خواتین و حضرات اسلام ُعلیکم!میں کراچی کے نامور صحافی جناب حسن امام صدیقی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرا تعارف جناب جنید احمد سے کروایا۔ پہلے ان سے فون پر بات ہوئی اور پھر اسلام آباد میں اِن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت ان کی کتاب” 1971 Ethnic Cleansing of Biharis in East Pakistan "میرے پیش نظرہے۔ جس کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اِن کی فکر میں توانائی اور نظر میں گہرائی پائی جاتی ہے ۔ اس سےپہلے کہ میں اس کتاب پر گفتگو کروں میں چاہوں گا کہ حاضرین محفل سے مختصراً الفاظ میں جناب جنید احمد کا تعارف کروا دوں۔جنید احمد صاحب 11جنوری 1953کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ گویا آپ پیدائشی پوٹھوہاری ہیں۔آپ کے باقی بہن بھائیو ں کی پیدائش بھی پاکستا ن کی ہے ۔ آپ کے والدین 13اگست 1947میں ہجرت کر کے پاکستان آئے،اس طرح آپ مہاجر ہونے سے بچ گئے۔ آپ کے والد کا تعلق بریلی جب کہ والدہ کا تعلق الٰہ آباد سے ہے۔
اب میں اس کتاب کی طرف آتا ہوں جس پر مجھے بات کرنی ہے سرورق سے ہی عیاں ہے کہ کتاب میں کیا ہے۔ مشرقی پاکستان سر سبز و شاداب علاقہ ہے جسے ہمیشہ سبزرنگ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ جب کہ اسی کتاب کے سرورق پر مشرقی پاکستان کو سرخ رنگ سے دیکھا یا گیا ہے یعنی پاکستانیوں کے خون نے اِ سے سرخ کر دیا ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ ملک کے مایہ ناز ماہر تعلیم و معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن صاحب نے تحریر کیا ہےجو آج کل Nust Institute of Policy Studies (NIPS)اسلام آباد کےڈائریکٹر جنرل ہے۔ یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی جناب جنید احمد سے اجازت چاہوں گا کہ اس کتاب سےہٹ کر بہاریوں کی قربانیوں کے بارے میں بھی بات کروں کیوں کہ میں تاریخ کا عینی گواہ ہوں۔
پہلا باب: تعارف Introduction
اس باب میں انھوں نے 1971کے مشرقی پاکستان کا محل و قوع رقبہ ، 18ضلعوں کے نام بمعہ آبادی کا ذکر کیا ہے۔ 1971میں مشرقی پاکستان کی آبادی 75 ملین تھی۔ جس میں بنگالی 93.4%بہاری 5%ہندو اور بدھ مت کے ماننے والے 2.5%اس کے علاوہ پنجابی 0.5%، پٹھان0.25%، سندھیوں کی تعداد 0.25%سے کم تھی۔آپ نے اس بات کو عیاں کیا ہے کہ بہاریوں نے مشرقی پاکستان کیوں ہجرت کی ۔ا س کی کئی وجوہات ہیں ۔تقسیم ہند کے وقت یوپی۔ سی پی، مدراس کلکتہ میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔اس بات کا ذکر اس کتاب میں نہیں ہے کہ 1946میں بہار کے فسادات میں35-40ہزار مسلمان شہید ہوئے۔
شہاب الدین رحمت اللہ آئی سی ایس نے اپنی آپ بیتی "شہاب بیتی”صفحہ نمبر 22-21پر لکھتے ہیں کہ "مرحومہ بیگم ایچ اے حاکم (H.A HAKAM) سابق ایم ایل اے بنگال نے مجھے ڈھاکہ میں بتایا کہ ان کی موجودگی میں قائد اعظم نے غیر رسمی طور پر یہ انکشاف کیا کہ انھیں اس بات کا گمان بھی نہ تھا کہ پاکستان کاقیام ان کی زندگی ہی میں عمل میں آ جائے گا لیکن بہار کا المیہ اسے وجو د میں لانے کا سبب بنا۔ قائد اعظم کے الفاظ یہ تھے۔
“ I never thought that Pakistan would come into being in my lifetime. But the tragedy of Bihar has brought it. ”
23-22برس قبل روزنامہ Dawnمیں اختر پیامی کا مضمون Bihar Carnage…کے عنوان سے مضمون شائع ہو ا تھا۔اس کے مطابق نومبر1946میں بہار کے فسادات نے جولائی 1947میں ہونے والے ریفرنڈم کی کامیابی پر مثبت اثر ڈالا ۔مارچ1946میں ہونے والے صوبائی عام انتخابات جوکہ سارے ہندوستان میں ہوئے اس میں اس بات کا فیصلہ ہونا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ برصغیر ہندوستان کی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے کہ نہیں۔ کانگریس اس بات کی دعویدار تھی کہ بشمول مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہندوستان کی تمام قوموں (communities)کی ہے جس میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی مخصوس 30نشستوں (seats)پر مکمل کامیابی حاصل کی۔
صوبائی اسمبلی کے لئے انتخابات مارچ 1946ء میں منعقد ہوئے جس میں سوائے صوبہ سرحد (NWFP)کے تمام صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ صوبہ سرحد میں پچاس مسلم نشستوں میں سے صرف سترہ پر کامیابی ملی۔ اس کے نتیجے میں زیادہ مسلم نشستوں پر کامیابی کی وجہ سے کانگریس نے صوبائی اسمبلی کے ہندو ممبران کے تعاون سے صوبہ سرحد میں حکومت بنائی۔ڈاکٹر خان صاحب نے جو کہ خان عبدالغفار کے بھائی تھے ،کانگرس کے لیڈر ہونے کے ناطے صوبائی حکومت قائم کی اور چیف منسٹر بن گئے۔ ان کے بھائی خان عبدالغفار خان صوبائی کانگریس پارٹی کےتسلیم شدہ لیڈر رہے ہیں۔ وہ گاندھی کے اتنے کٹر پیرو کار تھے کہ انھیں عام طور پر سرحدی گاندھی کہا جاتا ہے۔عبدالغفار خان ایک سخت با اصول اور مضبوط عقیدہ رکھنے والے شخص تھے جن کا صوبہ سرحدمیں بہت زیادہ اثرو رسوخ تھا ۔ وہ مسلم لیگ اور اس کے نظریے کےخلاف تھے لیکن یہ تعجب خیز حقیقت ہے کہ 1946ءکے الیکشن کے ایک سال بعد صوبہ سرحد کا سیاسی ماحول صوبائی مسلم لیگ کے حق میں یکسر تبدیل ہو گیا اور اس کے نتیجے میں مسلم لیگ نے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کی وجہ سےصوبہ سرحد ہندوستان کا حصہ بننے کے بجائے پاکستان کاحصہ بن گیا۔
اس واقعے کا ذکر ضروری ہے کہ جو صوبہ سرحد میں ریفرنڈم میں مسلم لیگ کی کامیابی پراثر انداز ہوا۔ وہ سید امام الدین تھے جوکہ مسلم لیگ کے سر گرم کارکن تھے، صوبہ سرحد میں ریفرنڈم سے پہلے وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ صوبہ سرحد گئے اپنےہمراہ وہ قتل شدہ مسلمانوں کے خون آلودہ لباس اور جوتےبھی لے گئے۔ انھوں نے یہ چیزیں تباہ شدہ دیہاتوں سے جمع کی تھیں۔خوش قسمتی سے وہ اور خان عبدالقیوم خان جو کہ صوبہ سرحد کی اسمبلی میں اقلیتی پارٹی مسلم لیگ کے رہنما تھے. ان میں اس وقت سے دوستی تھی جب وہ لندن میں پڑھتےتھے۔ خان عبدالقیوم خان نے انہیں خوش آمدید کہا اور صوبہ سرحد میں مختلف جگہوں پر عوام سے خطاب کرنے کےلئے جلسے جلوسوں کے انتظامات کئے ۔ہرجلسے میں سید امام الدین نے شعلہ فشاں تقاریر کیں۔ جس میں انھوں نے بہار میں ہونےوالے دلخراش و درد ناک واقعات بیان کئے۔جب لوگوں کو خون آلودہ چیزیں دکھائی گئیں تو شہیدوں کےلئے ان کے دِلوں میں ہمدردی پیدا ہوئی۔ آہستہ آہستہ پختونوں کے دِلوں میں مسلم لیگ کے لئے دِلی جذبات بیدا ر ہوئے۔
دوسری وجہ جو آپ نے تحریر کی ہے کہ "اقتصادی مواقع” بہتر ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ہجرت کی۔تیسری وجہ جو آپ نے تحریر نہیں کی کہ قائد اعظم نے تمام سنٹرل سرکاری ملازموں کو پاکستان آنے کےلئے کہا جس پر انھیں ایک فارم بھرنے کو کہا گیا کہ آپ پاکستان جائیں گے یا ہندوستان میں رہیں گے۔ اس پر 99%مسلمان سرکاری ملازموں نے پاکستان کو OPTکیا جو ملازمین بہار ، بنگال ، اڑیسہ یعنی مشرقی حصے میں تعینات تھے انھیں مشرقی پاکستان آنے کے لئے کہا گیا چاہے اُن کا تعلق ہندوستان کے کسی بھی علاقے سے ہو۔ اِسی طرح مغربی حصے میں تعینات ملازمین کو مغربی پاکستان جانے کےلئے کہا گیا۔
چوتھی وجہ یہ تھی کہ بہار کے مسلمانوں کا یہ خیال تھاکہ پاکستان ان کےووٹ اورخون سے بنا ہے۔ اور اس پر ان کاحق ہے اور یہ اِن کا ملک ہےاس لئے وہ پاکستان آئے ۔انھوں نےOPTپاکستان کے لئے کیا نہ کہ مشرقی پاکستان کے لئے۔ مشرقی پاکستان میں تمام اردو بولنے والوں کے لئے لفظ "بہاری” استعمال ہونے لگا جو بعد میں” شالہ بہاری ” ہو گیا۔(1947-1971) کےدوران بہاریوں نے مشرقی پاکستان کی معیشت اور ترقی میں نمایاں کلیدی کردار اد ا کیا ہے۔
بنگالی بہاری کےتعلقات : Bengali, Bihari Relations
اس عنوان کے تحت آپ نے صفحہ نمبر5 پر بنگالیوں اور بہاریوں کے تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ 1947ء میں بنگالیوں نے بہاریوں کو خوش آمدید کہا ۔لیکن ان میں بنگالی لیڈران اے۔کے فضل الحق ، سہروردی، ناظم الدین شامل نہیں تھے۔ جن بہاریوں کے پاس ملازمت اور کچھ رقم تھی اُن کا گزر بسر تو ہوگیا۔ لیکن عام مہاجروں کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس سلسلے میں شہاب رحمت اللہ کی کتاب "شہاب بیتی” دیکھی جا سکتی ہے۔ عام بنگالی بہاریوں کی عزت اور محبت کرتے تھے ۔ کومیلا میں social scientistاختر حمید خان جنھوں نے ان کے لئے بہت کام کیا بنگالی ان سے آج بھی عقیدت رکھتے ہیں۔ میں نے بنگالی میڈیم اسکول ، کالج، یونیورسٹی میں پڑھا مگر بہاری ہونے کی وجہ سے کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ڈھاکہ میں نوٹرڈیم کالج Notre Dame College ہے جسے امریکن حکومت کی سر پرستی حاصل ہے ۔لاہور کے گورنمنٹ کالج کی جو حیثیت ہے وہی ڈھاکہ میں اس کالج کو حاصل ہے۔ میں جب ا س کالج میں لیکچرار کی پوسٹ کے لئے انٹر ویو دینے گیا تو وہاں 35-30بنگالی امیدوار بھی موجود تھے۔ انٹرویو لینے والے امریکن پرنسپلRev.J.Vanden Bossche اور باٹنی کے پروفیسر ہندو بنگالی داس صاحب تھے۔ انہوں نے ایک بہاری یعنی مجھے اس post کے لئے منتخب کیا۔ عام بہاری اور بنگالیوں میں بھائی چارگی تھی۔ مغربی پاکستان سے جو good will mission کا وفد آتاتو اسے بنگالی سر آنکھوں پر بٹھاتے۔بہاریوں اور بنگالیوں کے مابین بے شمار شادیاں ہوئیں۔ آپ لکھتے ہیں کہfavoritism shown towards Biharisاور اردو کو قومی زبان کا درجہ دیئے جانے کی وجہ بھی تعلقات کی خرابی کا باعث بنی۔
پہلی بات تو یہ کہ عام بہاریوں یا مہاجرین کے لئےحکومت ِ پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ آدم جی اور اصفہانی اور دیگر بڑے بڑے تاجروں کو نوازا گیا۔ مہاجر چھوٹی چھوٹی ملازمتیں یا دکانداری کرتے تھے۔ ایوب خان نے محمد پور اور میر پور بنایا لیکن مفت میں نہیں اس وقت کے کئی ہزار روپے میں اسی گز (80) کے پلاٹ پر ایک 10 x 10فٹ کا کمرہ ، بیت الخلاء اور کچن بناکر دیا۔ یہاں بھی حکومت غلطی کر گئی غریب اور بے گھر بنگالی بھی تھے۔50%گھر اگر بنگالیوں کو بھی دے دیئے جاتے تو کیا بگڑتا۔ نفرت تو پیدا نہیں ہوتی۔ جو مہاجر بشمول بہاری، مغربی پاکستان آئے تو ان کو کلیم میں گھر اور زمین دی گئی جب کہ مشرقی پاکستان میں ایک مرلہ زمین بھی مہاجروں کو نہیں دی گئی۔زبان اور کلچر کےلحاظ سے بنگالی بہاریوں سے بالکل مختلف ہیں لیکن اس میں ڈھلنے کےلئے صدیوں چاہیئے۔ 24سال میں کیا کاک ٹیل بن جاتا ؟عمر رسیدہ لوگوں کو چھوڑکر ایسا کوئٰی بہاری نہیں ہے جو بنگلہ بول نہ سکے۔ میری نسل کے لوگ تو بنگلہ لکھ پڑھ سکتے ہیں میں نے بھی میٹرک بنگالی میڈیم سے کیا۔اسکولوں میں سب بنگالی لڑکے اردو بطور ایک اختیاری مضمون پڑھتے تھے اس میں میں بھی شامل تھا۔جتنے مدرسےوہاں تھے ان میں اردو میں تعلیم دی جاتی تھی۔ بنگالیوں نے اردو میں ایم اے کیا کالج میں لیکچرار لگے۔ کئی بنگالی اردو کے شاعر و ادیب پیدا ہوئے۔ اس سلسلے ڈھاکہ کالج کے پروفیسر اقبال عظیم مرحوم کی کتاب "بنگال میں اردو” دیکھی جا سکتی ہے۔ بنگالی کچھ کر ے یا نہ کرے مگر وہ گالی اردو میں دیتے تھے۔
قومی زبان:
جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا تو ڈھاکے میں احتجاج شروع ہو گیا ،تب بات چیت کے بجائے گولی چلائی گئی ۔ تین بنگالی ڈھاکہ میڈیکل کالج کے گیٹ پر مارے گئے۔ شہید مینار بنا جو کہ بنگلہ دیش بننے کا باعث بنا۔ گولی چلانے کا حکم دینے والے کون تھے؟ یہ تھے جناب مسعود محمود جو وعدہ معاف گواہ بن کر زیڈ اے بھٹو کی پھانسی کا باعث بنے۔ اردو تو مفت میں بدنام ہوئی مشرقی پاکستان کو تو رہنے دیں آج بھی پاکستان میں "خستہ اردو کے بغیر کون سے کام بند ہیں”(غالب سے معزرت کےساتھ ۔جی۔م۔ملک) ،1965 کی جنگ تک بنگالی پکے پاکستانی تھے ۔ ہندوستان کے خلاف جلسے جلوس نکالتے۔ ہر وہ کام کیا جو ایک پاکستانی کو کرنا چاہیے تھا۔ ان کو حکومت میں حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ان میں احساس محرومی پیدا ہوا ۔ وہاں کی تمام اعلیٰ پوسٹوں پر مغربی پاکستان کےلوگ تھے کوئی بھی بہاری نہ تھا یا شاید اِکا دوکا ہو۔ یہ تو ایک فطری عمل ہے کہ جن لوگوں نےخون اور ووٹ دے کر پاکستان بنایا وہ کیسے پاکستان کے خلاف ہو کر بنگلہ دیش کا نعرہ لگاتے ۔ لاکھوں لوگ مارے گئے لیکن پاکستان کے نام سے غداری نہ کی۔
جنید صاحب لکھتے ہیں کہ 2009ء میں حکومت بنگلہ دیش نے citizenship rightsدے دی۔ اب اس کی کہانی بھی سن لیجئے۔ اِن کو کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔ اس کیمپ کی زمین لاکھوں میں ہے۔ زمین مافیا ان کو وہاں سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ 2008ء میں بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ نے چند بہاریوں کی petition (جو دراصل بنگالی قبضہ مافیا نے دلوایا )پریہ فیصلہ دیا کہ جو بنگلہ دیش میں پیداہوئے اُنہیں صرف ووٹ کا حق حاصل ہے۔ سیٹیزن شپ کا اختیار نہیں دیا ہے۔ اگر سیٹیزن شپ کااختیار دے دیتے تو انہیں زمین و جائیداد بہاریوں کو واپس کرنا پڑتا ۔یہ ایک نہایت مزاحیہ فیصلہ ہے۔ کیو نکہ وہ پاسپورٹ بھی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ کیمپ کی حالت یہ ہے کہ وہاں آ پ ایک دن بھی نہیں رہ سکتے ۔ ملازمت ہے نہیں ، خواتین غیر اخلاقی کاموں پر مجبور ہو گئٰی ہیں۔
باب نمبر ۲: Brewing Storm
اس عنوان کے تحت آپ نے مشرقی بنگال کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے جس میں انیسویں صدی ADسے 1947ء تک کے مختلف ادوار کا ذکر ہے ۔ بنگال میں مغل دورِ حکمرانی (1557-1757)میں معیشت میں بہت زیادہ ترقی ہوئی۔
نوابوں کے دورکا ذکر (1717-1757) ۔جس وقت مغل کمزور ہو رہے تھے اس وقت کے نواب مرشد قلی خان نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے "مرشد آباد” کے نام سے نیا دارلخلافہ بنایا پھر بنگال کے نواب سراج الدولہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کے ادوار میں بنگال میں ہر شعبہ زندگی میں بہت ترقی ہوئی اور خوشحال بنگال کے نام سے پکارا جانے لگا۔ 1757ءمیں جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ مارے گئے۔ اس شکست نے مسلمانوں اور ہندوستان کی تاریخ و قسمت بدل دی۔
برٹش راج:
برٹش راج کے دوران تنزلی آئی اور بر طانوی بنگال کا خزانہ جمع کرنے لگے اور اپنی تجوریاں بھرنے لگے اس کے لئے انہوں نے منفی قانون پاس کیا۔1857ء میں جنگ آزادی میں شامل ہونےوالوں میں منگل پانڈے اور منی رام دیوان کا بھی ذکر ہے۔ انگریزوں نے پنجابیوں اور پٹھانوںکو مارشل ریس جب کہ بنگالیوں کو فوج کے لئے نا مناسب قرار دیا۔تعلیم یافتہ بنگالیوں کو انھوں نے سرکاری ملازمتوں کے لئے منتخب کر کے ان کی ایک کلاس پیدا کی جسے "بھدرولوگ” یعنی شریف آدمی کہا جانے لگا۔ جب کہ اس دور میں پٹ سن (جوٹ) اور نیل کی صنعت کو ترقی ملی۔ میں یہ بتاتا چلوں کہ نیل کے کھیت کے انگریز مالکوں کو "نیل صاحب” کہا جاتا تھا۔ ان کے ظلم و ستم پر کہانیاں اورناولیں تحریر ہوئیں جو میں نے بنگلہ زبان میں پڑھی ہیں ۔ بنگالیوں نے 1857ءکی جنگ آزادی میں بھی حصہ لیا۔ ڈاکٹر جنید احمد نے تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کیا کہ بنگالی قوم عرصہ دراز سےیعنی قدیم دور سے ہی اپنے حقوق پرمر مٹنے کے لئے تیار رہتی تھی۔ بنگالی مسلمان جفا کش اور دور اندیش قوم ہے انھوں نے قیام پاکستان کی جدو جہد میں ہر اول دستے کا کام ہے۔ مسلمانوں کی حقوق حاصل کرنے کے لیئے 1906ءمیں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ 1940ءکی قرارداد میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحٰدہ مملکت کے قیام کی بنیاد ڈالی گئی اور 14اگست 1947ءمیں پاکستان وجود میں آیا ۔
پاکستان کی آزادی:
اس عنوان کے تحت صفحہ نمبر 10پر جنید صاحب لکھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے شروع کے دس سال پاکستان سیاسی طور پر غیر مستحکم رہا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد لیڈر شپ کا خلاء پیدا ہو گیا۔ لیاقت علی خان کو اپوزیشن کا سامناکرنا پڑا۔ آئین بنانے میں تاخیر ہوئی ۔ سیاسی پارٹیوں میں اندرونی خلفشار اور مہاجروں کی آمد اس کی وجہ سے تھی۔گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا نے حکومت کو تحلیل اور سیاسی کھیل میں بھر پور کردار ادا کیا۔ اس دوران سات وزیر اعظموں نے حکومت کی۔زبان اور احمدیوں کے مسئلے و سیاسی تناؤ کو مزید بڑھایا ۔محمد علی بوگرا (جوپرائم منسٹر بھی بنے) نے یہ تجویز دی کہ آبادی کے تناسب سے حکومتی طاقت (power)یا ذمہ داریاں (sharing)تقسیم کی جائیں لیکن اس تجویز کو پنجابی لیڈروں نےرد کر دیا۔ 1955ءمیں” ون یونٹ” نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی 56%تھی مگرسیاسی نمائندگی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان62%ریونیو دیتا تھا لیکن قومی بجٹ میں اُسے 30%ملتا تھا۔ بنگالی لیڈران مثلاً فضل الحق اور سہروردی نے بھی اس کی شدید مخالفت کی۔ سردار عبدالرشید (سابق سی ایم NWFP) کے مطابق
“One Unit Scheme was cover for Punjabi Domination”
1965ء کی جنگ کے بعدمشرقی پاکستان کے لوگوں نے خود کونظر انداز کرنا محسوس کیا ۔ مجیب الرحمن ٰ نے چھ نکاتی مشرقی پاکستان کی خودمختاری مانگی جو 1971ء کی جنگ کا باعث بنی۔انہوں نے اس باب میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین سماجی اور معاشرتی فرق کو بھی اجاگر کیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں اہم عہدے جیسے چیف سیکرٹری فائنانس ،پلاننگ سیکرٹر ی اور ہوم سیکرٹری پر مغربی پاکستان کے لوگ فائز تھے۔
تیسرا باب: ہندوستان کی سازش India’s Machinations
2016میں شائع ہونے والی کتاب Creation of Bangladesh Myth Exploded میں آپ نے جو تحقیق و تحریر کیا تھا، اسے دوبارہ شامل کیا ہے ۔ مختصراً ہندوستان نے پاکستان کے خلاف ہر قسم کی دشمنی کی،سفارتی سطح پر پاکستان کو علیٰحدہ کرنا ، refugeeکا مسئلہ، مکتی باہنی (Mukhti Bahini) بنا کر پاکستان میں داخل کیا جس نےخون ریزی کا بازار گرم کیا اور بنگلہ دیش کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
Hindu Media: The Indian Propaganda Machine
اس میں ڈاکٹر جنید احمد لکھتے ہیں کہ پاکستان دو لخت ہونے میں ہندوستانی میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔ انہوں نے یہ پراپیگنڈہ بہت کامیابی سے چلایا ۔ جس سے پاکستان میں بین الاقوامی طورپر رائے عامہ پر بہت اثر انداز ہوا۔
The Agartala Conspiracy and It’s Impact on Pakistan
جولائی 1966ء میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے مشرقی پاکستان میں ایک سازش کا انکشاف کیا وہ یہ ہے کہ لفیٹنٹ کموڈور معظم حسین اور شیخ مجیب الرحمٰن نے ہندوستان کے شہر اگر تلہ میں ہندوستانی افسروں نے آزادی کے لئے ملٹری کی مدد کی بابت گفتگو کی ہے۔ جس پر پہلے پہل تو لوگوں میں ناراضگی پائی گئی لیکن بہت ہی غلط طریقے سے مقدمہ چلانے پر مجیب کے لئے لوگوں میں ہمدردی پیدا ہوگئی۔ ان کی مقبولیت بہت بڑھ گئی ۔ میں ان د نوں ڈھاکہ میں ہی تھاprotest کا دور شروع ہوا ۔بات اتنی بڑھی کہ مجبوراً حکومت نے مجیب کو رہا کردیا۔عبدالحفیظ کا رداد (پی ۔پی کے لیڈر اور کرکٹر)کے مطابقAyub made martyr of Mujib by insinuating the Agartala Conspiracy میں یہ بتایا چلوں کہ مجیب کے چھ نکات لاہور کے جیلانی صاحبہ کے گھر تحریر ہوئے۔ بحوالہ جنگ میگزین سیکشن راولپنڈی(ج۔م۔ملک)۔
چوتھا باب: Mukti Bahini Its Creation,Organization training and operation
اس میں ہندوستان کی RAW Agency کے کردار کو بیان کیا گیا ہے۔ جس نےمکتی باہنی قائم کیا اور اسے چلایا ۔ اس سلسلے میں R.K. YADAV اور B. RAMAN کا نام قابل ذکر ہے۔ مکتی باہنی کی کئی شاخیں بنائی گئیں جن کو علیٰحدہ علیٰحدہ ذمہ دار یاں دی گئیں۔
باب پنجم: Awami Leagues on Rampage : Revolt Starts
عوامی لیگ کی ہنگامہ آرائی بغاوت کا آغاز: 7 دسمبر 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے160 جب کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں 81 سیٹ حاصل کی تھیں۔
مشرقی پاکستا ن میں ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ووٹ ڈالنے والے ڈبے بھر ے جاچکے تھے۔ عوامی لیگ کے علاوہ کسی اور کو جلسے جلوس کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ڈھاکہ اسٹیڈیم کے پیچھے جماعت اسلامی نے اپناجلسہ کیا جس سے مولانا مودوی صاحب نے خطاب کرنا تھا۔ اس جلسے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی مگر جلسہ شروع ہوتے ہی کئی ہزار ڈنڈے بردار عوامی لیگ کے غنڈے جلسے پر حملہ آور ہوگئے جس سے ہزاروں لوگ زخمی ہوئے اور جلسہ نہ ہوسکا۔
شیخ مجیب بجا طورپر وفاقی سطح پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا مگر ایک کے بعد ایک وجہ بتاکر قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔ یحییٰ خان کی حکومت اسے ہی تاخیر کرتی رہی (یحییٰ بھٹو کے ساتھ لاڑکانہ میں شکار کھیلتے رہے،ج۔م۔ملک)۔آخر کار یہ اعلان کیا گیا کہ اسمبلی کا اجلاس تین مارچ 1971ء کو منعقد ہوگا۔ لیکن آئندہ کی کوئی تاریخ دئیے بغیر یحٰیی نے پہلی مارچ کو اسے ملتوی کردیا۔ اس پر شیخ مجیب اور عوامی لیگ نے صبر کا دامن چھوڑدیا۔ یکم مارچ 1971ء دوپہر کو یحییٰ خان کی تقریر کے ایک گھنٹے کے اندر ہی شیخ مجیب نے پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد یکم سے25 مارچ 1971ءتک جو کچھ ہوا،اس کی روئیدار یہ ہے کہ ہرجگہ بہاریوں کا قتل عام شروع ہوگیا ساتھ ہی لوٹ مار ، جلاؤ گھیراو کا بازار گرم ہوگیا۔ صفحہ نمبر107 ، جدول نمبر10 میں کس شہر میں کتنے بہاری اور غیر بنگالی قتل ہوئے دیکھایا گیا ہے میر ے خیال میں اسے دوباہ دیکھنے کی ضرورت ہے ، مثلاً میری معلومات کے مطابق سانتا میں بہاریوں کی آبادی 35-40 ہزار تھی جس میں سے صرف سو دوسو لوگ ہی زندہ بچے تھے۔
پہلی مارچ1971ء کے بعد ایک طرف اقدار کا کھیل جاری تھا تو دوسری طرف مشرقی پاکستان میں چاروں طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ عوامی لیگ کے مسلح ورکرز ، باغی پولیس، باغی ایسٹ پاکستان رائفلر (EPR) باغی ایسٹ بنگال رجیمنٹ (EBR) کی نفری پاکستان آرمی کی بکھری ہوئی یونٹوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی اور شہید کر رہے تھے۔محب وطن غیر بنگالیوں عرف عام بہاریوں کے گھروں کو لوٹ کر آگ لگارہے تھے اور ان کا قتل عام کر رہے تھے۔ پاکستان کی خواتین کو بے عزت (ریپ) کرنے کے بعد انہیں کلکتہ ( ہندوستان ) لے جا کر انٹر نیشنل ریڈ لائٹ ایریا ” سنارگھاچھی” میں فروخت کر رہے تھے۔ان بہاریوں کا قصور یہ تھا کہ وہ پاکستان پرست تھے متحدہ پاکستان چاہتے تھے اور پاکستان کے لئے اپنی جان ومال کی قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ ادھر سیاست اور مذاکرات سب ناکام ہوگئے تھے۔ سیاست دانوں نے مثبت رویہ نہیں اپنایا ، باغی عسکری اور نیم عسکری ، پولیس ،رضا کار ، مکتی باہنی کے مسلح نفری نے اپنے اپنے علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کردیا۔ پورے مشرقی پاکستان میں گشت وخون اور درندگی جاری تھی لیکن مغربی پاکستان کےاخبارات اس سے بے خبر تھے۔
جناب حسن اما م صدیقی اس کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: مغربی پاکستان کے سیاسی قائدین نے ڈھاکہ پہنچ کر شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کئے۔ادھر مشرقی پاکستان لہولہان ہوتا رہا ۔ چٹاگانگ ، کھلنا، جیسور ،راج شاہی، سانتاہار ،میمن سنگھ ،لال منیرہاٹ ، چپئی نواب گنج ،نانور، راج باڑی ،پاگسی و دیگر شہروں میں پاکستان کا ساتھ دینے کی بناپر بہاریوں کا قتل عام جاری رہا۔ صدر یحیٰ خان کی ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن سے 16 مارچ 1971ء سے مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ادھر مذاکرات نازک صورتحال کو مزید خراب کر رہے تھے۔ ہندوستانی افواج نے بھی مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر اشتعال انگیزی شروع کر رکی تھی اور بڑے ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا تھا۔شیخ مجیب کی قائم کردہ ” شنگرام پریشد ” ( انقلابی کونسل) نے چھوٹے بڑے شہروں ، دیہاتوں میں موجود باغی عناصر کو پاکستانی تنصیبات پر حملے تیز کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔ریل گاڑیوں پر بھی حملے شروع کردئیے۔ ٹرینوں پر حملہ ،آگ لگانے کے سلسلہ اور بہاریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے اقدامات میں تیزی آگئی، دولت گنج ، کو میلہ،اکھوڑا، سلہٹ ،حاجی گنج،فینی بازار و دیگر علاقوں کے ٹیلیفون ایکسچینج میں آگ لگادی گئی جس سے دوسرے علاقوں سے رابطہ ختم ہوگیا.
یکم مارچ 1971ء کو نارائن رائفل کلب اور دیگر دکانوں کو لوٹ کر ڈھاکہ یونیورسٹی کےاقبال ہال اور جگن ناتھ ہال میں ذخیرہ کر لیا۔2 مارچ 1971ء کو جناح ایونیو، بیت المکرم ،شالیمار ہوٹل ، گلستان سینیما، جوٹ مل، فارم گیٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں کو عوامی لیگ کے ورکروں نے لوٹ کر آگ لگادی اور وہاں موجود بہاریوں کو ختم کردیا، بیرون ملک کے میڈیا کے نمائندوں کو حکومت پاکستان نےڈھاکہ سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ وہ تمام صحافی ہندوستان چلے گئے خصوصاً کلکتہ میں اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ غیر مصد قہ خبران تک پہنچتی تھی جو کہ پاکستان کے خلاف تھی وہ اپنے اداروں کو بھیج دیتے تھے، ہندوستانی میڈیا ان خبروں کو مزید ہولناک بنا کر دنیا بھر میں پھیلادیتا تھا، پاکستانی میڈیا ان تمام باتوں سے لاعلم تھا یا اسے لا علم رکھا گیا۔
4 مارچ 1971ء کشتیا، جمال پور، سراج گنج گھاٹ، عبدالپور، بوگرا، ٹھا کر گاؤں ، ہلی دیناج پور، بھیڑا مارا، جے رام پور، گائے بندھا، ٹیلفا ماری پہاڑ تلی، چند گوٹا، کرنا فلی پیپر ملز، کپتائی کالونی ، حالی شہر،چاند پور ودیگر علاقوں میں کرفیولگا کر، گھروں کو آگ لگا کر تباہ کیا گیا، لاکھوں کی تعداد میں بہاریوں کو شہید کیا گیا۔5 مارچ 1971ء کو پورا مشرقی پاکستان مفلوج ہو چکا تھا، مشرقی پاکستان ومغربی پاکستان اور بیرون ممالک کے درمیان ٹیلی مواصلات ،ٹیلی فون اور ٹیلی گرام کا رابطہ ختم ہوگیا تھا،6 مارچ 1971ء کو چھا تھرو لیگ نے سنیٹرل جیل ڈھاکہ پر حملہ کر کے باغی قیدیوں کو چھڑا لیا۔ گورنمنٹ سائنس لیبارٹری ،پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ ودیگر اداروں کو جہاں بھاری تعداد میں بم بنانے کا کیمیکل موجودتھا لوٹ لیا گیا۔7 مارچ 1971ء کو شیخ مجیب نے متوازی حکومت بنانے کا اعلان کر دیا.
9ما رچ1971ء عوامی لیگ نےپورے مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کر دیں۔ 10 مارچ 1971ء کو سلہٹ ، کو میلہ ود یگر علاقوں میں چائے کے باغات پر حملہ کیا گیا اور وہاں پر موجود بہاریوں غیر بنگالیوں کو شہید کیا گیا۔14 مارچ 1971ء کو عوامی لیگ نے اپنے عہد ے داروں کو ڈپٹی کمشنر اور سب ڈویثرنل آفیسر کے اختیارات دے دئیے۔ ست کھیرا، درسنا ، بینا پول، مغل ہاٹ، کشور گنج ، اگرتلہ بارڈر پوسٹ کےذریعے بڑی تعداد میں ہندوستانی فوج اسلحہ عوامی لیگ کے کارکنوں تک پہنچارہے تھے .
22 مارچ 1971ء کو جنرل یحیٰ خان نے قومی اسمبلی کا ہونے والا اجلاس ملتوی کر کے 2 اپرایل 1971ء کو منعقد کرنے کا اعلان کر دیا تاکہ شیخ مجیب الرحمن سے ہونے والے مذاکرات کو حتمی شکل دینے کے لئے کچھ مہلت مل جائے۔ اس اعلان کے بعد عوامی لیگ کے عسکری ونگ اور دیگر تربیت یافتہ فوجی ،عسکری اداروں کے جوانوں نے پورے مشرقی پاکستان میں قیامت ڈھادی ،سویلین آباد یوںکاروں کے ساتھ ساتھ پاک آرمی، ای ۔پی۔ آراورای، بی ،آر کے غیر بنگالی افسران کی فیملیوں کی بے حرمتی اور شہید کرنا شروع کردیا، عورتوں کو برہنہ کر کے شہر میں گھمایا گیا، انھیں شہیدوں کا خون پلا یا گیا،جھم جھم پورکالونی،رام نگر کالونی، مبارک گنج،حافظ جوٹ مل ،اصفہائی جوٹ ملز ،امین جوٹ ملز، کریسنٹ جوٹ ملز، اسٹار جوٹ ملز، پیپلز جوٹ ملز ، چورکائی،پھول باڑی و دیگر علاقوں میں مقیم غیربنگالیوں کو شہید کر دیا، ان کے گھروں کوآگ لگا کر مال واسباب لوٹ لیا گیا، یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات اور گفت وشنید ہورہی تھی، حالات سول انتظامیہ کےکنٹرول سے باہر ہوگئے ادھر باغی سپاہیوں نے 26مارچ 1971ء کی صبح ایک بڑی حملے کی تیاری کر چکے تھے.
جنرل یحیٰ خان 25 مارچ 1971ء کی شام مذاکرات کی ناکامی کے بعد کراچی روانہ ہوگئے،بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو بھی 26 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ سے کراچی روانہ ہوگئے ۔25 مارچ 1971ء کی رات کو ملک دشمنوں کے حملہ کرنے سے چند گھنٹہ قبل پاکستانی افواج نے اپنی بیرکوں سے نکل کر باغیوں کا صفایا کرنا شروع کردیا، پورے مشرقی پاکستان میں قدم قدم پر شہادتیں پیش کرتے ہوئے دوبارہ پاکستان کی حاکمیت قائم کی۔ پاکستانی پرچم بلند کیا، مشرقی پاکستان میں ای ۔ پی۔ آراورای ۔ بی۔ آراور پولیس کے بغاوت کے بعد عسکری نفری کی کمی ہوگئی ہیں اس کو پورا کرنے کے لیے ایسٹ پاکستان سے سول آرمڈ فورس (EPCAF) کا قیام عمل میں لایا گیا، بہاری اسکول کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں نے مادر وطن کے دفاع کے لئے پاکستانی آرمی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ،چند ہفتوں کی ٹریننگ کے بعد بڑی تعداد میں دشمنوں اور باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک پر قربان ہوگئے ۔ یہ جنگ جو اپنی ہی سرزمین پراپنوں اور غیر وں دونوں سے لڑی گئی۔ عوامی لیگ کے ورکرز اور دیگر باغی عناصر ہندوستان فرار ہوگئے اور وہاں ہندوستان نے ان کی ہر طرح کی میز بانی کی۔ گوریلہ تربیت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے ہتھیار چلانے کی تربیت دی، بڑی تعداد میں ان شرپسند باغیوں کی رہائش کے لئے کیمپ بنائے گئے جس میں ہر قسم کی سہولیات میسر تھیں۔
عوامی لیگ نے باغی کر نل عثمانی کو کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔ کرنل عثمانی نے پورے مشرقی پاکستان کو دفاعی نقطہ کے لحاظ سے گیارہ سیکڑوں میں تقسیم کردیا، بین الاقوامی سازش اور اپنوں کی کوتاہی کے سبب 16 دسمبر1971ء کو غروب ڈھاکہ ہوگیا، ہمارے سیاسی قائدین مثبت انداز میں بہتر طور پراپنا نقطہ نظر پیش نہیں کر سکے۔ جس کے نتیجے میں یہ عظیم سانحہ رونما ہوا، ایک محتاط انداز ے کے مطابق پندرہ لاکھ سے زیادہ بہاری شہید ہوئے۔ زندہ بچ جانے والے بہاری وہ آج بھی پاکستان آنے کے انتظار میں بنگلہ دیش کے چھیا سٹھ کیمپوں میں محصور اور قید وبند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ انھیں پاکستان لاکر ان کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا اور حب الوطنی کے جذبے کو مزید ابھارا جاتا ، یہ مادر وطن سے محبت کرنے والوں کے لئے عظیم تحفہ بھی ہوگا اور پاکستانیوں کے لئے صراط مستقیم بھی ہوگا ورنہ قیامت کے دن اللہ کے حضور سب کوجواب دینا ہوگا۔اس پانچویں باب میں 149 لوگوں کا انٹرویو ہے جنہوں نے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملٹری ایکشن بالکل جائز تھا۔149 لوگوں میں سے صرف ایک خاتون کا انٹرویو بیان کرونگا۔
ایک بہاری خاتون ( کتاب کا صفحہ نمبر198)کی کہانی:
بیس سالہ سکینہ بی بی نیل ماٹی Neelmati دینا ج پورمیں رہتی تھیں۔ ان کے شوہر عبدس شکور کو22 مارچ1971ء کو بنگالی باغیوں نے شہید کردیا انھوں نے اپنی بھیانک حالت زار بیان کی ہے۔” ہمارے علاقے میں بہاری جھونپریوں میں رہتے تھے ۔رات کے وقت بنگالی باغیوں کے غول نے جس کاکام لوگوں کو قتل کرنا تھا۔ ہمارے علاقے پر حملہ کردیا۔ پہلے انھوں نے ہماری جھونپریوں کو لوٹا پھر نذر آتش کردیا۔ آدھے گھنٹے میں ہی ہمارے علاقے کے تمام مردوں کو گولی ماردی ۔انھوں نے میرے شوہر کو گھاس کاٹنے والی درانتی سے زخمی کر دیا پھر اسے گولی ماری۔ تمام بہاری مردوں کو قتل کرنے کے بعد تقریباً چار سوغم زدہ خواتین کو قطار میں کھڑا کردیا اور بندوق کی نوک پر انھیں برہنہ کردیاجب ایک حملہ آور نے میرے چہرے کے سامنے درانتی لہرا کرمیرے کپڑے کاٹ دئیے تو میں نے اپنا گلا کاٹنے کی کوشش کی۔
ان لوگوں نے بندق تان کر ہمیں عریاں حالت میں پیریڈ کرنے کے لئے مجبور کیا۔ چند خواتین نے فرار ہونے کی کوشش کی توانہیں بندوق برداروں نے مار ڈالا۔ میں نے اپنے بھائی کی بیوی کو دیکھا تو اس نے بتایا کہ اسکے شوہر اور ننھے بچے کو قاتلوں نے مارڈالا ہے۔ ہم لوگ پانچ میل چل کر Narkul danga پہنچےتوصرف 150 قیدی خواتین بچی تھیں۔ چند کو ماردیا گیا ۔کئی کو راستے میں دوسرے باغیوں کے گروپ لوٹ کے مال میں سے اپنا حصہ سمجھ کر لے گئے ان میں سے ایک میری نند بھی تھی جو نوجواں اور خوبصورت تھی۔ میں نے اسے دوبارہ پھر نہیں دیکھا۔ بنگالی اغوا کاروں نے ہمیں چھ جھونپڑیوں میں رکھا پہلے تین دن ہمیں کھانے کو ایک لقمہ بھی نہ ملا ہم لوگوں نے پانی اور درختوں سے حاصل کردہ جنگلی پھلوں پر گزار ہ کیا ۔ ہمارے قید کے عرصے میں بے بس قیدی عورتوں کو متعدد بار عصمت درازی(rape) کا سامنا کرنا پڑا۔چھ نو عمر لڑکیوں نے فرار ہونے کی کوشش کی انھیں گولی مار دی گئی۔10 اپریل 1971ء کو جب پاک فوج نے باغیوں کو للکار ہ تو پسپاہوتے ہوئے بنگالیوں نے ہم سب کو قتل کرنا چاہا لیکن عین وقت پرپاک فوج نے ہمیں بچالیا۔ سکینہ دوبرسوں تک ڈھاکہ میں رہیں پھر جنوری 1974ء میں انھیں کراچی لایا گیا۔
چھٹا باب : Mukhi Bahini and Indian Army on Killing Spree
مکتی باہنی اور ہندوستانی فوج کی قتل عام کی سرگرمیاں: اس میں مارچ1971ء سے لے کر 29 جنوری 1972ء تک پاکستان کے انگریزی اور اردو اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو شامل کیا گیا ہے۔
ساتواں باب: Conclusion and way forward
نتیجہ اور آگے بڑھنے کا راستہ: یہ باب تین صفحات پر مشتمل ہے۔ اس بات کا شور وغل مچایا گیا کہ پاکستانی افواج نے لاکھوں بنگالیوں کا قتل کیا اور بہت ساری خواتین کی عصمت درازی کی۔شیخ مجیب الرحمٰن کا یہ بیانیہ ان کے اپنے ہی قائم کردہ کمیشن کی20 اگست 1972ء کے رپورٹ کے مطابق 30,000 ہزار لوگ قتل ہوئے اور 2،860 کی عصمت دری ہوئی۔ لیکن اس بات کاتعین نہ ہوسکا کہ ان کی عصمت دری کس نے کی۔7 جون2015ء کو نریندرمودی ہندوستان کے وزیراعظم نے بنگلہ دیش کے قیام میں ہندوستان کے جرم کے اعتراف نے ہندوستان کا اصل چہرہ دیکھایا ہے۔اب اس بات کاراستہ نکالنا چاہیے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات تو بہترہوں جس کے لئے ہر سطح پرکام کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں میڈیا کرکٹ منسٹری آف فارن افیئرز ، NGOتجارت وغیرہ بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں تاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کےتعلقات 1975-2008کےجیسے ہوجائیں۔
بہاری مسلمان کون؟ :اس عنوان کے تحت اس کتاب میں ایسا کوئی مضمون نہیں ہے۔ صرف حاضرین محفل کے علم میں لانے کے لئے یہ باتیں بتار ہا ہوں۔ اگر ایک دوصفحات لکھ دئیے جائیں کہ بہاری مسلمان کون ہیں تو کیا ہی اچھا ہو۔بہار میں ہندوستان کے ہر حصے کے لوگ بلکہ ایران، افغانستان ، عراق اور وسطی ایشیا کے لوگ آکر آباد ہوئے ۔جیسے میرے بزرگ عراق سے افغانستان آئے۔ اور دوسوبرس غزنی کے پاس ایک گاؤں بنت نگر میں رہے پھر دہلی آئے۔ فیروزخان تعلق کے دور میں سپہ سالار بنے اور انہیں بہار فتح کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ بہار فتح کرنے کے بعد وہ بہار میں ہی بس گئے۔ خلیجوں کےد ور میں یہ ان کا داالخلافہ تھا۔ شیر شاہ سوری نے یہاں پٹھانوں کے چار سود یہات بسائے۔مغل، خلجی، ملک، سید بخاری وغیرہ یہاں آباد ہوئے اور آج کے بہاری ان ہی کی نسلیں ہیں۔
اگر آپ گوگل پر لکھیں۔ Pathans in Bihar تو آپ کو اس کی تفصیل مل جائے گی۔ پٹھانوں میں سوری ، شیروانی ، آفریدی ،خٹک ، بیتانی (Beetani) لودھی ، تنولی ،ادرک زئی اور غوری ہیں، جوپٹھان سے بہاری بن گئے ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ آدھے سے زیادہ بہار پنچابیوں نے بسایا ہے۔مثلاََشادی بیاہ کے موقعوں پر جو پکوان تلے اور بنائے جاتے تھے وہ دونوں جگہ اک ہی طرح کے ہیں۔گاؤں کے نام بھی ملتے جلتے ہیں۔ مثلاََپنجاب میں چک بیلی، تووہاں ملک چک، پنجاب میں ڈھڈیال تو بہارمیں ڈھونڈا اسلام آباد میں پیر سوہاوہ کی سڑک پر ایک گاؤں کا نام تلہاڑ کا بورڈلگا ہے۔ جب کہ بہار میں تلہاڑہ ہے، جہاں 1946ء میں 800 لوگ مارے گئے وہاں مشہور شاعرکلیم عاجز کے بھی 22 گھر والے مارے گئے صرف یہ دوبھائی گاؤں میں نہ ہو نے کی وجہ سے بچ گئے لیکن پاکستان نہ آئے،کلیم عاجز مرحوم کا یہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا۔
دامن پر کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔
پوری کتاب کا جائزہ:
ان کی معلومات کا دائرہ وسیع ہے ان کی یہ تازہ ترین کتاب ہے مشرقی پاکستان ( بنگلہ دیش) کے متعلق ،معلومات ، تاریخ کے ساتھ درج ہے۔ معاشی ثقافتی لسانی اور دیگر اکائیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جنید احمد کشادہ دل رکھنے والے خصوصاً پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے سیاسی اور نظریاتی افکار اور ہونے والی تبدیلیوں کو تاریخ کے نقطہ نظر سے اپنی پچھلی کتابوں کے صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے، اس کتاب میں انھوں نے لسانی اکائیوں کو نہایت تفصیل سے پیش کیا۔ یہ ایک ریسرچ ورک ہے جو پی ایچ ڈی (PhD) سی ایس ایس (CSS) کے امتحان میں شریک ہونے والے طالب علموں اور مشرقی پاکستان پر تحقیق کرنے والے لوگوں کے لئے بہترین کتاب ہے۔ڈاکٹر جنید احمد نے بنگالی زبان، کلچر اور ثقافت کا اردو زبان وادب سے باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ ہر پاکستانی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے خاص کر نئی نسل کو جن کو یہ معلوم نہیں کہ بنگلہ دیش کانام مشرقی پاکستان تھا اور یہ پاکستان کا ہی ایک حصہ تھا۔
کچھ تو نہیں بدلا:
ڈاکٹر جنید احمد سے التماس ہے کہ اب وہ 1971ء کے بعد سے آج تک کی پاکستان کی تاریخ لکھیں۔
دس ستمبر2024ء کونیشنل بک فاؤنڈیشن میں عہد ساز جناب احمد فراز کی سولہویں برسی کے حوالے سے”بیاد فراز” کے عنوان سے ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس میں مہمان خصوصی محترمہ مہتاب اکبر راشدی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے سندھی کالموں کے چھ مجموعے شائع کر چکی ہیں اور اردو کا لموں کا بھی مجموعہ شائع کر رہی ہیں اس کا نام ” کچھ تو نہیں بدلا” رکھا ہے۔ تو جناب جیند احمد صاحب کی یہ کتاب میں نے پہلے پڑھی پھر اسے ٹیکسٹ بک کی طرح پڑھا تو واقعی اندازہ ہوا کہ ” کچھ تو نہیں بدلا” 1947ء سے1958ء تک سیاسی جماعتوں میں حصول اقتدار کے لئے ریشہ دوانیاں، سازشیں ،پھر 1958ء سے1971ء تک مارشل لاء کبھی باپردہ کبھی بے پردہ رہا۔ سب کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان 16 دسمبر1971ءکو الگ ہوا لیکن میری نظر میں 7 اکتوبر1958ء کو جب پہلا مارشل لاء لگا تب علیحٰدہ ہوا۔ میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا لیکن ہم غیر سیاسی استحکام کے دور میں جی رہے ہیں۔ آخر میں یہ کہوں گا کہ اس کتاب کو پڑھ کر ” یا د تازہ ہوئی بھولے ہوئے افسانوں کی۔”
آخر میں دعا گوہوں کہ پاکستان کا اللہ نگہبان ہو۔”آمین”
(یہ مضمون 26 ستمبر2024 کو Institute of Regional Studies Islamabad میں منعقد ہونے والی تقریب میں پڑھا گیا)۔