انسان دنیا میں کوئی کام بھی کرتا ہے تو اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کر لے اور مقصد حاصل ہونے کے بعد کچھ خوشیاں ایسی مبارک ہوتی ہیں ۔ کہ ان کی خوشبو انسان کو ہمیشہ تروتازہ رکھتی ہیں۔ لیکن مقصد یا خیر کی خوشبو کے ساتھ ساتھ نفس اور انسان کے ازلی دشمن شیطان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ انسان کو مقصد جاننے سے پہلے ہی اُس کے ہر فعل میں تھوڑی سی ریاکاری کی ملاوٹ شامل ہو جائے تا کہ ہر عمل کی ہمیشہ رہنے والی چاشنی کو ختم کر کے اسے وقتی روشن کر دیا جائے۔ اسی منزل کو طے کرنے کے لیے انسان اور شیطان میں ایک خفیہ جنگ چل رہی ہوتی ہے جو بظاہر ہمیں نظر نہیں آتی۔ لیکن اگر آنکھ ایسی ہو جو شیطان کی ہر چال کو دیکھ سکتی ہو تو پھر نظر آنا مشکل بھی نہیں ہے۔ اور وہ آنکھ تب نصیب ہوتی ہے جب انسان اپنے آپ کو ڈھونڈ لے۔
جوانی وہ عرصہ حیات ہے جب انسان خود کو پہچان سکتا ہے اور جو انسان عمر کے اس حصے میں اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے وہ اپنی زندگی کا مقصد بھی سمجھ جاتا ہے۔ پھر اسے نہ تو سوشل میڈیا کی رنگینی متاثر کر سکتی ہے اور نہ ہی شیطان کی کوئی چال، وہ جب چلتا ہے تو اپنے مقصد پہ چلتا ہے ۔ اپنے رب کی رضا ہر وقت اس کے ارادے میں پیوست ہوتی ہے۔ وہ اپنے عظیم مقاصد میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
لیکن جو نوجوان اپنی عمر کے اس بہترین حصے میں اپنے مقاصد میں ریاکاری شامل کر لیتے ہیں وہ ہمیشہ تذبذب کا شکار ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کی رنگینی سے متاثر رہتے ہیں ان کے اندر کا سکون تباہ و برباد رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ دباؤ میں رہتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ بھٹک جاتے ہیں کیوں کہ واضح مقاصد ان کی زندگی میں نہیں ہوتے۔ انہوں نے ہمیشہ ہر کام میں نیت ریاکاری کی شامل کر لی ہوتی ہے۔ ریاکاری، خود غرضی، منافقت کی ابتدا ہوتی ہے تو ہر کام کی بنیاد کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ پھر ہر فعل دکھلاوے، داد سمیٹنے اور لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جو کہ در اصل ایک گہری دلدل ہے۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ خود غرضی یا ریاکاری کی دلدل میں پورا معاشرہ ہی اتر چکا ہے۔
مثال کے طور پر کسی عزیز و اقارب یا دوست کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آن پہنچا ہے۔ خوشی کے موقع پر مبارک باد دینا اور ہدیہ پیش کرنا بہت ہی اچھی بات ہے لیکن یہاں بھی سب سے پہلے ریاکاری و خود غرضی کا عنصر شامل ہوتا ہے، ہدیہ پیش کرنے سے پہلے یہ سوچا اور دیکھا جاتا ہے کہ اُس شخص نے ہماری خوشی کے موقع پر کتنا ہدیہ دیا تھا ،ہم کچھ پیسے اس میں مزید شامل کر کے سب کے سامنے پیش کر کے اور اپنا نام رجسٹرڈ میں درج کروا کر واپس آئیں گے۔ اور پھر ایسے ہی ہوتا ہے حالانکہ اسی ہدیہ نے بہت بڑے اجر وثواب اور محبت بڑھنے کا ذریعہ بننا تھا۔ لیکن ریاکاری کی ملاوٹ نے اسے داغ دار بنا دیا۔ مزید عجب یہ ہے۔ کہ کسی رشتے دار یا عزیز و اقارب میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو عیادت کرنا مسلمان کا مسلمان پہ حق ہے لیکن اس سے بڑی کیا خودغرضی ہو سکتی ہے کہ پہلے اپنی تاریخ نکال کر دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے فلاں فلاں بیمار ہوئے تھے اور یہ نہیں آئے تھے۔ ایسی خودغرضی ، ریاکاری انسان کو ہمیشہ اندھیروں کی طرف لے جاتی ہے۔ سکون غارت ہو جاتا ہے۔ اندر کا امن ختم ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر وہ ان سب چیزوں کو لے کر اس دنیا سے ایک دن رخصت ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص اپنی زندگی کو قیمتی نہیں بنا سکتا۔ زندگی کارآمد بنانی ہے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس منفرد مقصد کے لیے بھیجا ہے وہ سمجھنا پڑے گا کچھ اہداف طے کرنے ہوں گے۔
ہر ہدف میں رضا خداوندی کو اوّلین پہ رکھنا ہو گا۔ اور اپنے آپ کو اس بات پہ قائل کرنا ہو گا کہ آج کے بعد دنیا بھر سے کوئی بھی عارضی چیز، جدید ٹیکنالوجی سے جڑی روشنیاں، رنگ و چمک مجھے متاثر نہ کر پائے گی۔ میرے اوّلین اہداف میں اپنے آپ کو اندر اور باہر سے مظبوط کرنا ہے۔ پھر اپنے اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے جب آپ اپنے مقصد کو پہچان لیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہو جائے گی ان شاءاللہ۔ پھر آپ ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گے۔ حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں ”جو کسی مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں اور جو بغیر مقصد کے جیتے ہیں، وہ جیتے نہیں“ .
موت تو برحق ہے اور ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے روزانہ کئی ہزار لوگ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور کئی ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یقیناً خوش نصیب وہ ہیں۔ جو دنیا میں آئے۔ دنیا میں آنے کے مقاصد کو سمجھا ان کو دنیا کوئی چمکیلی چیز بھٹکا نہ سکی۔ اللّٰہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھا۔ اپنی زندگی میں کنفیوژن کا شکار نہیں ہوئے۔ اگر دستک دی تو صرف اپنے مالک کے دروازے پر دستک دی۔ مال و دولت کو ضرورت کی حد تک اہمیت دی اس کے غلام نہ بنے۔ جنہوں نے اپنے مالک سے کہا کہ جو تیری مرضی ہے وہی میری مرضی ہے میں تیرے فیصلوں پر راضی ہوں۔ ہر خوشی اور غم میں تجھ سے ہی رجوع کرتا ہوں۔ یقیناً ان لوگوں کے لیے ہی کہا جائے گا ”اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو ، اور وہ تجھ سے راضی ،“