مذہبی رواداری اور ہماری کہانی

جہاز ٹیک آف کے لیے تیار تھا۔میرے ساتھ ثانیہ،عیشل اور زویا بھی موجود تھیں۔دو گھنٹے ائیر پورٹ لانج میں بیٹھے ہم نے مختلف موضوعات پر بات کی ۔جہاز بلندی کی طرح محو پرواز تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا تعلق اور رشتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ہم ایک دوسری کے لیے اجنبی تھے ،ایک شہر میں ہوتے ہوئے بھی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے ہم سب اکھٹے ہوئے اور الحمدللہ اس مقصد کا پہلا مرحلہ ہم سب نے کامیابی سے مکمل کیا ۔

یہ سال 2022 کے دسمبر کی سرد دوپہر تھی جب کراچی کے نجی ہوٹل کے ہال میں حسب معمول تاخیر سے داخل ہوتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ آئے روز ہونے والے میڈیا سیمینارز اور ٹریننگز کی طرح یہ بھی ایک معمول کی ٹریننگ ہو گی ۔میڈیا کے سب دوست جن سے روزانہ ہی پریس کلب میں ملاقات ہوتی رہتی ہے. وہاں موجود ہوں گے اور چار روز بعد ہم دوبارہ سے اپنی معمول کی زندگی پر آ جائیں گے۔حال میں داخل ہونے کے بعد میں نے دیکھا تو وہاں موجود ایک دو شناسا چہروں کے سوا میری کسی سے واقفیت نہیں تھی۔بڑی مایوسی ہوئی کہ چار روز کیسے گذریں گے اور صبح 9 سے شام 5 بجے تک یہ وقت کیسے کٹے گا۔

تھوڑا وقت گذرا تو آہستہ آہستہ اجنبیت کی دیوار ختم ہوتی چلی گئی ۔یہ جان کر حیرت اور خوشی ہوئی کہ پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے مذہبی ہم آہنگی ،امن اور رواداری پر کام کرنے والے کے پی کے،سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کیسے کیسے ہیرے وہاں جمع کر رکھے ہیں۔اگلے تین روز کیسے گزرے وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔غلام مرتضیٰ صاحب ،حسیب اقبال ،سمیر اور حسین صاحب سے مل کر ایک لمحے کے لیے بھی ایسا نہیں لگا کہ ہم پہلی بار مل رہے ہیں۔اس دوران مذہبی ہم آہنگی سمیت مختلف موضوعات پر دوستوں سے ڈسکشن ہوئی۔مختف مذاہب،قوموں اور مسلک سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مذہبی اور مسلکی ہم آہنگی پر کتنا بہترین کام کر رہے ہیں ۔پہلے وہ انفرادی طور پر اس نوبل کاز کے لیے کام کر رہے تھے لیکن پی ای ایف نے انھیں ایک چھتری تلے جمع کر کے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جس نے ان کے عزم اور حوصلے میں اضافہ کیا۔پھر پروپوزل جمع ہوئے ۔اس موقع پر بھی حسیب اور سمیر نے ہر طرح سے ہماری رہنمائی کی اور پھر ہمارا نام اسلام آباد کی میٹنگ کے کیے چنا گیا۔

اسلام آباد پہنچے تو ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے میڈیا موثران سے ملاقات ہوئی۔حسین صاحب،غلام مرتضیٰ صاحب،حسیب ،سمیر اور سبوخ سید نے پراجیکٹ کے حوالے سے بہترین رہنمائی کی جبکہ اظہر صاحب سے ہونے والی ملاقات میں ان کے وژن اور مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں ان کی معلومات اور کام نے بہت متاثر کیا۔پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے ہم 6 لوگوں کا گروپ بنا ۔جس میں جواد صاحب،بسم اللہ ارم،نسرین جبین،انیسہ اور میں شامل تھے۔گو کہ ان سب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن دوستوں کی محبت نے ایک لمحے کے لیے بھی اجنبیت کی دیوار کو کھڑا ہونے نہیں دیا۔رات کو چائے کے دور چلے اور دوستوں کی محفل نے دن بھر کی تھکان دور کر دی۔پراجیکٹ شروع ہوا ۔بظاہر یہ کام بہت آسان معلوم ہوتا تھا لیکن کئی طرح کے مسائل سے واسطہ پڑا۔معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی پر بات کرنے والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہے یہ قریب سے دیکھنے اور سننے کا تجربہ ہوا۔لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے کام کرنے میں اگر مسائل درپیش نہ ہوں تو کام کیا مزہ؟۔

دوستوں نے لگاتار محنت اور مسلسل عمل کے ذریعے اپنے اپنے پراجیکٹس کو تکمیل تک پہنچایا ۔اس دوران گروپ میں شامل دوستوں کے علاوہ حسین صاحب نے قدم قدم پر رہنمائی فرمائی جس نے بہت سے چیزوں کو آسان کر دیا۔پراجیکٹ کے لیے اخبارات اور رسائل میں چھپنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اس دوران مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کے کام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو امید کے دیے روشن ہوئے کہ ہم اس مقصد میں اکیلے نہیں ہیں۔ہمارے ہی معاشرے میں بسنے والے ایسے کئی لوگ ہیں جو اس ملک میں امن ،رواداری،برداشت اور مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے اپنی کاوشیں کر رہے ہیں۔ان میں سکھ ، مسیحی ، پارسی، بہائی ، ہندو مذاہب سے تعلق رکھنے والے دوستوں سمیت مختلف سیاسی اور مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد سے ایسا تعلق بنا کہ اب وہ ہمیں اپنے اجتماعات اور تقریبات میں مدعو کرتے ہیں اور انسانیت کی بہتری کے لیے جو کام ان محدود وسائل میں ممکن ہے وہ کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔پھر رواں برس کراچی میں بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے دوست جمع ہوئے اور ایک بار پھر نئے چہروں سے شناسائی ہوئی اور پھر پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد اسلام آباد کا پروانہ ملا۔

وہاں پر اپنے ہمراہیوں کے پراجیکٹ اور کام دیکھ کر آشکار ہوا کہ کیسے کیسے ہیرے اس فیملی کا حصہ تھے جنہوں نے کمال مہارت اور لگن سے اپنے پراجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔مذہبی ہم آہنگی پر اس سے پہلے شاید ہی پاکستان میں اس طرح کا کام ہوا ہو۔ڈاکومینٹریز، انیمیٹڈ کارٹونز، کالمز، فیچرز، فورم ، ورکشاپس، چینل پر چلنے والی رپورٹس، مذہبی رسالوں میں چھپنے والے مضامین کیا کچھ نہیں تھا جو دوستوں نے اس مقصد اور کاز کے لیے نہیں کیا۔فخر محسوس ہوا کہ اتنے باصلاحیت اور امید سے بھرے لوگ ہمارے ساتھ اس سفر کے شریک تھے۔ پی ای ایف نے ایک سرپرائز بھی دیا اور دوستوں کو ان کی محنت اور عمدہ کارکردگی پر ایوارڈ بھی دیے گئے، جس نے دوستوں کو مستقبل میں کام کرنے کے لیے مزید حوصلہ اور تقویت دی ۔ایک بار پھر رات کو چائے کے دور چلے اور دوستوں کی محفل نے دن بھر کی تھکان دور کر دی۔آخری ایونٹ میں طلباء سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرکت نے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔سب دوستوں نے مستقبل کے حوالے سے کام اس موضوع پر کام کرنے کے لیے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔یہ تمام وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مذہبی اور مسلکی نظریات کو ایک طرف رکھ کر انسانیت اور دنیا کے امن کے لیے کام کیا۔

جنھیں سب سے پہلے ان کے گھر میں ہی تنقید کا نشانہ بنایا گیا،دوستوں نے مذاق اڑایا، ان کے کام کو ہم مذہب اور ہم مسلکوں نے دیوانے کی بڑ قرار دیا لیکن وہ ڈٹے رہے ۔انہوں نے نئے جہاں تلاش کیے اور اپنے کام اور عمل سے سب کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔یہ صرف پہلا پڑاؤ تھا ،امید ہے کہ یہ ٹیم ہر پڑاؤ پر لوگوں کو اسی طرح اپنا گرویدہ بناتی رہے گی۔ پی ای ایف صرف ایک غیر سرکاری تنظیم ہی نہیں اب ہماری فیملی بن چکی ہے ۔کئی دوستوں نے اپنے اپنے علاقوں میں آنے کی دعوت بھی دی ہے ۔اللہ کو منظور ہوا تو انشاء اللہ دوستوں سے ملاقات ہوتی رہے گی۔

ہم کراچی ائیر پورٹ سے باہر نکلے تو رات کے 12 بج رہے تھے۔سب دوست ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر اپنی اپنی منزل کے طرف چل پڑے۔پراجیکٹ تو ختم ہو گیا لیکن شاید سفر ابھی باقی ہے۔یہ سفر کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئے سفر کا آغاز تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے