المیہ پاکستان : میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟

ننگے ،بھوکے، منافق، مفاد پرست ، متعصب ، مکار، "مکڑ” اور نجانے کن کن "پیار ” کے ناموں سے بہت سے "مقامی پاکستانی ” جو ہجرت کے صدمات اور بے دری کی تلخیوں سے کبھی آشنا نہیں رہے، کئی بے حیثیت لوگوں کو جو پاکستان سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں’ جانتے اور پکارتے ہیں .

میں خود آج تک توہین اور تذلیل کی مختلف اشکال سے نبرد آزما رہتی ہوں . لیکن ان سب کے باوجود میں پاکستان کے ہر خطے اور اور ہر لہجے سے محبّت ختم نہیں کر سکتی . لوگ بنیادی طور پر پیارے ہوتے ہیں مگر وہ کسی” طلسم” کا شکار ہوکر کسی کے لئے ناقابل برداشت اور ظالم بن جاتے ہیں .

میں نے ہمیشہ امن ،صلح ، سچ کو مان کر اور زخموں کو سینے کی بات کی ہے اور میری زندگی اس بات کی گواہ ہے. مجھے "سابقہ مشرقی پاکستان ” کے بنگالیوں کے ساتھ سابقہ "ویسٹ پاکستان ” کے اشرافیہ کی کی گئی نا انصافیوں کا پورا ادراک ہے .

پسے ہوئے جن بنگالیوں کو عوامی لیگ نے متاثر کیا اور جو مکتی باہنی بن گئے وہ ٹیچر ، آرٹسٹ ، سٹوڈنٹ ، ملا ہونے کے باوجود انسانیت کے شرف سے گر گئے اور سارا غصہ نہتے پاکستانی بہاریوں پر اور فوجیوں کی فیملیز پر نکال دیا . پنگھوڑے کیا ماؤں کے پیٹ میں بچوں کو بھی نا چھوڑا. ان کی بغاوت کامیاب ہوئی اور آزادی کی تحریک کے نام سے ان کی نئی نسل کو پڑھائی گئی .

میں نے ضبط کے کمال کو بارہا آزمایا ہے . ایک بار امریکا میں ایک فیلو شپ کے دوران ایک ایسے بنگالی گھرانے کو میرا ہوسٹ بنایا گیا جن کے سربراہ کا کمیونٹی میں بہت نام اور مقام تھا اور ان کی وجہ شہرت "فریڈم فائٹر ” تھی یعنی وہ سابقہ مکتی باہنی تھے جنھوں نے کئی بہاریوں کو جو پاکستان کی فوج کے ہمدرد تھے اور ملک کو ٹوٹنے سے بچانا چاہتے تھے اور اس کا ساتھ دیا تھا، اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا . ستم یہاں پر ختم نہیں ہوا بلکہ میرے ساتھ جو پاکستانی تھے اور کچھ تو اقتدار میں بھی ہیں، ان سے ایک لفظ بھی نہ بولا گیا اور میں ہی گروپ سے علیحدہ سی رہی . میں نے اس مشکل اور کربناک وقت کو ہمدلی اور صبر کے ٹولز کے ساتھ الله کی مدد سے نپٹایا . بات میری ذات کی نہیں ہے بات ہے، پاکستان کی جس کی اہمیت یا قدر کو صرف وہ لوگ ہی جان سکتے ہیں جن کا سب کچھ پاکستان ہے اور ان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ پاکستان میں ہی ہے .

حمود الرحمٰن کون تھے ؟

آج کل ایک کمیشن کی رپورٹ کا ایک خاص پولیٹیکل تناظر اور بیانیے کی بابت چرچا ہے . حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ- کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ حمود الرحمٰن کون تھے ؟ حمود الرحمٰن یکم نومبر 1910 کو پٹنہ، بہار، برٹش انڈیا میں پیدا ہوئے۔ بہار میں پیدا ہونے کے باوجود، رحمٰن بنگالی مسلمان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا خاندان تقسیم ہند سے پہلے وکالت کے پیشے سے منسلک تھا. ان کے بھائی،معمود الرحمٰن بھی ایک بیرسٹر تھے جو کلکتہ ہائی کورٹ کے جج بنے۔ ان کے والد، خان بہادر ڈاکٹر داؤد الرحمٰن غیر منقسم ہندوستان میں پہلے مسلمان سول سرجن تھے جنہوں نے رائل کالج لندن سے ایف آر سی ایس کیا۔ حمود الرحمٰن، "بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ ” اور 1971 کی بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران پاکستان کے وفادار رہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی حمایت نہیں کی اور ان واقعات کے دوران خاموش رہے۔ انہوں نے 1971 میں سپریم کورٹ کی عمارت میں ذوالفقار علی بھٹو کو صدر پاکستان کے عہدے کا حلف دلایا۔

ان کا تعارف اس لئیے ضروری ہے کہ میڈیا میں سورس کی بہت اہمیت ہے . اگر معلومات کی فراہمی ایک ایسے سورس سے ہے جس کا اعتبار نہیں تو کہانی ختم . یہ فیصلہ آپ کا ہے کہ ان صاحب کے بارے میں یہ تفصیلات جان کر آپ ان کی رپورٹ کو کس حد تک قابل اعتبار جانیں گے ؟ اس وقت پاکستان میں اس رپورٹ کے نام پر بہت ہی عجیب سا ماحول بنایا جا رہا ہے . بہت ہی ہڑبونگ ہے ،حیرانی ہے، ہراسگی ہے ، الزام تراشی ہے ، دشنام اندازی ہے اور پائنٹ سکورنگ ہے . نہیں ہے تو سنجیدگی ، اخلاص ، سچ کو دیکھنے اور پرکھنے کی جرات ، تاریخ کو ملیامیٹ یا توڑ مڑوڑ کرنے کے بجائے اس سے سیکھنے کی اہلیت اور ہمّت ،معاف کردینے کا اور معافی مانگنے کا حوصلہ .

میں نا تو وار اسٹریٹجسٹ ہوں ، نا ہی ڈیفنس انالسٹ، نا ہی پرومپٹر سے سانس لیے بغیر سکرپٹ پڑھنے والی کرنٹ افیئرز کی کوئی اینکر( شکر ہے اپنے دور میں جب بھی بولا، جو بھی بولا اپنے ذہن سے سوچ کر روانی سےدرست تلفظ کے ساتھ ادا کیا ) نا ہی آگ لگا دینے والی وی لوگر یا بڑے اخبار کی کولمنسٹ یا رٹائرڈ سول سرونٹ جو ،اب دانشور کی کیٹیگری میں شامل ہیں نا ہی کوئی ٹھسسے دار بیگم . میں ایک کنواں کھود کر پانی پینے والی اور ایماندارانہ زندگی گزارنے والی پاکستانی ہوں اور * بہارن* بھی ہوں.

میرا یہ کالم نا تو کسی اور کسے کے موقف کی حمایت ہے نا ہی مخالفت بلکہ ایک کوشس ہے کہ کوئی خاص طور پر سوشل میڈیا سے علم ، شعور ، حکمت اور دانائی کے موتی چننے والی نوجوان نسل تحقیق کی طرف بھی راغب ہو اور یہ جانے کے کس طرح ٹیکسٹ کو سمجھتے ہیں اس کی توضیع کیا ہو . یہ ایک مشق ہے اور اس کے لئیے لکھنا پڑھنا ضروری ہے .

سب کے پاس ہی وقت کم ہے اور ایک ریس لگی ہوئی ہے . ملک ٹوٹنے پر ہر طرح کا رد عمل اچانک 53 سالوں کے بعد ہو رہا ہے . ہر ایک کے پول کھل رہے ہیں . جس کا جس طرف جھکاؤ ہے ان کو کئی نام کھل رہے ہیں . بنگالیوں سے بھی بہت محبّت کا اظہار ہو رہا ہے ،جو اچھی بات ہے. نفرت اور دشمنی تو نظریاتی مخالفین سے بھی نہیں کرنی چاہیئے.

نہیں تذکرہ ہے تو میری بدقسمت کمیونٹی کا کہ اس نے فوج کا ساتھ دیا اور فیشن چل رہا ہے فوج کے خلاف بات کر کے فوراً فوراً اول درجے کے صحافی ، اکٹیوسٹ اور فکری لیڈر بننے کا. میری کمیونٹی کی نسل کشی ہوئی ، میری کمیونٹی کی خواتین کی زندگی پامال ہوئی ، مشرقی بنگال کے ندی نالے میری کمیونٹی کے لاشوں سے بھر گئے تھے مگر ہمارا کوئی نوحہ خوان نہیں کوئی ماتم کناں نہیں . ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ خود اردو سپیکنگ کمیونٹی بشمول بہاری کمیونٹی کے وہ لوگ جو طاقت ور پوزیشنز پر ہیں وہ یا تو اپنی شناخت چھپاتے ہیں یا ا پنے آپ کو اس معاملے سے الگ تھلگ رکھتے ہیں. محصورین تو بھولی بسری یاد ہیں یا این جی اوز کا پبلسٹی سٹنٹ . بہت سی بہاری فیملیز کے بظاہر تعلیم یافتہ اور تاریخ سے واقف جو بنگلہ دیش کے "کیمپس” میں نہیں ہیں اوربنگالیوں کے ساتھ شادی کے ناطے رشتے داری میں ہیں، وہ بھی مجبوری میں یا نا واقفیت کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر غیر ذمدارانہ باتیں پھیلاتے ہیں اور پاکستان کی تضحیک کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے .

کاش ہمارے پاس سنجیدہ فارن آفس ہوتا اور پاکستان کے حق میں فضا بنی ہوتی، ساتھ ہی ساتھ ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سنجیدہ جائزہ لیا جاتا .

رہی بات پاکستان کس نے توڑا تو اس کے لئیے کوئی دس منٹ کا وقت نکالیں اور تحمل کے ساتھ ایک انگریزی کالم پڑھ لیں جو اردشیر کاؤس جی (13 اپریل 1926 – 24 نومبر 2012) نے 17 ستمبر 2000 میں ڈان میں لکھا تھا اور ان کے مطابق 1971 کے آخر میں جناح کے پاکستان کے نصف کے نقصان کے ذمہ دار تین افراد تھے۔ سب سے پہلے، یحییٰ خان، جو ریاست کے سربراہ، حکومت کے سربراہ، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، مسلح افواج کے سپریم کمانڈر تھے، جو اپنے جانشین ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے قید میں رکھے گئے، ایک کھلے مقدمے سے انکار کیا گیا، آمر جنرل صدر ضیاء الحق کے ذریعے آزاد ہوئے، اور ایک بیمار اور تنہا آدمی کے طور پر مر گئے۔ دوسرے، ذوالفقار علی بھٹو، جنہوں نے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کی تیاری کا حکم دیا اور پھر اسے دبا دیا، اور ضیاء الحق کے ذریعے معزول ہوئے، ان پر مقدمہ چلایا گیا، اور پھانسی دی گئی۔ تیسرے، مجیب الرحمٰن، بنگلہ دیش کے پہلے وزیر اعظم جنہیں ان کی اپنی فوج کے کچھ باغی فوجیوں نے قتل کر دیا۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے