بنگلادیشی جنریشن زی اور ہم پاکستانی -فرق جان کر جیو پلیز

حسب عادت بیگانے کی شادی میں عبدالله دیوانے . بنگلہ دیش میں انقلاب آ گیا یا آرہا ہے یا اصلاحات ہوں گی یا ہو رہی ہیں، پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد ، جید صحافی ( صحافی جو کبھی تھے، اب توصرف نام اور مقام بک رہا ہے ) اور اچانک صحافی اور تجزیہ کار بن جانے والے/ والیاں اب راتوں رات بنگلہ دیش ایکسپرٹ ہیں اور "اپنی اپنی پسند” کے مطابق یا ہدایت کے تحت بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں . یہ "آزادی ” بھی انمول ہے اور صحافت کے لیے یادگار ہے . وی پی این سے ایکس کی سیر کی تو وہاں بھی کہرام مچا ہوا ہے اور حسب توفیق ہر دانشمند اپنا حصّہ ڈال رہا ہے . چونکہ میں نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا کہ میرا کاز تو دھتکارے جانے والے مارے جانے والے بھلا دیئے جانے والے پاکستانی بہاری ہیں .

خاص طور پر محصورین جن کو پاکستان نے محب وطن ہونے کا صلہ ان کی پاکستانی شہریت چھین کر دیا ہے لہٰذا موجودہ گپ شپ جو پاکستان کے ایک سابقہ صوبے اور حالیہ بنگلہ دیش کے حوالے سے ہو رہی ہے، کوشش کرتی ہوں کہ ان میں حصّہ نہ لوں . لیکن مٹی سے جنم بھومی سے تعلق صرف پاسپورٹ کا تو نہیں ہوتا . تو یہی حال میرا ہے . عجیب سی کیفیت ہے . آج بھی قلم اٹھایا ہے تو اس کا سبب ذاتی کرب اور توہین کا واویلا کرنا نہیں ہے. بلکہ ایک غصہ ہے ان ٹویٹس پرجو کہنے کو تو معروف صحافی خواتین یا حضرات کی ہیں. جو نمائندہ صحافتی فورمز کی ملازمت بھی کرتے ہیں یعنی ان کا با صلاحیت ہونا مستند ہے . پھر بھی ان کی ٹویٹس ان کی نا سمجھی کی عکاس ہے . بات کو ذرا سمجھیں. جب سے مغربی اکیڈمیا نے فیصلہ دیا ہے کہ بنگلادیشی صورت حال جنریشن زی کا پہلا کامیاب احتجاج ہے یا انقلاب ہے . یہ ہمارے والے جعلی لبرلز یا لبرل نما (کیونکہ میں بھی ایک لبرل ہوں) بولا گیے ہیں اور لگے ہیں راگ الاپنے کہ پاکستان میں بھی نوجوان کو سامنے لاؤ جوانوں کی حکومت ہو بابوں اور بابیوں کی چھٹی ہو .

یاد رکھیں کہ اگر دو یا زیادہ چیزیں موازنہ کے قابل ہیں، تو وہ ایک ہی قسم کی ہوتی ہیں یا ایک ہی صورتحال میں ہوتی ہیں. ذرا بنگالی لیڈر ناہید اسلام کے بارے میں تو جان لیں .ر وئٹرز کی خبر کے مطابق، چھبیس سال کے ناہید اسلام، جو شادی شدہ بھی ہیں ایک ٹیچر کے بیٹے ہیں. وہ اسی طلباء کی تحریک کے کوآرڈینیٹر ہیں جو حکومت کی نوکریوں میں کوٹہ کے خلاف تھی اور جو بعد میں حسینہ واجد کو ہٹانے کی مہم میں تبدیل ہوگئی۔ وہ جولائی 2024 کے وسط میں قومی شہرت میں آئے جب پولیس نے انہیں اور کچھ دوسرے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء کو حراست میں لیا کیونکہ احتجاج خونریز ہو گیا تھا۔

ناہید اسٹوڈنٹس ایگینسٹ ڈسکریمینیشن موومنٹ کے قومی کوآرڈینیٹرز میں سے ایک ہیں۔ یہ موومنٹ بنگلہ دیش میں حکومتی نوکریوں میں کوٹہ نظام کی اصلاح کی مطالبہ کررہی ہے، جو جون 2024 میں بنگلہ دیش کے عدلیہ کے فیصلے کے بعد شروع ہوا، جس نے بنگلہ دیش بنانے کے لیے یعنی "پاکستان سے آزادی کے مجاہدین” کی نسل کے لئے 30 فیصد کوٹہ کو دوبارہ جاندار بنا دیا۔ بنگلہ دیش میں گورنمنٹ جابز کے پہلے اور دوسرے درجے کی کل 56 فیصد نوکریوں میں کوٹے پر منحصر ہے۔ اس کا 30 فیصد حصہ ‘آزادی کے مجاہدین’ کے ورثاء کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس کوٹہ کو سیاسی طور پر استعمال کیا جانے والا ایک ناانصاف نظام کے طور پر وسعت سے مذموم کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں کیا ہوا ؟

ناہید اس احتجاج میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں خود بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنے . ہفتوں کے تشدد میں تقریباً 300 افراد، جن میں سے بہت سے کالج اور یونیورسٹی کے طلباء تھے، قتل ہو گئے. یہ ” ہلاکتیں ” صرف اس وقت رکنے لگیں جب پولیس اور فوج نے اپنوں پر گولی چلانے سے انکار کار دیا ، جب حسینہ واجد نے استعفیٰ دیا( یا لے لیا گیا). وہ پیر کو ہمسایہ ملک بھارت کی طرف فرار ہو گیئں (یا ان کے رشتے دار جنرل زمان نے ان کے اقتدار کو مزید طوالت سے بچایا اور ان کو محفوظ راہ فرار دے دی) . اب جنرل صاحب کو مزاکرات کرنے ہیں ناہید یا ان جیسے ہی نوجوان لیڈرز سے جن کے مطالبات ابھی تسلیم ہونا باقی ہیں.

اب آجاتے ہیں پیارے پاکستان کی جانب .یاد رکھیں پاکستان کی سول سروس میں صرف سات فی صد میرٹ ہے باقی صرف کوٹہ . کوٹے سے جڑی بہت تلخ داستانیں ہیں.اور ہر شعبے میں ہیں. میں کئی بار محکمہ صحت اور تعلیم کے قحط الرجال کا رونا رو چکی ہوں. اور یہاں کسی کا ہاضمہ ان ان ترش حقائق پر مبنی کہانیوں کو برداشت نہیں کر سکتا .

حسینہ واجد نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن مسکراہٹ جنم کے ساتھ ہی دفن ہوگئی ؟

رہی بات نوجوان قیادت کی یا ان کو پیروں کا استاد کرنے کی تو بات پوری کرنی چایئے . اشرافیہ نوجوان تو اب بھی صف اول میں ہیں. سیاست میں بھی اور ا کٹی وزم بھی اور یہ سلسلہ نسل در نسل سے قائم ہے . برا حال تو کمزور طبقات اور کمزور ڈومیسائل والوں کا ہے . طبقاتی تفریق اور سماجی نا انصافی کی بات بلوغت کی ہے اور تعلیم بالغان نامی پی ٹی وی پروگرام بھی کب کا بند ہو چکا .

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس بارہ سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں پاکستانی بہاری محصورین کے کےحوالے سے آگاہی بیدار کر رہی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے