ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نام ایک کھلا خط

جناب ذاکر نائک صاحب!

آپ سے ہمارے معاشرے کی ایک روشن خیال لڑکی پلوشہ نے ایک سادہ مگر انتہائی اہم سوال پو چھا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ مذہبی عبادات کو پابندی سے بجا لانے کے باوجود لوگ منشیات، زنا اور ”پیڈافیلیا“ کے بڑھتے ہوئے رجحان میں شامل ہیں؟ آپ نے اس سادہ سوال کا جواب دینے کی بجائے لڑکی سے بدتمیزی کی، اس کے سوال کو غلط کہا اور معافی کا مطالبہ کیا۔ مزید آپ نے یہ کہا کہ اس سوال میں ”تضاد“ پایا جاتا ہے۔ ”تضاد“ کی نشاندہی آپ نے یوں کی کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ معاشرہ اسلامی ہو اور اس میں ”پیڈافائل“ بھی موجود ہوں۔ چونکہ وہاں ”پیڈافیلیا“ کی بات ہو رہی تھی، اس لیے گفتگو اسی تک محدود رہی۔

تاہم آپ کی بات کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ معاشرہ اسلامی ہو اور اس میں جرائم بھی پائے جائیں۔ میں یہاں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ”تضاد“ پلوشہ کی باتوں میں نہیں، بلکہ آپ کی باتوں میں پایا جاتا ہے۔ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں جرائم ہوں گے وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کی بات صحیح ہے تو مجھے یہ بتائیے کہ کیا شریعت اسلامی معاشروں کے لیے نہیں اتری تھی؟ کیا اس شریعت میں سزائیں شامل نہیں ہیں؟ کیا سزاوں کے بغیر شریعت مکمل ہو جاتی ہے؟ سزائیں جرائم کو پہلے سے تصور کر کے یا جرائم کے بعد متعین کی جاتی ہیں۔ اگر وہ اسلامی معاشروں پر لاگو نہیں ہوتیں، کیونکہ اسلامی معاشروں میں جرائم نہیں ہوتے تو پھر شریعت میں سزاؤں کو متعین کرنے کی وجہ کیا ہے؟ شریعت میں موجود سزاؤں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی معاشروں میں جرائم کا تصور ہی نہیں بلکہ جرائم بھی موجود ہوتے ہیں، اور ان ہی جرائم کی پاداش میں شریعت نافذ کی جاتی ہے۔

آپ کی بات سے یوں لگتا ہے کہ اسلامی معاشرے کا اسلامی شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی اسلامی شریعت (سزائیں) اسلامی معاشرے سے خارج ہے۔ تو کیا اسلامی شریعت کا اطلاق کسی غیر اسلامی معاشرے پر مقصود تھا؟ کچھ احباب یہ نکتہ تراش لاتے ہیں کہ اسلامی معاشرے اور مسلم معاشرے میں فرق ہوتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اسلامی معاشرے پر اسلامی شریعت کا اطلاق نہیں ہوتا، بلکہ اسلامی شریعت کا اطلاق مسلم معاشرے پر ہوتا ہے۔ لیکن اس عمل سے جو ”تضاد“ پیدا ہوتا ہے، اس کی تحلیل ممکن ہی نہیں ہے۔ فرض کریں کہ ایک ایسا اسلامی معاشرہ قائم ہو چکا ہے جس میں کوئی جرم سرزد نہیں ہوتا، لیکن جونہی جرم سرزد ہوتا ہے تو وہ اسلامی معاشرہ اسلامی نہیں رہتا بلکہ مسلم معاشرے میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور اس کے باوجود اس مسلم معاشرے پر اسلامی شریعت کا اطلاق ہوتا ہے، لیکن اسلامی معاشرے پر اسلامی شریعت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یعنی اسلامی شریعت اور اسلامی معاشرہ ایک جگہ نہیں ٹھہر سکتے۔ ظاہر ہے یہ ایک مضحکہ خیز صورتحال ہے۔

میں آپ سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ”ریاست مدینہ“ اسلامی معاشرہ تھا یا غیر اسلامی؟ کیونکہ ریاست مدینہ میں جرائم کا ارتکاب ہوتا تھا، اور انہی جرائم سے نبرد آزما ہونے کے لیے قرآن کی آیات نازل ہوتی تھیں۔ آپ چونکہ یہ کہتے ہیں کہ جہاں جُرم ہو گا وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہو گا، تو کیا ”ریاست مدینہ“ ایک غیر اسلامی معاشرہ تھا جس پر اسلامی شریعت نازل ہوئی تھی؟ کیونکہ اگر اسلامی شریعت اسلامی معاشرے پر قابلِ اطلاق نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ پھر یہ شریعت غیر اسلامی معاشرے کے لیے نازل ہوئی ہو گی۔ لیکن غیر اسلامی معاشرے پر اسلامی شریعت کے اطلاق کا تو مطلب ہی کوئی نہیں ہے۔ لہذا آپ کے پاس یہ تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ اسلامی شریعت اسلامی معاشرے کے لیے ہے۔

آپ نے اسلامی شریعت میں سے سزاؤں کو نکال کر کوئی الگ اسلام تشکیل دے دیا ہے، جبکہ اسلامی شریعت اپنی ”کلیت“ میں قابلِ اطلاق ہے نہ کہ جب چاہے اسے التوا میں بھیج دیں، اور جب چاہا لاگو کر دیں۔ ”تضاد“ پلوشہ کے سوال میں نہیں تھا، بلکہ آپ کی من گھڑت تعبیرات میں ہے۔ اسلامی معاشرہ وہی ہے جہاں اسلامی شریعت کا اطلاق ہوتا ہے، اور سزا جرائم پر ہی دی جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے