بوسہ حجر اسود اور آئینی ترمیم

بالا آخر چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کو قابل احترام محترم مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی اپنے بھر پور بوسے سے نواز دیا ہے۔ چلو اس بہانے مفتی صاحب کا دیدار و واعظ تو نصیب ہوا ورنہ ایک سال سے ملک میں جاری ہیجان کی کیفیت پر مفتی صاحب کی لب کوشائی کے انتظار میں لوگ نظر التفات جمائے بیٹھے رہے۔

کئی سال پہلے عمرے کی سعادت ملی تو حجر اسود کو بوسہ دینے کی بارہا کوشش کے باوجود ناکام رہا ، وجہ یہ تھی کہ یہاں موجود لوگوں کا جم غفیر جو بہت زور وشور سے ایک دوسرے کو دھکہ دیکر آگے بڑھنے کی سعی میں احترام انسانیت کو روند رہا تھا، کو دیکھ کر فقط دور سے استلام کو ہی مناسب سمجھا ، کیونکہ ہم نے مفتی تقی جیسے عالموں کی نشستوں میں ہی سُنا ہے کہ احترام انسانیت فرض یا اولین ہے ۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو چھبیسویں آئینی ترمیم جو کہ ہر حال میں اتفاق رائے کی متقاضی تھی کو پائے تکمیل تک پہنچانے کےلئے ملک میں اخلاقی حدوں اور قانونی پاسداری کو پس پشت ڈال کر اس پر متنازعہ آئینی ترمیم کا لیبل چسپاں کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں چھوڑی گئی۔ جس کےلئے انسانیت کی بے رحم تذلیل ، بغیر کسی جُرم کی پاداش میں عورتوں کی بازاروں میں محلوں میں سر عام بے توقیری ، انہیں جیلوں میں ڈالنا، بچوں کے سامنے لوگوں کو گھروں سے اُٹھا کر غائب کر نا، وفاداریاں تبدیل کرنے یا ترمیم کے حق میں ووٹ کےلئے اربوں روپوں میں منتخب نمائندوں کی خرید و فروخت یعنی ظلم و بربریت کا بازار ہر طرح سے گرم کیاگیا۔

اس پورے غیر اخلاقی ، غیر جمہوری ، غیر قانونی اور حتی کہ غیر شرعی طریقہ واردات نے ترمیم کو واضح طور پر متنازعہ بنایا ۔ علمائے کرام ، صاحب ادراک ، اور کچھ دانشوروں کی مصلحت پسندی یا خاموشی نے بھی اسے تقویت بخشی۔ جس کے نتیجے میں ہم بحیثیت مجموعی پر عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ بحر حال یہ ایک غلط روایت کی بنیاد ڈالی گئی ہے جس کا اثر شائد سالوں زائل نہ ہوسکے۔ اس پر عالمی سطح پر بننے والے تاثر کے بعد ہمارے مذہبی ، سیاسی اور عسکری اکابرین کا غزا کے باسیوں پر جاری ظلم و بربریت اور کشمیر پر بیان کی حیثیت فقط نمائشی حد تک رہ جاتی ہے ۔

آئینی اصلاحات کا نفاذ بیشک وقت کی ضرورت ہو سکتی ہے ، اس پر بھر پور مقالمہ اور اس پر بحث و مباحثے سے پیدا ہو نے والا اتفاق رائے ہی صحیح معنوں میں جمہوریت کا حُسن ہے۔ اس کے بر عکس غیر اخلاقی و غیر قانونی طریقہ سے کی جانے والی ترمیم جمہوریت پر ایک بد نما داغ رہتا ہے۔

سود کا خاتمہ بالا شُبہ ہر مسلمان کی دیرینہ دلی خواہش ہے۔ اگر چہ ترمیم میں سود سے متعلق شق کا شامل ہونا ایک خوش آئند بات ہے تاہم انسانیت پر ظلم و جبر ، بنیادی حقوق کی پامالی ، غیر قانونی گرفتاریوں ، اغوا، تشدد اور عورتوں کی سر عام تذلیل و رسوائی پر وجود میں آنے والی متنازعہ ترمیم میں سود کی شق ( جو کہ 2028 تک ایک طرح سے غیر مئوثر ہے ) پر داد وصول کرنا ناقابل فہم ہے اور جبکہ اسکے بعد کی صورتحال بھی مبہم ہے۔

یہاں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اللہ کے حضور سود کی داد لیتے وقت اگر انسانیت کے قتل پر خاموشی کا جواب مانگ لیا گیا تو ۔؟؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے