمشنر ہیں۔اس سے پہلے وہ نو برس(دو ہزار بارہ تک اکیس ) انٹرنیشنل کرمنل کورٹ ( آئی سی سی ) کی چیف پراسیکیوٹر رہیں۔اس سے پہلے وہ گیمبیا کی اٹارنی جنرل اور وزیرِ قانون اور روانڈا میں نسل کشی کے مقدمے کی سماعت کرنے والے بین الاقوامی ٹریبونل کی مشیر رہیں۔
دو ہزار پندرہ میں جب فلسطینی اتھارٹی نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو تسلیم کیا تو اسرائیل نے فلسطین کی رکنیت روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔فلسطینی اتھارٹی نے رکن بنتے ہی آئی سی سی کو درخواست دی کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں جن انسان دشمن پالیسیوں پر مسلسل عمل پیرا ہے۔ عدالت بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ان پالیسیوں کے بارے میں ایک جامع فیصلہ دے۔ آئی سی سی کے پراسیکیوشن آفس نے فلسطینی اتھارٹی کی درخواست قبول کر لی۔
اگرچہ اسرائیل آئی سی سی کے قانونی دائرہ کار کو تسلیم نہیں کرتا پھر بھی اسے آئی سی سی سے دو خوف ہیں۔اول یہ کہ اگر مقبوضہ علاقوں میں جرائم ثابت ہوتے ہیں تو پھر اسرائیل ’’ عالمی یہود دشمنی ‘‘ کی جس نظریاتی بنیاد کو اپنی تاریخی مظلومیت کا ہتھیار بنا کے مغربی ممالک کی رائے عامہ اور اسٹیبلشمنٹ کو اب تک ہر طرح کے فوجی، اقتصادی اور عسکری فوائد سمیٹنے کے لیے بلیک میل کرتا آیا ہے۔ فردِ جرم عائد ہونے کی صورت میں سارے احتیاط سے تیار کردہ مظلوم تاثر کا کریا کرم ہو سکتا ہے اور رائے عامہ کو پتہ لگ سکتا ہے کہ مظلوم کے بھیس میں دراصل کس طرح کا ظالم پوشیدہ ہے۔
دوسرا خوف یہ لاحق ہے کہ اسرائیلی قیادت اور اعلیٰ حکام اگر انسانیت سوز جرائم کی فردِ جرم کی زد میں آتے ہیں تو پھر ان کا ملک سے باہر نکلنا دوبھر ہو جائے گا۔ وہ آئی سی سی کے عالمی دائرہِ اختیار کو تسلیم کرنے والے ایک سو چوبیس ممالک میں جہاں بھی جائیں گے۔ میزبان ملک پر ان کو گرفتار کر کے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے حوالے کرنا قانوناً لازم ہو جائے گا۔
اتنا خوف ہے کہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی ذرایع کے مطابق کئی فوجی افسروں اور بیوروکریٹس نے مقبوضہ غربِ اردن میں تعیناتی سے انکار کردیا۔مبادا کل کلاں ان کا نام بھی آئی سی سی کی ممکنہ فردِ جرم میں نہ آجائے۔پچھلے مضمون میں ہم تفصیل سے جائزہ لے چکے ہیں کہ کم و بیش انھی خدشات کے سبب امریکا نے بھی آئی سی سی کا وجود اب تک باضابطہ تسلیم نہیں کیا۔
چنانچہ اسرائیل نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے خلاف گزشتہ دس برس سے ایک بھرپور غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔برطانوی اخبار گارڈین اور اسرائیلی جریدے نائن سیون ٹو کی حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی خواہش پر موساد نے چیف پراسیکیوٹر فاتو بنسودا سمیت متعدد اعلیٰ آئی سی سی اہلکاروں کی کانفیڈنشل ای میلز ہیک کرنی شروع کر دیں۔اہلِ خانہ کی نجی تصاویر افشا ہونے لگیں۔ مختلف ذرایع سے دھمکیاں ملنے لگیں۔ مقصد ایک تھا کہ کسی طرح آئی سی سی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی جرائم کی چھان بین سے باز رہے۔
انسانی حقوق سے متعلق الحق اور فلسطین سینٹر فار ہیومین رائٹس سمیت جن سرکردہ فلسطینی تنظیموں نے آئی سی سی کو تحقیقات میں مدد دینے کے لیے مستند مواد فراہم کیا۔ان کے دفاتر پر اسرائیلی انٹیلی جنیس ادارے شن بیت کے ایجنٹ چھاپے مارنے لگے۔دی ہیگ سے ان تنظیموں کو آنے والے فون باقاعدگی سے ٹیپ کیے جانے لگے۔ان تنظیموں کو ’’ دھشت گردی ‘‘ کی فہرست میں ڈالنے پر بھی غور کیا گیا۔
ان کی بیخ کنی کے لیے فوجی انٹیلی جنس (امان) اور سائبر انٹیلی جنس ڈویژن یونٹ بیاسی سو کے وسائل جھونک دیے گئے۔اس پورے آپریشن کی نگرانی موساد کے سابق سربراہ اور قومی سلامتی کے موجودہ مشیر یوسی کوہن کے سپرد کی گئی۔
جیسے ہی جنوری دو ہزار پندرہ میں آئی سی سی کی چیف پراسیکیوٹر بنسوتا نے فلسطین کے حالات پر تحقیقات شروع کیں۔اس کے کچھ دن بعد دو نامعلوم افراد نے ان کے گھر پر ایک لفافہ ڈلیور کیا۔اس میں چند سو ڈالر اور ایک پرچی تھی جس پر اسرائیل کا کوئی فون نمبر لکھا ہوا تھا۔اس حرکت سے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ہم آپ کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھ رہے ہیں۔ چنانچہ دی ہیگ جہاں آئی سی سی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔وہاں بنسوتا کے گھر کے باہر ڈچ سیکیورٹی حکام کو اضافی کیمرے اور پہرے کا انتظام کرنا پڑ گیا۔
یوسی کوہن نے دو ہزار سترہ سے انیس کے درمیان بنسوتا کو کئی بار براہِ راست فون کر کے تحقیقات سرد خانے میں ڈالنے کا مشورہ دیا۔کوہن نے اس عرصے میں بنسوتا سے تین بار اس بہانے ملاقات کی کہ وہ بھی فلسطینیوں کے بارے میں کچھ مواد ان کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئی سی سی کی تحقیقات شفاف اور غیر جانبدار ہوں۔ہر ملاقات میں کوہن کا لہجہ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہوتا گیا۔آخری ملاقات میں یوسی کوہن نے براہِ راست دھمکی دی کہ ’’ اگر تم ہماری مدد کرو گی تو ہم بھی تمہارا خیال رکھیں گے۔خود کو ایسی حالت میں مت پھنساؤ کہ تمہاری اور اہلِ خانہ کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے ‘‘۔
کوہن نے آئی سی سی کی چیف پراسیکیوٹر فاتو بنسوتا کی یہ تحقیقات داخلِ دفتر کروانے کے لیے ان کے قریبی دوست کانگو کے سابق صدر جوزف کبیلا سے بھی دباؤ ڈلوایا۔
مارچ دو ہزار بیس میں ٹرمپ انتظامیہ بھی آئی سی سی حکام کو ہراساں کرنے کی گیم میں کود گئی۔کیونکہ اس کو خدشہ تھا کہ کہیں آئی سی سی کی توجہ افغانستان میں ممکنہ امریکی جنگی جرائم کی جانب نہ مڑ جائے۔امریکا بھلے آئی سی سی کا رکن نہ ہو مگر افغانستان تو اس عدالت کو تسلیم کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔
ٹرمپ کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے الزام لگایا کہ آئی سی سی کی چیف پراسیکیوٹر سمیت متعدد اہلکار مالی کرپشن میں ملوث ہیں۔ان سمیت آئی سی سی کے کئی عہدیداروں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔اس پابندی کو بعد ازاں بائیڈن انتظامیہ نے واپس لے لیا۔
مگر سب حربے ناکام ثابت ہوتے چلے گئے۔ آئی سی سی کی چیف پراسیکیوٹر نے دسمبر دو ہزار انیس میں اعلان کیا کہ اس بابت کافی ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں کہ اسرائیلی سیکیورٹی ادارے اور مسلح آبادکار اور بعض فلسطینی مسلح گروہ جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔
پراسیکیوٹر بنسوتا نے مارچ دو ہزار اکیس میں اسرائیلی جرائم کے بارے میں باضابطہ تحققیات کا آغاز کر دیا۔چند ماہ بعد بنسوتا اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئیں۔مگر اسرائیل کو بین الاقومی قوانین کے تابع لانے کے لیے راستہ کھول گئیں۔اس راستے پر ہی چل کے موجودہ پراسیکیوٹر کریم خان نے پہلی بار جنگی جرائم کا حصہ بننے کے الزام میں کھل کے اسرائیلی وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع کا نام لیا اور یوں ایک عالمی ادارے نے اسرائیل کو مسلسل بچانے کے لیے مغربی ممالک کی بچھائی ہوئی سرخ لائن عبور کر لی۔مگر کریم خان کی روزمرہ زندگی بھی ان دنوں ہر جانب سے دباؤ کے سبب اتنی ہی اجیرن ہے جتنا مشکل وقت ان کی پیش رو بنسوتا نے گزارا۔
بشکریہ ایکسپریس