بنگلہ دیش میں کیا ہوا ؟

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے استعفا دے دیا اور ملک چھوڑ دیا جب مخالف حکومت مظاہرین نے دارالحکومت ڈھاکہ میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا -کرفیو۔۔۔ مارشل لا ۔۔ فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ حسینہ کا گھر اور مجیب الرحمان کا مجسمہ تباہ. ملکی میڈیا و غیر ملکی میڈیا

بنگلہ دیش میں حالیہ واقعات کو جذباتی نگاہ سے دیکھا جائے تو شاید حسینہ واجد کا غرورہی انھیں لے ڈوبا۔ یا شائد یہ متحدہ پاکستان کے حامی بہاریوں اور کئی بنگالیوں کی خاموش آہ کا نتیجہ ہے۔ وہ زندگیاں جو تباہ و برباد ہوئیں اور ان کا ساتھ بھی کسی نے نہ دیا۔ بلکہ پاکستان کو دو لخت کرنے والوں اور ان کے حمایتیوں پر انعام و اکرام کی بارش ہی رہی۔ یہ ایک مشکل، کرب ناک اور پرخطر موضوع ہے۔ ایک لٹے پٹے بہاری خاندان سے تعلق ہونے کی بنا پر اور پاکستان میں اس حوالے سے سردمہری جھیل کر اعصاب اور جذبات کو قائم رکھنا بھی ایک امتحان ہے۔

لہذا، میں نے بنگلہ دیش میں اپنے کچھ دوستوں سے عوامی جذبات کے بارے میں پوچھا جو میری شناخت کے اس پہلو سے بے خبر ہیں اور میں نے ان کے ساتھ مختلف عالمی علمی فورمز پر کچھ وقت گزارا ہے ۔ جواب میں کہا گیا کہ زیادہ تر بنگلہ دیشیوں نے شیخ حسینہ واجد کے استعفا کو مثبت انداز میں سراہا۔ بدعنوانی کو روکنے میں ناکامی اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں سفاک بے پرواہی نے ملک بھر میں طلبہ کے کوٹے کی تحریک کے ذریعے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے۔

پاکستان مخالف یا بنگلہ دیش بنانے والوں کے لیے 30 فیصد کوٹہ جو بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے 5 فیصد کر دیا تھا، اس پر عمل درآمد نہ ہونے پر عوامی ردعمل آیا۔ بھارت نواز جمہوریت نے حکمرانوں کو اپنے ہی لوگوں پر گولیاں چلانے اور تشدد کرنے پر قائل کیا۔

ڈھاکہ میں ہونے والی حالیہ خوں ریز جھڑپوں کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی حرص اور عوامی مسائل کو سمجھنے میں ناکامی ایک بنیادی وجہ ہے۔ معاشی چیلنجز جیسے کہ مہنگائی، بیروزگاری، اور زندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت عوامی عدم اطمینان اور مظاہروں میں تیزی لاتے ہیں۔ پھر سماجی مسائل سے "ناشناس مجبور ” پولیس کی بربریت، طلبہ کے احتجاج، یا سماجی انصاف کے مطالبات نے بھی بڑے تنازعات کو جنم دیا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
یہ صورتحال بنگلہ دیش کے مستقبل کے لیے ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتی ہے، جہاں عوام کی آواز کو سننا اور ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ عالمی برادری کو بھی اس بحران کے حل میں معاونت فراہم کرنی چاہیے تاکہ خطے میں امن اور استحکام قائم رہے۔ بنگلہ دیش معاشی خود مختاری کی جانب جس رفتار سے بڑھ رہا تھا امید ہے کہ سمت اور سپیڈ دونوں ہی ٹھیک رہ سکیں .
سوشل میڈیا پر ہر طرح کے تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں. ایک صاحب نظر نے لکھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے. حسینہ واجد اگرتلہ میں۔ عوامی لیگ نے 60 سال پہلے جہاں سے آغاز کیا تھا، وہاں واپس آ گئی ہے، مکمل زندگی کے چکر میں!
ایک اور صاحب نے شاعرانہ تبصرہ کر دیا یعنی اس صورت حال پر باقی صدیقی کی غزل فٹ کر دی.

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے

لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے

بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو

تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
اس وقت موصوفہ تو بھارت روانہ ہو چکی ہیں اور آخری خطاب بھی نہیں کر سکیں۔ جنرل زمان نے عبوری حکومت قائم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ان کا ذاتی اور پیشہ ورانہ پس منظر بھی دلچسپ ہے۔ جنرل صاحب کی شادی بیگم سارہ ناز کمالیکہ رحمان سے ہوئی ہے، جو مرحوم جنرل مصطفیٰ رحمان کی بڑی بیٹی ہیں اور اس جوڑے کی دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے سسر جنرل مصطفیٰ رحمان نے 24 دسمبر 1997 سے 23 دسمبر 2000 تک بنگلہ دیش فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دیں؛ وہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے چچا تھے۔ جنرل زمان کی اہلیہ شیخ حسینہ کی کزن ہیں۔

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا


ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس بارہ سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں پاکستانی بہاری محصورین کے کےحوالے سے آگاہی بیدار کر رہی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے