عزت کی لوکیشن:ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں – قوموں کی عزت ہم سے ہے

پاکستان کی 77ویں آزادی کے موقع پر ڈاکٹر رخشندہ پروین کی ایک خصوصی تحریر ۔ تمام پاکستانی خواتین اور خاص طور پر ہماری بے نام شہزادیوں ،ہماری ڈیوٹی کوئننس کے لیے

ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں – قوموں کی عزت ہم سے ہے

عالی انکل (نواب زادہ مرزا جمیل الدین عالی ) کا لکھا ہوا یہ ایک اور بے مثل نغمہ ہے جو پی ٹی وی نے بلیک اینڈ وائٹ کے وقت کی نشریات میں ناہید اختر سے گوایا تھا اس اور کیا خوب موسیقی ہے نیاز احمد کی . ایک جوشیلا ،ولولہ انگیز نغمہ. اس پر بچپن سے سر دھنتے ہوئے پچپن سالہ زندگی مکمل کر لی. اس نغمے کوبہت سے فورمز نے اپنی مشہوری کے لیے پاکستانی خواتین کی کامیابیوں پر فلمایا . آج بھی یہ نغمہ بہت اچھا لگتا ہے.اب بھی جھوم جاتی ہوں اس کی دھن پر لیکن سر دھنتے ہوئے اب لفظوں کی حقیقت چبھنے لگتی ہے . اب تک کے سفر ( اردو ) میں جو انگریزی کی سفرنگ ہے وہ بھی نگاہ کے سامنے آجاتی ہے.

ایک ہی ساعت میں جہاں مختلف میدانوں میں جگمگاتی ہوئی خواتین کے نام اور چہرے سامنے آجاتے ہیں وہاں ان گنت بے رحم روایات اور خون کے رشتوں کے خونی سلوک کی بھینٹ چڑھ جانے والی لاکھوں "بیٹیوں ،بہنوں اور ماؤں ” کی دردناک کہانیاں بھی یاد آجاتی ہیں. ایسی بھی ہیں جو ان رشتوں سے نہیں بلکہ کسی مرد کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں اور ناموری سے بدنامی اور پھر گمنامی کا سفر طے کرتی ہیں . کتنی عجیب بات ہے کہ ان مردوں کو کوئی تضحیک کا نشانہ نہیں بناتا . شائد عزت نام کی شےصرف عورتوں کی میراث ہے .

آج ہمارا ملک دنیا کے 146 ملکوں میں صنفی برابری کے حوالے سے 145 ویں نمبر پر ہے یعنی صرف افغانستان سے بہتر ہے. صحت، سیاست ، معشیت اور تعلیم میں مردوں اور عورتوں کی مساوات کے عدسے سے .

آج بھی پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں (اگر فرقوں ،مسلک مذہب اور طبقات کے بٹواروں کو ایک لمحے کو چھوڑ کر دیکھیں تو) مجموعی طور پر ہماری لڑکی، ہماری خاتون، خاندان اور ملک کی عزت کا بھاری بھرکم بوجھ تو اٹھانے کے لائق سمجھی جاتی ہے لیکن وہ اس قابل نہیں ہے کہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جی سکے ، اپنی شادی ، اپنی تولیدی صحت کے حوالے سے معاملات اور اپنے کیریئر سے متعلق خود فیصلے آزادانہ طور پر کر سکے . آج بھی عزت کا تالا اس کے ہاتھ میں ہے لیکن جائیداد کی کنجی بھائی کے پاس ہے یا حق مہر کا قفل کھلنے کا اختیار شوہر کے پاس .

جو عورت شوہر کے جوتے کھا لے وہ اچھی عورت ہے ، جو عورت کام کرنے کی جگہوں پر ہرنوعیت کے سمجھوتے کر لے وہی اچھی ایمپلائی ہے،’ جو عورت میکے والوں کو مالی طور پر سپورٹ تو کرے مگر اپنے حق کے لیے نہ بولے وہی شرافت کا مجسمہ ہے . ناکام اور کامیاب عورت کا معیار بھی مردانہ احکامات اور اخلاقیات پر پورا ،اترنے کے حوالے سے تیار کیا جاتا ہے اور تزک و احتشام سے اس پر دین و مذہب اور خودساختہ پوتر رسموں کا طوق ڈال دیا جاتا ہے .

اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی پدر سری رویوں سے متاثر ہوتی ہیں مگر ان کی کہانی جب تک پیاری بیٹی مقتولہ نور مقدم جتنی ہولناک نہ ہو منظر عام پر نہیں آتی . مڈل کلاس کی پڑھی لکھی عورت ،بے ثمر ، آگہی کے جس کرب سے روزانہ کی بنیاد پر گزرتی ہے، اس کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے .

شائد یہ بھی ایک پدرسری سازش یا فراڈ ہے کہ جن چند خواتین کو مختلف وجوہات یا صلاحیتوں اور ان کے "نصیب ” کی بدولت اثر و رسوخ حاصل ہوتا ہے، ان میں سے بیشتر خواتین کی اکثریت کے مسائل سے نا آشنا ہوتی ہیں اور جو واقف حال بھی ہوں وہ بھی ایلٹسٹ کونسنسس کی بیعت کر لیتی ہیں. وہ "ناسمجھ ” جو "مواقع ” سے فائدہ نا لے یا ان بے انصافیوں کی نشاندہی کرے وہ غیر مقبول ہے اور اس پر روزگار کے دروازے بھی بند کیے جاتے ہیں اور کئی طریقوں سے اس کو ستایا جاتا ہے .خواتین کو تو سیدھا سیدھا پاگل ، جنونی فیمنسٹ ، ہسٹیریا کی مریضہ وغیرہ جیسے القابات سے نواز دیا جاتا ہے. اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے . اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ جن میں کئی معروف لیڈران ، ادیب ، شاعر ، سول سرونٹس اور فیمنسٹ مردو زن وغیرہ بھی شامل ہیں ،” بولنے والی عورت ” کو سخت ناپسند کرتے ہیں .

میں نے ساری عمر ہی ناپسندیدہ لڑکی اور عورت رہ کر اور سہہ کر گزاری ہے کیونکہ بااختیار ہونے کی ایک قیمت ہوتی ہے . لہٰذا میں بیڈروم سے لے کر بورڈ روم تک ایک ناکام عورت ہی رہی اور میری کوئی بھی تعلیمی ڈگری یا ان تھک محنت سے بنایا ہوا پروجیکٹ بھی اس "اعزاز” سے مجھ کو محروم نہ کر سکا . میری وہ بہنیں اور بیٹیاں جو میری خوبصورت تصاویر ( ویسے میں بہت فوٹو جینک بھی ہوں ) سوشل میڈیا پر دیکھ کر مجھے بہت پرسکون ، کامیاب اور خوش قسمت ( قسمت کو مان لینا اور اس پر خوش رہنا بھی ایک کمال کی بات ہے ویسے ) سمجھتی ہیں، ان کو صرف یہ بتانا ہے کہ جو آپ کو بتایا گیا ،جو آپ نے سنا یا جو آپ نے دیکھا، وہ سچ نہیں ہے . جو سچ ہے وہ نظر نہیں آتا اور جو نظر میں ہے وہ سچ نہیں ہے .

اگر آپ ایک خاص اقدار کے ساتھ ، اپنی آواز کے ساتھ ، زندگی گزارنا چاہ رہی ہیں تو یاد رکھیں کہ یہ ایسا معرکہ ہے جیسے کہ بغیر اکسیجن کے ہمالہ سر کرنا. اور اگر آپ آسانی چاہتی ہیں تو ہر طرح کی "ماتحتی ” قبول کر لیں اور "جیت ” کے سارے مزے آپ کے . میری مخاطب آپ ہیں- آپ -جو بغیر اکسیجن کے ہمالہ سر کرنا چاہتی ہیں. یاد رکھیں اصل مزہ اس کوہ کی چوٹی پر پہنچنا نہیں ہے بلکہ بقول مایا انجیلو اس یقین پر قائم رہنا ہے کہ ” ہم کئی شکستوں کا سامنا کر سکتے ہیں لیکن ہمیں شکست خوردہ نہیں ہونا چاہیے۔”

ہم جیسی عورتوں سے جو اپنے خاندان کی نظر میں بھی "ناکام ” ہیں یا معاشرے میں معتوب ہیں، جو شائد کبھی بھی گوگل ڈوڈل پر نقش نا ہوں یا بلند عہدہ حاصل کریں یا مبہوت کردینے والی کمپیرنگ ، صداکاری ،اداکاری ،مصوری یا شاعری کریں یا کوئی بکنے والا ہنر حاصل کریں مگر لپ سٹک خراب کرنے کی اجازت نہ دیں اور ہرمرتبہ اپنے آنسو خود صاف کریں اور سنگ زیست پر نئی سے نئی راہیں تراشیں و ہی یا وہ بھی قوموں کی عزت ہیں.

قوموں کی عزت ہم سے ہے-ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں

ہم معنیٔ مہرو وفا-ہم کشمکش، ہم ارتقا

تاریخ نے خود لکھ دیا-ان کی عبارت ہم سے ہے

ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں-قوموں کی عزت ہم سے ہے

زنجیرِ استحصال نے-روکے ہوئے تھے راستے

اب چل پڑے ہیں قافلے-جن میں حرارت ہم سے ہے

ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں-قوموں کی عزت ہم سے ہے

————–
ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس بارہ سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں پاکستانی بہاری محصورین کے کےحوالے سے آگاہی بیدار کر رہی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے