’’اگر آرٹسٹ پولیٹکلی کمٹڈ نہیں ہے تو اُس کا آرٹ ریلیونٹ نہیں ہے، کیوں ڈاکٹر؟‘‘
”مجھے اِس بحث میں کیوں الجھا رہے ہیں؟“
”سیریسلی!“
”آرٹسٹ کسی بھی پولیٹکل آئیڈیالوجی میں یقین رکھے یا کسی بھی پولیٹکل پارٹی کا ممبر بن جائے یہ اُس کا نجی فیصلہ ہے، میں اِسے اُس کے آرٹ کے ریلیونٹ ہونے کی شرط نہیں مانتا لیکن ایک بات طے ہے، اعلیٰ ادب اور آرٹ، بیسویں صدی میں تو خاص کر، کسی نہ کسی قسم کے پروٹسٹ کے جذبے سے پیدا ہوا ہے، یہ پروٹسٹ محض سیاسی تھا یا سماجی اِس کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے لیکن آرٹسٹ کے مَن میں پروٹسٹ کا جذبہ بے حد طاقتور تھا، چاہے کوئی بھی سیاسی نظام ہو ظلم کے خلاف آواز اٹھانا آرٹسٹ کی اہم ذمہ داری ہے۔‘‘
یہ مکالمہ 1984میں بنی فلم ’پارٹی‘ کا ہے، منظر کچھ یوں ہے کہ ایک ڈنر پر دو مہمانوں کے درمیان بحث ہوجاتی ہے کہ کیا کسی ادبی فن پارے کو محض ادبی پیمانے پر جانچنا چاہیے یا یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اُس فن پارے سے سیاست اور سماج میں کیا بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔اویناش (اوم پوری) یہ سوال ڈاکٹر (امریش پوری) سے کرتا ہے جس کے جواب میں یہ مکالمہ ہے۔ ایسی عمدہ اداکاری اور ایسے لاجواب مکالمے ہیں کہ بندہ اَش اَش کر اٹھتا ہے، لیکن فی الحال یہ فلم ہمارا موضوع نہیں، موضوع وہ سوال ہے جو اِس مکالمے میں اٹھایا گیا ہے، اور اُس کے ساتھ یہ سوال بھی کہ ایک ادیب جو ادب تخلیق کرتا ہے اور جن خیالات کا پرچار وہ اپنے آرٹ کے ذریعے کرتا ہے کیا وہ خود بھی اُن نظریات پر عمل کرنے کا پابند ہے؟
چند روز پہلے دوستوں کی ایک محفل میں یہ دونوں سوال زیر بحث آئے، کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ شاعر، ادیب، یاتخلیق کار کو اُس کی ذات سے علیحدہ کرکے محض اُس کے فن کی روشنی میں پرکھنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے کوئی شخص بے حد عمدہ فنکار یا مصور ہو اور جب وہ کوئی جن پارہ تخلیق کرے تو لوگوں کو مائیکل اینجلو یاد آجائے، مگر ذاتی زندگی میں وہ کسی عام انسان کی طرح منہ پھٹ، بد زبان اور بیہودہ گفتگو کرنے والا ہو تو کیا محض اِس وجہ سے اُس کی بنائی ہوئی تصویر کو رد کردینا چاہیے؟ اسی طرح اگر کوئی شاعر اپنے کلام سے لوگوں کا دل گرمائے، ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دے اور کہے کہ ’’دنیا میں قتیل اُس سا منافق نہیں کوئی…جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا‘‘لیکن ذاتی حیثیت میں علاقے کے تھانیدار سے بھی ڈرتا ہو تو کیا اِس بشری کمزوری کے سبب اُس کے کلام کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے؟
اِس قسم کے سوالات کا ریاضی کے انداز میں دو جمع دو چار کرکے جواب نہیں دیا جا سکتا، ہر سیچویشن مختلف ہوتی ہے اور اُس کے حساب سے ہی رائے قائم کی جاتی ہے، لیکن کسی بھی صورتحال کا موازنہ کرنے سے پہلے ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ادیب اور آرٹسٹ فانی انسان ہیں اور اِن میں سے کوئی بھی فرشتہ یا پیغمبر نہیں لہٰذا کسی تخلیق کار سے پیغمبرانہ اوصاف کی توقع رکھنا انصاف کی بات نہیں۔ ہر انسان کو تھوڑی بہت منافقت اور نرگسیت کی اجازت ہوتی ہے ،فنکار لوگ بھی اِس سے مبرّا نہیں، لیکن منافقت اور نرگسیت، دونوں کی ایک حد ہے، اگر یہ حد سے بڑھ جائیں تو ناقابل برداشت ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اچھی شاعری پر سر دھُنتے ہیں اور اسی سرمستی کے عالم میں شاعر کو تخلیق کار ہونے کی رعایت دیتے ہوئے اکثر اُس کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز بھی کردیتے ہیں جو کہ مناسب اور جائز بات ہے۔
لیکن اگر کوئی لکھاری دن رات اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پامالی پر نوحے لکھتا ہو اور دوسری طرف ذاتی زندگی میں کسی یتیم کے چار آنے ہڑپ کرنے سے بھی نہ چُوکتا ہو تواسے اِس منافقت کی اجازت بہرحال نہیں دی جا سکتی لہٰذا اُس کی تحریروں کو کُوڑے دان میں پھینک کر آگ لگا دینی چاہیے۔ اِس کی ایک مثال جرمن فلسفی Jurgen Habermas ہے، 94 برس کا یہ شخص اسرائیل کی ننگی جارحیت کا حامی ہے، انٹر نیٹ پر اِس کے دقیق فلسفیانہ خیالات کی تفصیل موجود ہے لیکن یہاں میں بھی اوم پوری کی طرح وہی سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کے حق میں موقف رکھنے کے بعد کیا اب اِس شخص کے وچار ’ریلیونٹ‘ ہیں؟ میری رائے میں اِس صورتحال میں جواب ناں میں ہے۔ کوئی بھی بڑا تخلیق کار، فلسفی یا آرٹسٹ اپنے اردگرد ہونے والے ظلم سے بیگانہ نہیں رہ سکتا، اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر وہ بڑا ادیب یا لکھاری نہیں۔
لیکن بات اِس قطعیت کے ساتھ ختم نہیں کی جا سکتی۔ ہر شخص سے ہر وقت ہر قسم کی مزاحمت کی توقع رکھنا درست نہیں۔ ادب محض مزاحمت کا استعارہ نہیں بلکہ یہ جشن کا اظہار بھی ہے اور زندگی کو درپیش پیچیدہ مسائل کا فسانہ بھی۔ دنیا میں مختلف قسم کے Activist ہیں، کوئی جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرتا ہے تو کوئی موسمیاتی تبدیلیوں کی آگاہی کی مہم چلاتا ہے، جبکہ اسی دنیا میں روزانہ لاکھوں بچے بھوکے سوتے ہیں، تو کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ جانوروں سے پہلے اِن بچوں کی خوراک کا بندوبست کرنا چاہیے ورنہ یہ ایکٹوزم کسی کام کا نہیں، لیکن یہ طعنہ وہ لوگ دیتے ہیں جو خود نہ جانوروں کیلئے کام کرتے ہیں اور نہ ہی بچوں کیلئے۔ اسی طرح ادب کی بھی مختلف جہتیں ہیں، اگر کوئی شخص مزاح پارے تخلیق کرتا ہے یا رومانوی شاعری کرتا ہے تو بہرحال اُس کا کام ادب کی ذیل میں ہی آئے گا البتہ اگر اُس نے کسی مرحلے پر کوئی موقف اپنایا تو یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ وہ موقف کیا تھا، ظلم اور نا انصافی کے حق میں یا اُس کے خلاف۔ اسی طرح کچھ لوگ ایک خاص نظریے کے حامی ہوتے ہیں، مثلاًایک شخص اگر عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے اور اسی موضوع پر ڈرامے لکھتا ہے، فلمیں بناتا ہے، شاعری کرتا ہے، تو اُس کو بھی اسی نظریے کے تحت پرکھا جائے گا کہ عملی زندگی میں اُس کا عورتوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہے، یہ ممکن نہیں کہ اُس تخلیق کار کو اُس کے کام سے علیحدہ کرکے دیکھا جائے۔
بات کچھ زیادہ ہی ثقیل ہوگئی۔ ابنِ صفی نے ایک مرتبہ اپنے کسی ناول کے پیشرس میں لکھا کہ اکثر لوگ مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ مجھے میری کہانیوں میں ملیں، ذاتی ملاقات میں، میں بھی آپ کو روس اور امریکہ پر بات کرکے بور ہی کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ ادیبوں کیلئے اِس سے بہتر مشورہ ممکن نہیں، اگر وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی عزت بنی رہے اور لوگ انہیں اُن کے وچار کی بدولت اعلیٰ و ارفع کردار کا مالک سمجھتے رہیں تو انہیں چاہیے کہ ابن صفی کی ہدایت پر عمل کریں اور ذاتی ملاقاتوں سے احتراز کریں، میں بھی چونکہ چھوٹا موٹا ادیب ہوں، اِس لیے یہی کرتا ہوں۔
بشکریہ جنگ