ہمک میں ایک نجی کیڈٹ کالج کے سی ای او، اور کمانڈنٹ کے خلاف بدسلوکی اور ہراساں کیے جانے کی رپورٹس پر ایکشن لیتے ہوئے چائلڈ پروٹیکشن انسٹی ٹیوٹ (سی پی آئی) نے، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) انتظامیہ کے تعاون سے کارروائی کرتے ہوئے، ایک کامیاب چھاپے کے نتیجے میں کالج ہاسٹل سے 11 طالبات کو بازیاب کرالیا۔
چھاپے کی قیادت سی پی آئی کی ڈائریکٹر جنرل رابیعہ ہادی نے اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر مہرین بلوچ کے ہمراہ کی۔ آپریشن کے دوران، ٹیم نے ہاسٹل کی سہولیات کا معائنہ کیا اور ماحول کو صحت مند زندگی کے لیے نا مناسب پایا۔ اس کے علاوہ اس بات کا نوٹس لیا کے ہاسٹل لڑکوں اور لڑکیوں کے یکساں استعمال میں ہے۔ ٹیم، جس میں ایریا مجسٹریٹ کامران صغیر اور سی پی آئی چائلڈ پروٹیکشن آفیسرز بھی شامل تھے، نے ہاسٹل کی خاتون وارڈن اور ایک نوجوان ٹیچر سے ملاقات کی جو صرف گریجویٹ تھی۔
"سی پی آئی فی الحال ہاسٹل کے معیارات اور ان قوانین کا جائزہ لے رہے ہیں ،جن کے تحت کالج رجسٹرڈ ہے۔ اس دوران لڑکیوں کو ہاسٹل سے سی پی آئی منتقل کر دیا گیا ہے۔ طلباء کےطبی معائنے کرائے گئے ہیں اور رپورٹ میں واقعہ کے ایک ماہ قبل زخموں کے نشانات کی تصدیق ہوتی ہے، "ڈی جی سی پی آئی ربیعہ ہادی کے بقول لڑکیوں نے ہیلپ لائن 1121 کے ذریعے سی پی آئی میں شکایت درج کروائی۔
خواتین طالبات کے بیانات کے مطابق، یہ مسئلہ مرد طالبات کے لیے تفریحی سرگرمیاں باقاعدگی سے ترتیب دیے جانے والے پروگرام کی طرح ہی باہر جانے کی درخواست کے ساتھ شروع ہوا۔ طالبات نے ہاسٹل کے حالات کو خستہ قرار دیا، جن میں تفریحی سرگرمیوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ آؤٹنگ 15 ستمبر کو ہونا تھی لیکن آخری لمحات میں منسوخ کر دی گئی جس سے لڑکیوں میں مایوسی پھیل گئی۔ لڑکیاں ایک کمرے میں جمع ہوئیں اور انتظامیہ کے مایوس کن رویئے پر بحث شروع کر دی۔ جونیئر اساتذہ نے اس واقعے کی اطلاع مرد انتظامیہ کو دی، اور تادیبی اقدامات کا مطالبہ کیا۔ مرد عملے کی سزا کے خوف سے لڑکیوں نے کمرے کو اندر سے بند کر دیا اور مرد عملے سے بات کرنے سے پہلے خاتون وارڈن کی موجودگی پر اصرار کیا۔ اس کی بجائے مرد عملے نے زبردستی دروازہ توڑ دیا۔
اس کے بعد کمانڈنٹ عبدالقدوس خان نے مبینہ طور پر لڑکیوں کو لاٹھی سے مارا اور جسمانی سزا جاری رکھتے ہوئے انہیں تقریباً 300 سیٹ اسٹینڈکی تکرار کرنے پر مجبور کیا۔ کالج کے سی ای او، وسیم اقبال نے مبینہ طور پر لڑکیوں کی کمر پرپائپ سے مارا۔ اس کے بعد طلباء کو 23 دن تک ہاسٹل میں قید رکھا گیا، ان کے والدین سے رابطہ کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس عرصے کے دوران، خاندانوں کے ساتھ بات چیت کی سختی سے نگرانی کی جاتی تھی، اگر انہوں نے بدسلوکی کا انکشاف کیا تو انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔
گھر واپس آنے کی اجازت ملنے کے بعد، لڑکیوں نے اپنے والدین کے ساتھ اپنے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک کے بارے میں بتایا، جس سے والدین کے ایک گروپ نے پولیس میں شکایت درج کرائی اور سی پی آئی سے مدد طلب کی۔ تاہم، وہ کالج حکام کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج کا انتظار کر رہے ہیں۔
چائلڈ پروٹیکشن آفیسرز (سی پی او) کی جانب سے پوچھ گچھ کرنے پر لڑکیوں نے انکشاف کیا کہ خاتون وارڈن نے انہیں بار بار ذہنی اور جذباتی تشدد کا نشانہ بنایا اور ان پر کی جانے والی زیادتی کے بارے میں خاموش رہنے کا دباؤ ڈالا۔ وارڈن نے نہ صرف لڑکیوں کو ملنے والی سزا کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سی ای او اور مالک کے اقدامات کو درست قرار دیا بلکہ انہیں ان کے کریکٹر سرٹیفکیٹ میں برے ریمارکس دینے کی دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا کہ وہ کسی دوسرے ادارے میں داخلہ نہیں لے سکیں گی۔
ڈی جی سی پی آئی ربیعہ ہادی نے متاثرین کو سی پی آئی کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ "لڑکیاں واضح طور پر صدمے کا شکار ہیں۔ اگرچہ بہت سے والدین نے اپنی بیٹیوں کو کالج سے نکال لیا ہے، کچھ اپنے تعلیمی ریکارڈ پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔ لڑکے ابھی تک اسی ہاسٹل میں مقیم ہیں۔ اس بدسلوکی کو جاری رکھنے کی بجائے، میں تمام والدین سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو فوری طور پر ہاسٹل سے نکال دیں اور جسمانی تشدد کے کسی بھی نشان کی جانچ کریں۔ اگر کوئی علامات پائی جاتی ہیں تو، یہ سفارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو غیر انسانی اور غیر قانونی سلوک برداشت کرنےکی بجائے ان کی ایسے ادارے میں تعلیم بند کردیں.
انہوں نے تمام والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کو داخلہ دینے سے پہلے بورڈنگ اداروں کی ساکھ کی اچھی طرح چھان بین کریں اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ان کے ساتھ کھلا رابطہ رکھیں تاکہ ان کے بچوں کو کسی بھی قسم کی زیادتی اور تشدد سے بچایا جا سکے۔