سعودی عرب اور ایران میں کیا دیکھا ؟

’’آج ہمارے اسکولوں میں چھٹی ہے‘‘ڈرائیور نے بڑے فخر سے بتایا،حیرت سے پوچھا ’’کیوں‘‘ڈرائیور کے جواب نے حیرت میں اضافہ کر دیا،اس کا کہنا تھا ’’تہران میں جب بھی پالوشن بڑھتا ہے تو حکومت اسکول بند کر دیتی ہے‘‘میں نے پوچھا ’’کیوں‘‘اس کا جواب تھا ’’بچوں کی صحت،شہر میں اگر پندرہ بیس دن بارش نہ ہو تو ماحول آلودہ ہو جاتا ہے،یہ آلودگی چھوٹے بچوں کی صحت کے لیے خطرناک ہوتی ہے چنانچہ حکومت اسکولوں میں چھٹی کرا دیتی ہے‘‘میں نے پوچھا ’’کتنے دنوں سے چھٹی چل رہی ہے‘‘اس نے جواب دیا ’’آج دوسرا دن ہے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ اور یہ چھٹی کتنے دن جاری رہے گی‘‘اس نے جواب دیا ’’شہر میں جب تک بارش نہیں ہوتی‘‘۔

یہ تہران کے ساتھ پہلا تعارف تھا،ہم 19 جنوری کی دوپہر ریاض سے تہران پہنچے،ہم لوگ وزیراعظم میاں نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے وفد میں شامل تھے،پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے،سعودی عرب اور ایران کے تعلقات شیعہ عالم شیخ النمرکی سزائے موت کے بعد خرابی کی انتہا کو چھو رہے ہیں،تہران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ جلا دیا گیا۔

سعودی عرب نے اس کے رد عمل میں تین جنوری کو ایرانی سفیر کو ملک بدر کر دیا اور عمل اور ردعمل کے اس کھیل کا نقصان پورے عالم اسلام کو پہنچ رہا ہے،پاکستان مستقبل میں اس کشیدگی سے براہ راست بھی متاثر ہوگا،ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے،پاکستان اور ایران کے درمیان 910 کلو میٹر لمبا بارڈر ہے،یہ سرحد دنیا کی ان چند سرحدوں میں شامل ہے جن پر فوج تعینات نہیں،ایران کے ساتھ پاکستان کے 70 سال پرانے تعلقات بھی ہیں،ایران ماضی میں پاکستان کے کام آتا رہا اور پاکستان ایران کی مدد کرتا رہا،ہمارے سائنس دانوں نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں بھی ایران کی مدد کی اور پاکستان کی آبادی کا 15 فیصد حصہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے،بیس برسوں میں سنی اور شیعہ کے اختلافات میں بھی اضافہ ہوا چنانچہ ہم ایران سے تعلقات خراب نہیں کر سکتے،کیوں؟ کیوں کہ اس کے نتیجے میں ہمیں بھارت اور افغانستان کے بعد ایران کے بارڈر پر بھی فوج تعینات کرنا پڑے گی۔

ملک کے اندر شیعہ سنی اختلافات میں بھی اضافہ ہو گا اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ جائے گا،یہ ایک حقیقت ہے جب کہ دوسری حقیقت سعودی عرب ہے،سعودی عرب نے ہر بحران میں پاکستان کا ساتھ دیا،ہماری تاریخ میں ایسا وقت بھی آیا جب پوری دنیا نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا لیکن سعودی عرب خوفناک دباؤ کے باوجود پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا،آپ جوہری دھماکوں کے بعد کا دور ہی دیکھ لیجیے،ایٹمی دھماکوں کے بعد ہم پر مشکل وقت آ گیا،پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ گئیں،اس نازک وقت میں سعودی عرب آگے بڑھا اور یہ تین سال تک پاکستان کو مفت پٹرول دیتا رہا،سعودی عرب نے مارچ2014ء میں بھی ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر دیے۔

ہم حرمین شریفین کی وجہ سے بھی سعودی عرب کے قریب ہیں اور پاکستان میں سنی العقیدہ لوگوں کی تعداد بھی 85فیصد ہے چنانچہ پاکستان کسی بھی لحاظ سے سعودی عرب کو ناراض نہیں کر سکتا سعودی عرب تیل کی قیمتوں میں کمی،عرب ممالک کی بغاوتوں اور داعش کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہے،یہ آج پاکستان سے ماضی کی مہربانیوں کا بدلہ چاہتا ہے،ہم اس نازک وقت میں سعودی عرب کو انکار کر کے احسان فراموش نہیں کہلانا چاہتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے،ہم اگر کھل کر اس کا ساتھ دیتے ہیں تو پھر ہماری مصیبتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

ایک طرف ایران ہمارے ساتھ ناراض ہو جائے گا،ملک میں شیعہ سنی اختلافات بڑھ جائیں گے،ضرب عضب متاثر ہو گی اور دوسری طرف پاک فوج کے لیے بھی نیا محاذ کھل جائے گا اور پاکستان سرے دست یہ افورڈ نہیں کر سکتا،ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ایران سعودی محاذ آرائی کا ان دونوں ملکوں کو کوئی نقصان ہو یا نہ ہو لیکن پاکستان کو بہت تکلیف ہو گی،ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا،میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف دونوں یہ صورتحال حکمت کے ساتھ سلجھا رہے ہیں،پاکستان نے اپریل 2015ء میں یمن کے ایشو پر سعودی عرب کو فوج نہ دے کر کمال کر دیا۔

اس کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوا،ایران کے دل میں بھی پاکستان کی قدر میں اضافہ ہوا،ایرانی حکومت نے کھل کر پاکستان کی تعریف کی اور امریکا اور یورپ کو بھی یہ پیغام ملا،پاکستان خود مختار ملک ہے اور یہ اب دباؤ میں نہیں آتا اور ملک کے اندر بھی سنی شیعہ ٹینشن میں کمی آئی،پاکستانی قیادت نے موجودہ حالات میں بھی ثالث بننے کا فیصلہ کر کے مزید عقل مندی کا ثبوت دیا،وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں نے مل کر چلنے کا فیصلہ بھی کیا،حکومت نے سعودی عرب اور ایران دونوں سے رابطہ کیا،چین نے بھی پاکستان کے ثالثی کے کردار کو سپورٹ دی اور یوں دونوں ملکوں نے پاکستان کے کردار کو تسلیم کر لیا جس کے بعد میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف 18 جنوری کی صبح سعودی عرب اور 19 جنوری کی دوپہر ایران جانے کے لیے روانہ ہو گئے۔

ریاض ہماری پہلی منزل تھی،سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستانی وفد کے لیے لنچ کا اہتمام کر رکھا تھا،ہم شاہی محل میں پہنچے تو شاہ سلمان نے اپنی پوری کابینہ،شاہی خاندان کے اہم افراد اور مسلح افواج کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ پاکستانی مہمانوں کا استقبال کیا،لنچ کے دوران بھی سعودی عرب کے تمام اعلیٰ عہدیدار،گورنرز اور وزراء موجود تھے،شاہ سلمان لنچ کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف کو ساتھ لے کر ملاقات کے کمرے میں چلے گئے۔

ملاقات کے پہلے حصے میں وزیراعظم کا اسٹاف ان کے ساتھ تھا لیکن دوسرے حصے میں یہ ملاقات صرف تین لوگوں تک محدود ہو گئی،شاہ سلمان،نواز شریف اور جنرل راحیل شریف۔ یہ ملاقات گھنٹہ بھر جاری رہی،وزیراعظم باہر نکلے تو یہ بہت خوش تھے،میں نے ان سے پوچھا ’’آپ خوش نظر آ رہے ہیں،اس کا مطلب ہے ملاقات کامیاب رہی‘‘میاں نواز شریف نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’ہاں الحمد للہ ‘‘مجھے اس شام سعودی عرب کے لوگوں سے معلوم ہوا،شاہ سلمان نے میاں نواز شریف کے کردار کو بھی سراہا،ان کی ثالثی کی پیش کش کو بھی تسلیم کیا اور پاکستان کو تعاون کی مکمل یقین دہانی بھی کرائی،تاہم سعودی عرب کو ایران سے چند تحفظات تھے۔

ان کا خیال تھا،ایرانی حکومت کو سعودی عرب کے سفارت خانے کی حفاظت کرنی چاہیے تھی،ایران کو عراق،شام اور یمن میں بھی اپنا کردار محدود کرنا ہوگا،ایران کی موجودہ پالیسی خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے،میں نے یہ بھی سنا،سعودی عرب اس وقت تک ایران سے بات چیت نہیں کرے گا جب تک ایرانی حکومت سفارت خانہ جلنے پر سعودی عرب سے معذرت نہیں کرتی،سعودی حکومت نے پاکستان سے یہ کہا ’’ہم آپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں لیکن ایران سے گفتگو کے دوران یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ سعودی عرب ہر صورت تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے‘‘پاکستان نے اس نقطے سے اتفاق کیا،پاکستان نے سعودی شاہ اور ایرانی صدر کے درمیان ملاقات کرانے کی پیش کش بھی کی،سعودی عرب نے یہ آفر مسترد نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا ’’ملاقات سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہونے چاہئیں،آپ پہلے تعلقات کو معمول پر لائیں اور پھر ملاقات کے بارے میں سوچیں‘‘۔

ہم اگلے دن ریاض سے تہران روانہ ہو گئے،ایران نے بھی پاکستانی کوششوں کو سراہا،یہ فوکل پرسن دینے کے لیے بھی رضا مند ہو گیا،پاکستانی وفد نے ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری سے بھی ملاقات کی اور صدر حسن روحانی سے بھی۔ یہ ملاقاتیں دو گھنٹے جاری رہیں،یہ میٹنگز سفارتی اور سیاسی لحاظ سے کامیاب تھیں،صدر حسن روحانی اوراسحاق جہانگیری نے اطمینان سے گفتگو بھی سنی اور پاکستان کو آگے بڑھنے اور اختلافات کی خلیج پاٹنے کے لیے گرین سگنل بھی دیا مگر ہم نے نفسیاتی اور سماجی سطح پر جتنا والہانہ پن سعودی عرب میں دیکھا اتنا ہمیں ایران میں نظر نہیں آیا۔

سعودی عرب نے پاکستانی قیادت کے اعزاز میں شاہی عصرانے کا اہتمام کیا اور اس میں ملک کے تمام اہم لوگوں کو مدعو کیا تھا،سعودی افواج کے سربراہ بھی لنچ پر موجود تھے،وفد کے تمام ارکان کو محل میں بھی لے جایا گیا،ہم لوگ شاہ کے قریب تک پہنچ گئے،میں نے ان کے سامنے کھڑے ہو کر ’’سیلفیز‘‘بنائیں اور کسی نے مجھے منع نہیں کیا،ہم لوگ میٹنگ کے دوران محل کے مختلف کونوں میں بیٹھے رہے اور محل کا عملہ ہماری خدمت کرتا رہا،سعودی حکومت نے ہمیں شاہی ہوٹل میں بھی ٹھہرایا جب کہ اس کے مقابلے میں ایران کا رویہ سخت تھا،ائیرپورٹ پر پروٹوکول کی گاڑیاں بھی کم تھیں۔

ہمیں ملاقات سے پہلے شہر میں ایک ایسے ہوٹل میں لے جایا گیا جس کا پورچ بہت چھوٹا تھا چنانچہ وزیراعظم کے سوا وفد کے تمام ارکان سڑک پر گاڑیوں سے اترے اور پیدل چل کر لابی تک پہنچے،ان میں آرمی چیف بھی شامل تھے،ایرانی حکومت اگر چاہتی تو اس سے بہتر انتظام کر سکتی تھی،یہ وفد کو اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس بھی لے جا سکتی تھی،اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس صدارتی محل کے قریب بھی تھا اور یہ وفد کے لیے باعث عزت بھی ہوتا،پاکستانی وفد نے آدھ گھنٹہ نائب صدراسحاق جہانگیری سے ملاقات کی اور ایک گھنٹہ صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات ہوئی،ملاقات کی صرف چھ لوگوں کو اجازت دی گئی۔

باقی وفد صدارتی محل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا رہا،اس دوران ایران کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار دنیا ٹی وی کے اینکر پرسن وجاہت سعید خان کا کیمرہ بھی چھین کر لے گئے،یہ کیمرہ بعد ازاں طارق فاطمی اور ایرانی وزیر خارجہ کی باہمی کوشش سے واپس ملا لیکن اس سے میموری کارڈ غائب تھا،یہ سلوک دنیا کے کسی ملک میں صدر یا وزیراعظم کے وفد میں شامل سینئر صحافیوں کے ساتھ نہیں ہوتا،ہم کیوں کہ چند گھنٹوں کے وقفے سے ریاض سے تہران پہنچے تھے چنانچہ ہمیں اس رویئے سے زیادہ تکلیف ہوئی۔

ہم لوگوں نے سعودی عرب کو زیادہ مہمان نواز،حلیم اور گرم جوش پایا جب کہ اس کے مقابلے میں ایرانیوں کا رویہ سخت،سرد اور غیر سفارتی تھا،ایران کے اہلکاروں نے بھی ہمیں دوست کی طرح ’’ٹریٹ‘‘نہیں کیا لیکن یہ تمام باتیں،تمام اعتراضات ایک طرف اور دو دن کی اس بھاگ دوڑ کا نتیجہ دوسری طرف۔ پاکستان نے دو اسلامی ملکوں کے درمیان صلح کا جو بیڑا اٹھایا اس کے نتائج بہرحال مثبت نکلے،دونوں ملکوں نے تعلقات کی بہتری کے لیے فوکل پرسنز مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا،مجھے ایرانی نائب صدر اور صدر کی باڈی لینگوئج سے محسوس ہوا،یہ لوگ سعودی عرب کے حکمرانوں سے ملاقات کے لیے بھی تیار ہیں،پاکستان دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات بھی کرانا چاہتا ہے،یہ ملاقات 2016ء میں ہو جائے گی۔

میاں نواز شریف نے 1997ء میں او آئی سی کانفرنس کے دوران شاہ عبداللہ اور صدر اکبرہاشمی رفسنجانی کے درمیان بھی ملاقات کرائی تھی،پاکستان اس بار بھی کامیاب ہو گا اور یہ واقعہ جب بھی وقوع پذیر ہو گا،یہ پاکستان،نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے عالمی امیج میں اضافہ کرے گا،یہ ملاقات عالم اسلام کے لیے بہت ضروری ہے کیوں کہ اگر یہ نہ ہوئی تو اسلام اور عالم اسلام دونوں خطرات کا شکار ہو جائیں گے،مسلمان،مسلمان کا گلہ کاٹیں گے اور پوری دنیا تماشہ دیکھے گی چنانچہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں یہ ثالثی کی پاکستانی کوششوں کو کامیاب کر دے ورنہ دوسری صورت میں اسلامی دنیا کا ہر بڑا شہر ہلاکو خان کا بغداد بن جائے گا اور مسلمانوں کو لاشوں کے لیے کفن اور تدفین کے لیے قبریں نہیں ملیں گی۔

اللہ ہمیں اس انجام سے بچائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے