سود کی حرمت اور اسلامی بینکاری کا نظام

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں کے لئے اسلام مکمل رہنمائی اور گائیڈ لائنز عطا کرتا ہے۔اسلام نے معاشرتی اور اقتصادی انصاف کے قیام کے لیے سود کو سختی سے حرام قرار دیا ہے۔ سود ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف انفرادی سطح پر ظلم کا باعث بنتا ہے بلکہ پورے معاشرے میں معاشی ناہمواری،ناانصافی اور افراتفری کا سبب بن رہاہے ۔ اسی لیے اسلامی نظامِ معیشت میں سود کو ممنوع قرار دے کر ایک ایسا نظام متعارف کرایا گیا ہے جو انصاف، تعاون اور مساوات پر مبنی ہے۔ سب سے پہلے ہم سود کا معنی و مفہوم سمجھتے ہیں۔

سود کا لفظی معنی

سود کو عربی میں "الربا” کہا جاتا ہے، جس کا لغوی (لفظی) معنی ہے "بڑھوتری” یا "زیادتی”۔ یہ کسی چیز کے بڑھنے، زیادہ ہونے، یا کسی چیز کے اوپر اضافے کا مفہوم رکھتا ہے۔ الرِّبَا۔۔۔ راس المال پر جو بڑھوتری لی جائے وہ ربوٰ کہلاتی ہے۔

سود کا اصطلاحی معنی و مفہوم

اصطلاحی طور پر، سود سے مراد ایسی مالی زیادتی ہے جو بغیر کسی حقیقی محنت، کام، یا رسک کے ایک شخص دوسرے شخص سے وصول کرتا ہے۔ یہ وہ زیادتی ہے جو قرض یا مالی لین دین میں وقت کے بدلے وصول کی جاتی ہے۔ اسلامی شریعت میں، سود کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ کسی حقیقی معاشی سرگرمی یا خدمات کے بدلے میں نہیں لیا جاتا، بلکہ ایک شخص دوسرے کی ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔

سود کی حرمت قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید میں سود کے بارے میں کئی مقامات پر واضح طور پر سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو اس کی حرمت اور سنگینی کو بیان کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت کے چند فرامین آپ کی خدمت میں اس امید کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ آپ ان کو سن کر اور سمجھ کر سود جیسے قبیح عمل سے اپنے آپ اور اپنی نسلوں کو بچا سکیں۔

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ، وَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ۔

ترجمہ:”اے ایمان والو!کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ اور الله سے ڈرو،تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو اور اس آگ سے ڈرو، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“(آل عمران:131-130)
یہاں أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کر دینا۔ کفار عرب اور زمانہ جاہلیت میں ڈبل سود یعنی سود مرکب یا سود درسود لینے کا رواج موجود تھا اور یہ سود کی بدترین صورت ہے۔۔ (معارف القرآن)
ایک اور ارشاد ملاحظہ کیجیے:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ، ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ، وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا۔

ترجمہ: "جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود جیسی ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔”( سورۃ البقرہ، آیت 275)
اسی طرح اللہ کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۔

ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ اگر تم ایسا نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔” (سورۃ البقرہ، آیت 278-279)

سود کی حرمت حدیث کی روشنی میں

رسول اللہ ﷺ نے سود کی حرمت کے حوالے سے واضح ارشاد ات فرمائے ہیں۔ ہم یہاں چند احادیث نقل کرتے ہیں تاکہ ہمیں حرمت سو د ذہن نشین ہو۔

حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:

"لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ” وَقَالَ "هُمْ سَوَاءٌ”

ترجمہ: "رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔”(مسلم شریف)
ایک اور حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"اَلدِّرْهَمُ الرِّبَا الَّذِيْ يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ اَشَدُّ عِنْدَ اللهِ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِيْنَ زِنْيَةً”

ترجمہ: "ایک درہم سود جو آدمی جان بوجھ کر کھائے، اللہ کے نزدیک چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہے۔”(ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”سود خوری کے ستر حصے ہیں ان میں سے ادنیٰ او رمعمولی ایسا ہے جیسے اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنا۔“
حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس قوم میں زنا اور سو دکا ظہور ہوا اس قوم نے یقینا الله کا عذاب اپنی جانوں پر اتار لیا۔“ (مجمع الزوائد)
قرآن کریم کی ان آیات اور فرامین رسول ﷺ کی روشنی میں اہل ایمان کو درس ملتا ہے کہ ہرحال میں اپنے آپ کو سودی معاملات سے بچائے.

سودی نظام کی سماجی برائیاں اور تباہ کاریاں

سود ہر اعتبار سے قبیح اور مفسد ہے۔ یہ نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی اور سماجی طور پر بھی بہت ساری برائیوں اور مسائل کا باعث بنتا ہے۔ ان میں سے چند ایک برائیاں عرض کردیتے ہیں:

معاشرتی اور سماجی ناہمواریاں

سودی نظام میں امیر لوگ مزید امیر اور غریب لوگ مزید غریب ہوتے چلے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرتی ناہمواری اور عدم مساوات بڑھتی ہے۔سودی نظام کے رائج ہونے سے معاشرتی ور سماجی ناہمواریاں روز بڑھتی ہیں۔

غربت اور کسمپرسی میں اضافہ

سود کی وجہ سے غریب افراد پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بجائے قرض کی ادائیگی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور پھر لاینحل مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں جن کا لازمی نتیجہ غربت اور کسمپرسی ہے۔

معاشرتی انصاف کا فقدان

سودی نظام کی وجہ سے سرمایہ دار طبقہ مزید فائدے میں رہتا ہے جبکہ غریب طبقہ استحصال کا شکار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی انصاف قائم نہیں ہو پاتا۔اس وقت دنیا میں سودی نظام کی وجہ سے توازن نہیں ہے اور معاشرتی انصاف ناپید ہوکر رہ گیا ہے۔

معاشی بحران

سودی لین دین کی بنیاد پر بنائے گئے مالیاتی نظام دنیا کو بارہا معاشی بحرانوں کی طرف لے جاتے ہیں، جیسے کہ عالمی مالیاتی بحران جو اکثر سودی قرضوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔بالخصوص مسلم دنیا اس کا خمیازہ بھگتی رہتی ہے۔

موجودہ سودی نظام معیشت کی ہمہ گیری

ہم میں سے یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ موجودہ دور میں پوری دنیا سرمایہ دارانہ سودی نظام اور معیشت میں جھکڑا ہوا ہے۔ اس نظام کو یہودی ساہوکاروں نے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے۔سود عالمی اقتصادی نظام میں خون کی طرح گردش کررہا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ بینک لوگوں کے روپیہ اور دولت جمع کرتے ہیں اور پھر بڑے بڑے سرمایہ داروں،اور سودی بزنس کرنے والوں کو قرضوں پر دیتے ہیں۔اسی طرح بالخصوص تیسری دنیا کے غریب ممالک ان بڑے مالیاتی اداروں اور بینکوں سے حکومتی اور عوامی فلاح و بہبود کے نام پر قرضیں لیتی ہیں اور پھر سود سمیت لوٹانا شروع کردیتی ہیں۔اور یہ سب کچھ ظالمانہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ایسی ہی صورت حال کی وجہ سے ہم پاکستانی سودی قرضوں میں جھکڑے ہوئے ہیں۔ ہم موجودہ عالمی سودی نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں وہ حدیث رسول ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب عام امت اس میں ملوث ہو کر رہے گی۔

اسلامی بینکنگ کا نظام بطور متبادل

اسلامی بینکنگ ایک ایسا نظام ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں مالیاتی امور کو انجام دیتا ہے۔ اس کا مقصد سود سے پاک، حلال اور انصاف پر مبنی مالیاتی خدمات فراہم کرنا ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ اسلامی بینکنگ کا موجودہ نظام سوفیصد سود سے پاک ہے بلکہ یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ عالمی مالیاتی سودی نظام کے اندر اپنی تمام ترکمزوریوں کے باجود اسلامی بینکنگ کا نظام مسلمانوں کے لئے نعمت سے کم نہیں۔ اور یہ سودی بینکاری کے متبادل کے طور پر دنیا بھر میں اپنی جگہ بناچکاہے۔

دنیا کے جید علماء کرام نے عمر بھر کی کاوشوں سے اس نظام کو ترتیب دیا ہے۔اور وہ خود بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ نظام سوفیصد سود سے پاک نہیں لیکن دیگر سودی بینکاریوں سے یہ اسلامی بینکاری کا نظام بدرجہا بہتر ہے۔ ان علماء کی شبانہ روز محنت اور قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں جو بینک قائم ہوئے ہیں ان سے استفادہ کرنا مناسب ہے۔ان کے کاروبار وغیرہ کے چند اہم اصول ہیں۔

1۔ مشارکت:

دونوں فریقین منافع اور نقصان میں شریک ہوتے ہیں، جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔

2۔ مضاربہ:

ایک فریق سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا فریق کاروبار کرتا ہے، اور منافع دونوں میں تقسیم ہوتا ہے۔

3۔ مرابحہ:

بینک اشیاء کو خرید کر صارف کو بیچتا ہے، جس میں بینک اپنے منافع کا اضافہ کرتا ہے، لیکن یہ منافع سود پر مبنی نہیں ہوتا۔
اب مشارکت، مضاربہ اور مرابحہ کی جدید شکلیں اور اسلامی بینکوں میں اس کی تفصیلات آپ کو یہ اسلامی بینکوں کے صاحبان اور بینکوں سے وابستہ علماء کرام اور محققین بہتر بتا سکتے ہیں۔

مسلمانوں کے لیے ترغیب

مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سود کے معاملات سے خود کو مکمل طور پر بچائیں اور اپنے مالیاتی امور کو اسلامی بینکوں کے ساتھ منسلک کریں۔ دنیا بھرکے اسلامی معیشت کے ماہر علماء کرام کی آراء اور تحقیقات کی روشنی میں اسلامی بینکنگ نہ صرف حلال ہے بلکہ اس سے معاشی اور سماجی انصاف کا قیام بھی ممکن ہوتا ہے۔پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا ایک بڑا نام مفتی تقی عثمانی مدظلہ ہیں۔ جو میرے استاد بھی ہیں۔میں ان کی تحقیقات اور عالمانہ کاوشوں کی بنیاد پر آپ حضرات سے بھی گزارش کروں کہ آپ اپنے مالی معاملات کو اسلامی بینکوں سے وابستہ کریں۔انشا ء اللہ آپ عنداللہ و عندالناس ماخوذ نہیں ہونگے۔

خلاصہ کلام

اللہ تعالیٰ ہمیں سود کی لعنت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی ہدایت دے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی مالیاتی امور کو اسلامی بینکوں کے ذریعے انجام دیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ آمین۔

نوٹ: یہ مقالہ بینک اسلامی گلگت کے17 اکتوبر 2024 کے سیمینار کے لیے لکھا گیا ہے اور سامعین و شرکاء کو پڑھ کر سنایا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے