میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘ یہ امریکا میں کاپر وائر کا بزنس کرتے تھے‘ بزنس بہت اچھا چل رہا تھا لیکن پھریہ اچانک سنگا پور شفٹ ہو گئے اور اب فیملی کے ساتھ وہاں رہتے ہیں‘ اسلام آباد میں ان کا چھوٹا سا گھر تھا‘ یہ اسے فروخت کرنے کے لیے یہاں آئے تھے اور تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس تشریف لے آئے‘ میں نے ان سے امریکا سے سنگا پور شفٹ ہونے کی وجہ پوچھی تو جواب نے مجھے حیران کر دیا‘ ان کا کہنا تھا پوری دنیا میں سب سے زیادہ کاروباری تسلسل سنگا پور میں ہے‘ 36 کلو میٹر اور 50 لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں 35 سال سے بزنس اور ٹیکس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ میں نے 1985 میں سنگاپور جانا شروع کیا۔
حکومت نے بزنس کے لیے جو پالیسی اس وقت بنائی تھی آج بھی وہی ہے‘ میں نے 1990 میں جو ٹیکس دینا شروع کیا تھا‘ میں آج بھی اسی تناسب سے دے رہا ہوں‘ اس میں ایک فیصد بھی فرق نہیں آیا چناں چہ جو بھی شخص سنگاپور میں رہنا شروع کر دیتا ہے یا پھر کاروبار اسٹارٹ کر لیتا ہے وہ اس کے بعد کسی ملک میں سیٹل نہیں ہو سکتا‘ مجھے انھوں نے یہ بتا کر مزید حیران کر دیا آپ اگر سنگا پور میں بزنس شروع کریں تو انشورنس کمپنیاں بزنس پالیسیوں کے تسلسل کی گارنٹی دیتی ہیں‘ آپ انشورنس لے سکتے ہیں کہ اگر حکومت نے اپنی بزنس پالیسی تبدیل کی تو نقصان انشورنس کمپنی برداشت کرے گی۔
آپ کو اس نوعیت کی انشورنس کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی‘ دوسرا سنگاپور جیسا لیونگ اسٹینڈرڈ کسی دوسرے ملک میں نہیں ‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں مظاہرے نہیں ہوتے‘ ملک میں 1964 میں 9 مئی جیسے آخری واقعات ہوئے تھے‘ 2008 میں 20 لوگوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کیا‘ پولیس نے انھیں منتشر ہونے کا حکم دیا‘ یہ نہیں مانے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا اور انھیں ایسی خوف ناک سزائیں دی گئیں کہ اس کے بعد ملک میں دوبارہ کوئی مظاہرہ نہیں ہوا‘ 2009 میں برما کے وزیراعظم کے وزٹ کے دوران تین برمی لوگوں نے بوٹینکل گارڈن میں مظاہرہ کیا‘ حکومت نے تینوں کو گرفتار کیا‘ پیک کیا اور برما کے حوالے کر دیا‘ وہ دن ہے اورآج کا دن ہے سنگاپور میں کوئی مظاہرہ نہیں ہوا‘ یہ ملک امن و امان میں بھی دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ بیس سال سے کرائم فری ہے۔
اسلحہ‘ منشیات اور خواتین سے دست درازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں گند پھیلانے پر ہزار ڈالر جرمانہ ہوتا ہے‘ چیونگم پر پابندی ہے‘ آپ کو پورے ملک میں چیونگم نہیں ملتی اور اگر کوئی چیونگم چباتا ہوا مل جائے تو اسے دو ہزار ڈالر جرمانہ ہو جاتا ہے‘ سگریٹ نوشی کی جگہ مخصوص ہے‘ اس کے علاوہ سگریٹ پینا تو دور آپ اسے ہاتھ میں بھی نہیں پکڑ سکتے‘ زیبرا کراسنگ کے علاوہ گلی یا سڑک پار کرنے پر بھی ہزار ڈالر جرمانہ ہوتا ہے اور اگر مجرم یہ غلطی دوسری بار دہرائے تو جرمانہ ڈبل ہوتا جاتا ہے‘ گاڑیوں کا لائسنس دس سال کے لیے دیا جاتا ہے اور اس کی فیس لاکھ ڈالر تک ہوتی ہے۔
کوئی شخص اپنے گھر میں ایک سے زیادہ ملازم نہیں رکھ سکتا‘ وہ خواہ وزیراعظم یا کھرب پتی ہی کیوں نہ ہو‘ وزیر اور سیکریٹری کی تنخواہ سب سے زیادہ ہوتی ہے چناں چہ حکومت اہل ترین لوگوں کو وزارت اور محکمے دیتی ہے‘ وزیروں اور سیکریٹریوں کی تنخواہیں لاکھ ڈالر ماہانہ تک ہوتی ہیں‘ حکومت پورے ملک سے 25 وزیر اور 25 سیکریٹری تلاش کرتی ہے اور یہ لوگ پھر واقعی کمال کر دیتے ہیں‘ حکومت انھیں دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ دیتی ہے لیکن پھر ان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘ شاید یہی وجہ ہے سنگا پور کے وزراء غلطی کے بعد خودکشی کر لیتے ہیں‘ وزراء کو سرکاری ملازم نہیں دیے جاتے‘ یہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں اوران کے لیے کوئی سگنل بند ہوتا ہے اور نہ پروٹوکول ملتا ہے تاہم وزیراعظم کے ساتھ پولیس کی ایک گاڑی ہوتی ہے اور بس۔
وہ صاحب بتاتے جا رہے تھے اور میں شرمندہ ہوتا جا رہا تھا‘ یہ 36 کلومیٹر کا چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس کا تجارتی حجم پوری مسلم ورلڈ سے زیادہ ہے‘ اس کے فارن ایکسچینج ریزروز 364بلین ڈالرز ہیں جب کہ یہ رقم صرف دکھائی جا رہی ہے‘ اصل ذخائر دو ٹریلین ڈالر ہیں‘ سنگا پور میں ہر سال 140 بلین ڈالر کی نئی سرمایہ کاری ہوتی ہے‘ یہ اب دوسرے ملکوں میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے سنگاپور بھارت کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے‘ اس نے یہاں 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
دنیا میں سب سے مہنگی زمین سنگاپور میں ہے‘ دوہزار ڈالر سے لے کر 10 ہزار ڈالر تک ایک اسکوائر فٹ زمین ملتی ہے اور اسے بھی آپ نیچے سے اوپر کی طرف بنا سکتے ہیں‘ 98 فیصد لوگ فلیٹس میں رہتے ہیں صرف دو فیصد لوگوں کے پاس گھر ہیں اور یہ گھر بھی انتہائی مہنگے ہیں‘ ایک ایک گھر کی مالیت 50 سے 100 ملین ڈالر ہوتی ہے‘ دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں کے دفتر وہاں موجود ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ اس کی بزنس پالیسیوں میں تسلسل ہے اور ملک میں امن ہے‘ حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں مگر بزنس اور صنعت کی پالیسی نہیں بدلتی‘ کاسٹ آف لیونگ بہت ہائی ہے لہٰذا دونوں میاں بیوی کو کام کرنا پڑتا ہے‘ اس وجہ سے پورا ملک ہنرمند ہے‘ آپ کو کوئی بھی شخص بے ہنر یا بے کار نہیں ملتا‘ گھروں میں کھانا نہیں بنتا‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ میاں بیوی دونوں مصروف ہوتے ہیں چناں چہ کھانا کون بنائے گا۔
دوسرا پورے ملک میں فوڈ وینڈرز ہیں اور ان کا کھانا انتہائی صحت بخش اور سستا ہوتا ہے‘ سنگاپور میں خوراک میں ملاوٹ یا گند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا لوگ باہر کھانا کھاتے ہیں یا باہر سے خرید کر لاتے ہیں‘ پورے ملک میں ڈے کیئر سینٹرز ہیں‘ والدین صبح اپنے بچے ان میں چھوڑ جاتے ہیں اور شام کو واپس لے جاتے ہیں‘ بچوں کی صفائی اور کھانا ڈے کیئر سینٹرز کے ملازمین کی ذمے داری ہوتی ہے اور یہ لوگ یہ ذمے داری پوری طرح نبھاتے ہیں‘ وزیراعظم کا بچہ بھی سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرے گا چناں چہ ان کا اسٹینڈرڈ بہت ہائی ہے‘ بچے اٹھارہ سال کے بعد خود مختار ہو جاتے ہیں لیکن انھیں رہنا والدین کے قریب پڑتا ہے‘ یہ اگر والدین سے دور رہیں گے تو ان کا فلیٹ مہنگا ہوتا چلا جائے گا اور یہ جتنا والدین کے قریب رہیں گے انھیں فلیٹ اتنا ہی سستا پڑے گا‘ حکومت انھیں سبسڈی دے گی‘ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں۔
والدین اکیلے پن سے بچے رہتے ہیں اور دوسرا یہ اپنے پوتوں اور نواسے نواسیوں کو وقت دیتے ہیں‘ اس سے حکومت کا ہیلتھ بجٹ کم ہو جاتا ہے‘ ملک چھوٹا ہے‘ زمین نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود ساڑھے تین سو پارکس ہیں‘ اپارٹمنٹ کی تمام عمارتوں کے اوپر بھی گارڈن ہیں‘ سڑکوں کے کناروں پر پودے لگے ہیں‘ آپ پورے ملک میں درخت نہیں کاٹ سکتے‘ پبلک ٹرانسپورٹ سستی اور پورے ملک میں دستیاب ہے لہٰذا لوگ ذاتی گاڑی کے بجائے یہ استعمال کرتے ہیں‘ ٹیکسیاں بھی سستی ہیں‘ ملک بزنس فرینڈلی ہے‘ آپ اگر کام کرنا چاہتے ہیں تو پورا سسٹم آپ کو سپورٹ کرے گا اور یہ سب کس کا کمال ہے؟ یہ صرف ایک شخص کا کمال ہے اور اس کا نام تھا لی کو آن یو۔
لی کو آن یو نے زندگی میں پانچ کام کیے اور جوہڑ سے ایک پورا ملک بلکہ پوری قوم ڈویلپ ہو گئی‘ اس کا پہلا کمال ایمان داری تھا‘ یہ بے انتہا ایمان دار تھا‘ پوری زندگی ایک پیسے کی بے ایمانی نہیں کی اور اس کے بعد اپنے گرد ایمان دار لوگ جمع کر لیے‘ یہ 23 مارچ 2015 کو فوت ہوا‘ سنگاپور اس وقت دنیا کی بڑی اکانومی تھا لیکن اس اکانومی میں اس کی کوئی کمپنی‘ کوئی فیکٹری‘ کوئی بلڈنگ اور زمین کا کوئی ٹکڑا نہیں تھا‘ وہ دنیا سے خالی ہاتھ واپس گیا‘ اس کا دوسرا کمال سادگی تھا‘ سنگاپور میں وزیراعظم کے لیے کوئی ذاتی جہاز نہیں‘ لی کو آن یو نے پوری زندگی سنگاپور ائیرلائین میں سفر کیا‘ اسے اگر کسی ایسے ملک میں جانا پڑ جاتا تھا جہاں سنگاپور ائیرلائین نہیں جاتی تو یہ اس کے قریب ترین ملک میں جاتا تھا اور پھر وہاں سے اس ملک کی ائیرلائین سے سفر کرتا تھا۔
اس نے پوری زندگی صرف ایک بار سنگاپور ائیرلائین کا جہاز ذاتی طورپر استعمال کیا اور وہ بھی اس کی بیگم برطانیہ میں بیمار تھی اور بیگم کو لانے کے لیے اسے پورا جہاز استعمال کرنا پڑ گیا لیکن اس نے اس پر پوری قوم سے معافی مانگی‘ یہ فادر آف نیشن تھا مگر اس کے باوجود اس نے 1990 میں اقتدار چھوڑ دیا اور وزیراعظم سے کابینہ کا سینئر وزیر بن گیا۔
اس کے بعد سنگاپور میں روایت پڑ گئی وزیراعظم ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر کی حیثیت سے کام شروع کر دیتا ہے اوراسے اس پر ذرا برابر شرمندگی نہیں ہوتی‘ لی کو آن یو کے بعد اس کا بیٹا لی شین لونگ وزیراعظم بنا‘ لی بیٹے کی کابینہ میں سینئر وزیر رہا‘ بیٹے کی مدت ختم ہوئی تو یہ بھی لارنس وانگ کی وزارت عظمیٰ میں وزیر بن گیا جب کہ ہمارے ملک میں ایک بار کا صدر یا وزیراعظم کابینہ کا رکن بننا تو دور ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں پاؤں رکھنا بھی پسند نہیں کرتا‘ لی کو آن کی پوری کابینہ سادہ تھی‘ وزراء بھی عام لباس پہنتے تھے اور اپنی گاڑی خود چلاتے تھے‘ تیسرا کمال میرٹ تھا‘ لی کو آن یو نے پوری زندگی میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کیا‘ اس نے 1980کی دہائی میں سرکاری ملازمین اور وزراء کو کارپوریٹ سیکٹر سے زیادہ تنخواہیں دینا شروع کیا‘ یہ بہترین دماغ اور اہل ترین لوگ سلیکٹ کرتا تھا ۔
لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا تھا‘ انھیں کارپوریٹ سیکٹر سے بھی زیادہ تنخواہ دیتا تھا اور پھر کام کرنے کی آزادی دیتا تھا‘ سنگاپور ان لوگوں نے بنایا‘ وہ کہا کرتا تھا ملک چلانے کے لیے 25 اہل وزراء اور 25 ایمان دار سیکریٹری چاہییں اور بس‘ وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت محبت کرتا تھا‘ ہر مہینے سنگاپور ائیرلائین سے کراچی آتا تھا‘ جنرل ضیاء الحق سے متاثر تھا‘ یہ اکثر انھیں کہتا تھا آپ اگر 20 کروڑ لوگوں میں سے 20 اہل لوگ تلاش نہیں کر سکتے تو پھر آپ کو شرم سے ڈوب کر مر جانا چاہیے۔
اس کا خیال تھا پاکستان دنیا میں کمال کر سکتا ہے‘ وہ پاکستان کو بہت سپورٹ کرتا تھا لیکن آخر میں وہ پاکستان سے مایوس ہو گیا‘ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان کو جی 20 (جی ٹونٹی) میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کا موقع ملا‘ پاکستان کو پہلی مرتبہ یہ اعزاز ملا تھا‘ سنگاپور بھی مبصر کی حیثیت سے جی ٹونٹی میں شریک ہوتا تھا‘ ہم دو مرتبہ ان میٹنگز میں شریک ہوئے اور اس کے بعد ہمیں کسی نے دعوت نہیں دی جب کہ سنگاپور آج بھی ان میٹنگز میں شریک ہوتا ہے‘ لی کو آن یو اس کا ذکر ہر پاکستانی لیڈر سے کرتا تھااور کہتا تھا ہم جی 20 میں شامل نہیں ہیں لیکن ہم ان ملکوں کے اجلاس میں بیٹھتے ہیں‘ اس سے ہم ٹرینڈ ہو رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے ہم کبھی نہ کبھی جی 20 کے ایکٹو ممبر ہوں گے۔
آپ کو بھی یہ موقع ملا تھا‘ آپ اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے مگر آپ نے یہ موقع ضایع کر دیا‘ کیوں؟ میں اس کی وجہ نہیں سمجھ سکا‘ آپ اس شخص کا وژن دیکھیں 2020کی جی ٹونٹی میٹنگ سعودی عرب میں ہو رہی تھی‘ لی کو آن یو 2015 میں انتقال کر گیا‘ سنگاپور کے سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے لہٰذا لی کو آن یو کو انتقال سے قبل 2015میں خدشہ محسوس ہوا سعودی عرب ہمیں میٹنگ میں شرکت کی دعوت نہیں دے گا۔
وہ بیمار اور بوڑھا تھا لیکن اس نے وزارت خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کی اور سفارتی ٹیم کو حکم دیا تمہارے پاس پانچ سال ہیں تم نے ان برسوں میں سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات اتنے بہترین بنانے ہیں کہ ہمیں ریاض سے جی ٹونٹی میں شرکت کا دعوت نامہ ملے‘ وزارت خارجہ نے کام شروع کر دیا‘ لی کو آن یو 2015 میں فوت ہو گیا لیکن 2020میں سعودی عرب کی طرف سے سنگاپور کو دعوت نامہ ملا اور حکومت نے اس کا باقاعدہ جشن منایا جب کہ ہمیں کس وقت جی ٹونٹی نے بلانا بند کر دیا ہمیں یاد تک نہیں‘ سنگاپور پورٹ طویل عرصہ دنیا کی بہترین پورٹ رہی‘ یہ پورٹ پاکستان کے نیوی آفیسر کیپٹن سعید نے بنائی تھی‘ لی کو آن یوکو کیپٹن سعید میں ٹیلنٹ نظر آیا اور یہ اسے کراچی سے سنگاپور لے گیا‘ یہ شخص اس قدر ٹیلنٹ پرست تھا۔
لی کو آن یو کا چوتھا کمال لاء اینڈ آرڈر تھا‘ اس کا کہنا تھا جس ملک میں امن نہ ہو وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا‘ یہ جنرل ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف تک سب کو ایک ہی مشورہ دیتا تھا آپ پاکستان میں امن قائم کر دیں‘ آپ کا ملک ترقی کر جائے گا‘ لی کو آن یو نے پوری زندگی سنگاپور کی کوئی سڑک بند نہیں ہونے دی‘ اس کے زمانے میں ایک بار سنگا پور ائیرلائین کے پائلٹس نے ہڑتال کی دھمکی دے دی‘ لی نے پائلٹس کو اکٹھا کیا اور کہا سنگاپور میں ڈومیسٹک فلائیٹس نہیں ہیں‘ ہم صرف انٹرنیشنل فلائیٹس چلاتے ہیں۔
دنیا کی دو سو ائیرلائینز میری ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر سنگاپور میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں‘ تم نے اگر کل تک ہڑتال کی دھمکی واپس نہ لی تو میں سنگاپور ائیرلائین کے تمام جہاز لینڈنگ رائٹس کے ساتھ کسی دوسری ائیرلائین کو دے دوں گا اور پھر سنگاپور میں کبھی سنگاپورین ائیرلائین نہیں بنے گی‘ تمہارے پاس فیصلے کے لیے 24گھنٹے ہیں‘ پائلٹس جانتے تھے یہ شخص جو کہتا ہے یہ وہ ضرور کرتا ہے لہٰذا پائلٹس نے اگلے ہی دن ہڑتال کی دھمکی واپس لے لی اور اس کے بعد کبھی ہڑتال نہیں ہوئی‘ ملک میں کبھی کوئی مظاہرہ‘ احتجاج یا ہڑتال نہیں ہوئی چناں چہ سنگاپور کا ایک‘ ایک شخص جانتا ہے میں کل جب سڑک پر نکلوں گا تو یہ کھلی ہو گی اور میرا دفتر‘ دکان اور یونیورسٹی پورا سال بند نہیں ہو گی لہٰذا وہاں کاروباری سرگرمیاں بند نہیں ہوتیں۔
اب سوال یہ ہے کیا ہم پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ہمارے ملک میں سب سے غیرمحفوظ سڑکیں ہیں‘ کوئی بھی شخص‘ کسی بھی وقت کوئی بھی سڑک بند کر دیتا ہے اور ریاست اس کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے‘ ہم سڑک بند کرکے سپریم کورٹ اور فوج تک کو اپنے فیصلے واپس لینے پر مجبور کر دیتے ہیں‘ لی کو آن یو نے ملک کو کرائم فری بھی کر دیا اور اس کے لیے اس نے چھوٹے چھوٹے جرائم کو چارے کے طور پر استعمال کیا‘ اس نے چیونگم پر پابندی لگا دی‘ گند پھیلانے کو جرم قرار دے دیا اور غلط جگہ سے سڑک اور گلی عبور کرنے کو سنگین خلاف ورزی بنا دیا‘ اس کا کہنا تھا آپ اگر عوام کوچھوٹے جرائم میں کڑی سزائیں دینا شروع کر دیں تو ان کے دل میں ریاست کا خوف بیٹھ جاتا ہے اور یہ کبھی بڑے جرائم کی غلطی نہیں کرتے‘ سنگاپور نے جب چیونگم‘ گند پھیلانے اور غلط جگہ سے سڑک یا گلی پار کرنے پر ہزار ڈالر سے دو ہزار ڈالر جرمانہ شروع کیا تو لوگ ڈر گئے اور یہ اب بڑی غلطی یابڑے جرم سے بھی دور رہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں جو شخص گلی میں لفافہ‘ شاپر یا ریپر پھینکنے پر معافی نہیں دیتا وہ چوری‘ زنا یا ڈاکے پر ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔
اسے اگر ہم سے اسلحہ مل گیا تویہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا چناں چہ سنگا پور کرائم فری سوسائٹی بن گیا جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں قتل کے 52ہزار مقدمات درج ہیں اور اتنے ہی قاتل جیلوں اور کچہریوں میں پھر رہے ہیں‘ آپ المیہ دیکھیے ہم سوا سال میں 9مئی کے ذمے داروں کا تعین کر سکے اور نہ انھیں سزا دے سکے اور لی کو آن یو کا پانچواں کمال بزنس فرینڈلی ماحول تھا‘ اس نے ایک ایسا سسٹم بنا دیا جس میں بزنس روزانہ کی بنیاد پر ترقی کرتا ہے لہٰذا پوری دنیا کے بزنس مین سرمائے‘ نام اور ٹیم کے ساتھ سنگاپور آ گئے‘ آپ دنیا کی کسی بڑی آرگنائزیشن کا نام لے لیں آپ کو سنگاپور میں اس کا آفس مل جائے گا‘ پوری دنیا کے باصلاحیت بزنس مین بھی سنگاپور میں آباد ہیں یا پھر ان کا زیادہ تر وقت سنگاپور میں گزرتا ہے‘ یہ سیاحت اور تفریح کا بھی بہت بڑا مرکز ہے۔
پورے ملک (شہر) میں ہزاروں کی تعداد میں ہوٹل ہیں‘ ہوٹلز کے اندر مالز ہیں اور مالز کے اندر ہوٹل ہیں‘ مجھے تین چار مرتبہ سنگاپور جانے کا اتفاق ہوا‘ میں نے مالز کے اندر سائیکل اور جوگنگ ٹریکس دیکھے‘ دسویں منزل پر بھی باغ اور پارکس بنے تھے‘ ہوٹلز کے اندر ’’رین فاریسٹ‘‘ ہیں‘ 34 کلومیٹر کے ملک میں یونیورسل اسٹوڈیوز اور ڈزنی لینڈ جیسے پارکس ہیں‘ آپ کو دنیا کی ہر چیز سنگاپور سے ملتی ہے‘ فیکٹریوں کے لیے جگہ نہیں ہے لہٰذا سنگاپور میں فیکٹریاںہائی رائز بلڈنگز میں قائم ہیں‘ مجھے پچھلے سال کوکا کولا کا ٹاور دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ20 منزلہ ٹاور تھا‘ فیکٹری بھی اسی میں تھی‘سیمنٹ فیکٹریاں بھی ٹاورز میں قائم ہیں‘ گوگل بھی ٹاور میں کام کر رہا ہے اور یہ سارا کمال ایک شخص نے تین دہائیوں میں کیا۔
ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں اگر لی کو آن یو اور 50 لاکھ لوگ یہ کمال کر سکتے ہیں تو 25 کروڑ لوگوں کایہ ملک کیوں نہیں کر سکتا؟ ہم بھی کر سکتے ہیں لیکن ہمیں اس کے لیے چند بنیادی فیصلے کرنا پڑیں گے‘مثلاً پہلا فیصلہ جمہوریت کا کھیل ہے‘ ہمیں ماننا ہو گا پاکستان میں جمہوریت بری طرح ناکام ہو چکی ہے‘ اس سے نوے فیصد ایسے بدترین اور نالائق لوگ نکلتے ہیں جنھیں بولنا آتا ہے اور نہ لکھنا پڑھنا‘ یہ پیسے‘ اثرورسوخ اور برادری کی مدد سے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں اورپھر ملک کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔
ہمیں اس کھیل سے عارضی طور پر جان چھڑانی ہو گی‘ ہم دس سال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنائیں‘ اہل ترین اور ایمان دار ترین لوگ تلاش کریں اور انھیں ملک چلانے کی ذمے داری دیں‘دوسرا‘ سال ڈیڑھ لگا کر پورے ملک کا سسٹم آن لائین کر دیں‘ کسی شخص کو کسی سرکاری دفتر نہ جانا پڑے‘ اس سے بیوروکریسی کا سائز اور اثرورسوخ کم ہو جائے گا اور وسائل کی بچت ہو گی‘تیسرا ‘ملک میں دس قسم کی ایجنسیاں اور 14 قسم کے احتسابی ادارے ہیں‘ یہ سب بند کر دیں‘ سنگاپور میں ایک پولیس اور کرپشن تلاش کرنے کا ایک ادارہ ہے‘ آپ بھی بس ایک ادارہ بنائیں اور اسے مکمل اتھارٹی دیں اور یہ کسی کو بھی نہ بخشے‘ وہ خواہ جنرل ہو‘ جج ہو یا سیاست دان ہو‘چوتھا‘ ملک کو بزنس فرینڈلی بنائیں۔
بزنس مین کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے‘ اسے کسی دفتر نہ جانا پڑے‘ یہ آن لائین کمپنی بنائے اور کام شروع کر دے‘پانچواں‘ ملک کی بزنس‘ انڈسٹریل اور اکنامک پالیسی ایک ہی بار بنادی جائے اور اس کے بعد حکومت آئے یا حکومت جائے اس پالیسی میں کامے اور فل اسٹاپ کی تبدیلی بھی نہیں ہونی چاہیے‘ چھٹا‘لاء اینڈ آرڈر بے شک فوج کے حوالے کر دیں لیکن یہ قطعی ہونا چاہیے‘ ملک میں کوئی احتجاج ہونا چاہیے اور نہ کوئی سڑک بند ہونی چاہیے‘ جرائم کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے‘ مجرم گرفتار ہو اور مہینے میں اسے سزا ہو جائے اورساتواں اور آخری نقطہ تمام روایتی تعلیم ختم کر کے پورے ملک کے تعلیمی اداروں کو سکلڈ انسٹی ٹیوٹس میں تبدیل کر دیں‘آپ یقین کریں یہ ملک چل پڑے گا کیوں کہ اگر لی کو آن یو نے ان فارمولوں کے تحت سنگا پور چلا لیا تھا تو ہم بھی چلا لیں گے بس نیت اور ہمت چاہیے۔
نوٹ: اکتوبرمیں ہمارا گروپ دوبئی اور باکو جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
+92 301 3334562, +92 309-1111311,+92 331 3334562